پچاس فیصد بچے عمر کے لحاظ سے نامناسب کمپیوٹر گیمز کھیلتے ہیں، کیسپرسکی سروے میں تشویشناک انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
اسلام آباد : کیسپرسکی کی جانب سے کروائے گئے ایک حالیہ سروےکے مطابق، سروے کیے گئے 47 فیصد والدین کا خیال ہے کہ ان کے بچے ایسی کمپیوٹر گیمز کھیلتے ہیں جو ان کی عمر کے لیے نامناسب ہیں۔ سروے کی بنیاد پر، لڑکے لڑکیوں کے مقابلے اس طرح کے رویے کا زیادہ شکار ہوتے ہیں – بالترتیب 50 فیصد اور 43 فیصد بچوں نے اپنے کمپیوٹر پر گیمز کھیلتے ہوئے عمر کے رہنما اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
”گروونگ اپ آن لائن” کے عنوان سے سروے ٹولونا ریسرچ ایجنسی نے کیسپرسکی کی درخواست پر 2023-2024 میں کرایا تھا۔ سروے میں 5 ممالک: ترکی، جنوبی افریقہ، مصر، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات سے 10000 آن لائن انٹرویوز (3 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کے ساتھ 5000 والدین اور بچوں کے جوڑے) شامل تھے۔ یہ ممکن ہے کہ والدین کمپیوٹر گیمز میں عمر کی پابندیوں کی خلاف ورزی کے مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، یا بچے ہمیشہ ان پابندیوں سے واقف نہیں ہوتے ہیں: خود بچوں کے مطابق، ان میں سے صرف 28 فیصد ایسے کمپیوٹر گیمز کھیلتے ہیں جو ان کی عمر کے لیے نامناسب ہوتے ہیں، جو سروے کیے گئے والدین کے بیان سے کافی حد تک کم ہے۔
کمپیوٹر گیمز کھیلنا نوجوانوں کے لیے اپنا فارغ وقت گزارنے کا ایک عام طریقہ ہے۔ سروے کے مطابق، 34 فیصد بچے ہفتے میں ایک سے تین بار کمپیوٹر گیمز چند گھنٹے کھیلتے ہیں، جب کہ اس سے کچھ کم بچے (30 فیصد روزانہ ایک سے دو گھنٹے گیمنگ میں گزارتے ہیں۔
کیسپرسکی کے ہیڈ آف کنزیومر چینل سیف اللہ جدیدی کے مطابق ”والدین اکثر پریشان ہوتے ہیں کہ ان کے بچے کمپیوٹر گیمز کھیلنے میں بہت زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔ یقینا، یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ بچہ معمول کی پیروی کرتا ہے، کافی نیند لیتا ہے، اسکرین سے وقفہ لیتا ہے، اور جسمانی طور پر متحرک ہے، تاہم والدین کو ہر چیز کے لیے کمپیوٹر گیمز کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ والدین کو اس حوالے سے ایک فعال پوزیشن لینا چاہیے، ویڈیو گیم انڈسٹری کی طرف سے پیش کردہ تازہ ترین مصنوعات میں دلچسپی لینا چاہیے، اور یقیناً، اپنے بچوں کی گیمنگ کی ترجیحات کو سمجھنا چاہیے اور عمر کی حد کے نشانات پر توجہ دینا چاہیے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج، مختلف قسم کے کھیل پیش کیے جا رہے ہیں، جن میں سے اکثر میں تعلیمی مواد بھی شامل ہے، اور اس لیے ہم تجویز کرتے ہیں کہ اس قسم کی تفریح پر پابندی نہ لگائیں، بلکہ سمجھوتہ کرنے کی کوشش کریں۔”
بچوں کو آن لائن محفوظ رکھنے کے لیے، کیسپرسکی تجویز کرتا ہے کہ والدین کو اس میں دلچسپی پیدا کرنی چاہیے کہ آپ کے بچے کون سے کھیل کھیلتے ہیں۔ مثالی طور پر، آپ کو ان گیمز کو خود آزمانا چاہیے۔ اس سے آپ کے خاندانی تعلقات میں مزید اعتماد پیدا کرنے میں مدد ملے گی اور آپ کو یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ آپ کا بچہ کس چیز میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اگر آپ نے دیکھا کہ آپ کا بچہ بہت زیادہ کھیلتا ہے، تو اسے کسی اور دلچسپ مشغلے میں شامل کرنے کی کوشش کریں۔ موجودہ سائبر خطرات سے آگاہ رہیں اور ان سے بات کریں۔ آپ کے بچے ان خطرات کے بارے میں جن کا انہیں آن لائن سامنا ہو سکتا ہے۔ انہیں سکھائیں کہ آن لائن خطرات کا مقابلہ کیسے کریں اور دھوکہ بازوں کی چالوں کو پہچانیں۔ اپنے بچے کی ڈیوائسز پر کیسپرسکی سیف کڈز جیسے پیرنٹل کنٹرول پروگرام استعمال کریں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہوتے ہیں کے مطابق ا ن لائن کے لیے عمر کے کے بچے
پڑھیں:
گاڑیوں کی فروخت میں رواں برس اب تک 18 فیصد کا اضافہ؛ وجہ کیا ہے؟
پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن ( پاما) کے مطابق مارچ 2025 میں گاڑیوں کی فروخت میں گزشتہ سال اسی ماہ کے مقابلے میں 18 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پاما کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 9 مہینوں میں گاڑیوں کی فروخت میں گزشتہ مالی سال کے پہلے 9 مہینوں کے مطابق 46 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
واضح رہے کہ پاما کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 9 مہینوں میں اب تک پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ گاڑیاں فروخت ہوئیں۔ جبکہ گزشتہ مالی سال اسی عرصے کے دوران 1 لاکھ سے بھی کم گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں۔
پاکستان میں ایک عرصے کے بعد گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس اضافے کے پیچھے وجہ کیا ہے؟ اور کیا اب لوگ بہ آسانی گاڑی خرید سکتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیے چینی ساختہ الیکٹرک گاڑی ’ڈونگ فینگ بکس‘ پاکستان میں لانچ، قیمت کیا ہے؟
آل پاکستان کار ڈیلر ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایم شہزاد اکبر نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم گزشتہ برس کے مقابلے میں حالیہ اعدادوشمار دیکھیں تو اس میں تھوڑا سا پروڈکشن اور فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن چند برس قبل تک یہ سالانہ اعدادوشمار تقریباً اڑھائی لاکھ سے اوپر ہوتے تھے۔ مگر اس وقت جو بھی ہو رہا ہے، اس کے باوجود ہم اپنی اس شرح سے اب بھی پیچھے چل رہے ہیں۔ اور یہ کوئی بہت اچھی فروخت نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آج بھی دنیا کی مہنگی ترین گاڑی ہم عوام کو اسمبل کر کے دے رہے ہیں۔ یہ گاڑیاں قوت خرید میں نہیں ہیں۔ اور اس فروخت میں اضافے کی وجہ بھی شرح سود میں کمی ہے لیکن شرح سود میں کمی کے باوجود گاڑیوں کی فروخت میں کوئی ریکارڈ اضافہ نہیں دیکھنے میں آیا۔ کیونکہ گاڑیوں کی قیمتیں تو وہیں ہیں۔ اس لیے اس وقت ہمیں اشد ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں مینوفیکچرنگ ہو۔ ملک میں لوکلائزیشن اور میڈ ان پاکستان کار ہونی چاہیے۔ تب کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں گاڑیوں کی قیمتیں کم ہوں گی۔ اور عوام بھی تب ہی اس قابل ہو گی کہ زیادہ گاڑیاں خرید سکے۔
ایک سوال کے جواب پر انہوں نے کہا کہ جب تک ملک میں لوکلائزیشن نہیں ہوتی، اس وقت تک میں نہیں سمجھتا کہ آٹو سیکٹر کی بحالی کوئی اچھے پیمانے پر ہوگی۔ ہمارے ملک میں سستی اور معیاری گاڑی نہیں ہوگی، اس وقت ملک میں یہ صنعت ترقی نہیں کر سکتی۔ اور مڈل کلاس کے لوگ تو اب بھی گاڑی نہیں خرید سکتے۔ کیونکہ گاڑی صرف پاکستان میں ایلیٹ طبقہ ہی افورڈ کر سکتا ہے۔ پاکستان میں گاڑی کے نام پر جو کوالٹی بیچی جاتی ہے، اس کی بات نہ کرنا ہی بہتر ہے۔
یہ بھی پڑھیے گوگو کی الیکٹرک گاڑیوں کی قیمتوں میں 10 لاکھ روپے سے زائد کمی، مگر کیوں؟
گزشہ 20 برس سے گاڑیوں کی خریدوفروخت کا کاروبار کرنے والے ایک ڈیلر کا کہنا تھا کہ شرح سود میں کمی کے بعد گاڑیوں سمیت تقریباً تمام سیکٹرز میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
پاکستان میں گاڑی کی قیمت حد سے زیادہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عام بندہ نیٹ کیش پر گاڑی خریدنا افورڈ نہیں کر سکتا۔ شرح سود میں کمی سے اتنا ضرور ریلیف ملا ہے کہ وہ افراد جو گاڑیاں خریدنے کے خواہشمند ہیں، وہ بہ آسانی بینک فنانشل کے ذریعے گاڑی لے سکتے ہیں۔
جو گاڑی انہیں گزشتہ برسوں کے دوران تقریباً ڈبل قیمت میں پڑ رہی تھی، اب وہی گاڑی کم از کم انہیں آدھے لون پر پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے لیے آسان طریقے سے گاڑی حاصل کرنا قابل استطاعت ہو چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آٹو سیکٹر اس وقت پہ بحال ہو سکتا ہے۔ جب صرف شرح سود میں ہی کمی نہ ہو۔ بلکہ گاڑیوں کہ قیمتوں میں بھی کمی ہو۔ اور سہی وقت عام عوام کے لیے گاڑی خریدنے کا اسی وقت ہوگا۔ جب گاڑی کی قیمت اور شرح سود دونوں ہی کم ہوں۔
ایم سی بی بینک کے آٹو لان مینیجر محمد عدنان کا کہنا تھا کہ شرح سود میں کمی کے بعد عوام کا بینک فنانسنگ پر گاڑی لینے کا رجحان کافی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ شرح سود میں کمی کے بعد عوام نے بینکوں میں سیونگ کے لیے رکھے گئے پیسے بینکوں سے نکال لیے ہیں۔ جس کے بعد اب وہ مختلف سیکٹرز میں انویسٹ کر رہے ہیں۔
گاڑی پاکستان میں اب ایک سیونگ کا نظام بن چکی ہے۔ کیونکہ پاکستان میں گاڑیاں کافی مہنگی ہیں اور گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی مشکل ہی سے ہوتی ہے، اس لیے لوگ گاڑی کو انویسٹمنٹ کے طور پر خرید رہے ہیں۔ لوگوں کے لیے بینک سے انتہائی کم شرح سود پر گاڑی لینا کافی منافع بخش ہو چکا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں