WE News:
2025-04-22@06:21:06 GMT

القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ، ملک ریاض کو سزا کیوں نہ ہوئی؟

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ، ملک ریاض کو سزا کیوں نہ ہوئی؟

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کو 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔ فیصلے میں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض، ان کے صاحبزادے علی ریاض، پی ٹی آئی رہنما شہزاد اکبر، ذلفی بخاری، ضیاالمصطفیٰ نسیم اور فرحت شہزادی کو بھی اشتہاری قرار دیتے ہوئے منقولہ وغیر منقولہ جائیداد ضبط کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ عدالت نے اشتہاری ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں جبکہ القادر ٹرسٹ کی پراپرٹی اور یونیورسٹی وفاقی حکومت کی تحویل میں دیے جانے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔

نیب کی جانب سے القادر ٹرسٹ کیس کی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں واقع 458 کنال سے زیادہ زمین عطیہ کی تھی جس کے بدلے میں مبیّنہ طور پر عمران خان نے ملک ریاض کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا۔

یہ بھی پڑھیں 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کا تحریری فیصلہ جاری، اہم نکات اور پس منظر

دراصل یہ وہ رقم تھی جو برطانیہ میں غیرقانونی پیسے سے جائیداد رکھنے پر پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے ضبط کی گئی تھی۔ یہ رقم برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی طرف سے ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دے کر پاکستان کو لوٹائی گئی، تاہم مبینہ طور پر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر یہ رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ میں چلی گئی جس میں ملک ریاض کو عدالتی حکم پر بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں 460 ارب روپے جمع کرانے کا کہا گیا تھا۔

وی نیوز نے قانونی ماہرین، نیب پراسیکیوٹر اور کورٹ رپورٹر سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس کیس میں ملک ریاض کو سزا نہیں ہوسکی۔

سابق نیب پراسیکیوٹر اور ماہر قانون عمران شفیق نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس کیس میں ملک ریاض کو اس لیے سزا نہیں ہوئی کیونکہ وہ اس کیس میں اشتہاری ہیں، عدالت نے ان کے دائمی وارنٹ جاری کردیے ہیں اور ان کے اثاثے ضبط کرنے کا حکم دیا ہے، اب جب کبھی ملک ریاض پاکستان آئیں گے تو ان کو گرفتار کیا جائےگا اور پھر دوبارہ سے ان کے خلاف اسی کیس کا ٹرائل شروع کیا جائے گا، جس کے بعد سزا یا بری کرنے کا فیصلہ سنایا جائےگا۔

عمران شفیق نے کہاکہ میرے خیال میں ملک ریاض اس کیس میں ملزم بنتے ہی نہیں، اس کیس کے تین ملزمان ہیں عمران خان، شہزاد اکبر اور ذلفی بخاری ہیں، کیوںکہ ملک ریاض پبلک آفس ہولڈر نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے کسی فیصلے سے یہ رقم ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی گئی۔

انہوں نے کہاکہ ملک ریاض کے خلاف نیب نے ملیر کینٹ کے استعمال سے متعلق ایک کیس بنایا تھا، اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے انہیں 465 ارب روپے کا جرمانہ کیا۔ ملک ریاض کو کیا اس لیے سزا دی جائے گی کہ ان کے پیسے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے ہیں؟ ان کو ملیر والے کیس میں سزا ہو سکتی تھی لیکن اس میں ڈیل کرلی گئی۔

سینیئر کورٹ رپورٹر ملک اسد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ملک ریاض کو اس کیس میں سزا اس لیے نہیں ہوئی کیونکہ وہ اشتہاری ہیں، ملک ریاض کے خلاف کیس کی فائل کو داخل دفتر کردیا گیا اور دائمی وارنٹ جاری ہوگئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی ملک ریاض پاکستان آئیں گے تو ان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف ٹرائل شروع کردیا جائے گا۔

انہوں نے کہاکہ نیب قوانین کے مطابق ملزم کی غیر موجودگی میں بھی ٹرائل ہوسکتا ہے لیکن اس سے عدالتی وقت کا بہت ضیاع ہوتا ہے کیونکہ جب کبھی کسی موقع پر ملزم ٹرائل میں شامل ہوتا ہے تو پھر دوبارہ سے کارروائی کا آغاز کیا جاتا ہے۔ اس وقت ملک ریاض کو کیس سے الگ کردیا گیا ہے اور اگر ملک ریاض یا دیگر ملزمان ٹرائل میں شامل ہوں گے تو اس کے بعد ان کا ٹرائل الگ سے شروع کیا جائےگا۔

ماہر قانون اور پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ملک ریاض اس وقت بیرون ملک میں ہیں اور اس کیس میں اشتہاری ہیں، قوانین کے مطابق تو سیکشن 512 کے تحت چالان جاری کرکے ان کے خلاف بھی ٹرائل ہو سکتا ہے لیکن عدالت نے اس کو زیادہ ضروری نہیں سمجھا۔

انہوں نے کہاکہ اب عدالت نے ان کے اثاثے ضبط کرنے کا حکم دیا ہے تو جو اثاثے ان کے نام پر ہیں ان کو ضبط کیا جائےگا جبکہ جو اثاثے کسی اور کے نام پر ہیں ان کو ضبط نہیں کیا جا سکتا، اس وقت ملک ریاض کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ پاکستان آئیں، اس کیس میں ان کا ٹرائل ہو اور پھر ان کو سزا دی جائے یا بری کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں وہ عالمی رہنما جن کو کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات پر سزا کا سامنا کرنا پڑا

حسن رضا پاشا نے کہا کہ ملک ریاض کو سزا دینے کے لیے حکومت کے پاس ایک اور آپشن یہ ہے کہ ان کے ریڈ وارنٹ جاری کیے جائیں، اگر پاکستان اور جس ملک میں وہ مقیم ہیں ان کے درمیان تحویل ملزمان کا معاہدہ ہے تو ان کو گرفتار کرکے پاکستان لایا جا سکتا ہے اور ان کے خلاف ٹرائل کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews القادر ٹرسٹ کیس بشریٰ بی بی پاکستان تحریک انصاف پراپرٹی ٹائیکون پی ٹی آئی عمران خان ملک ریاض وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: القادر ٹرسٹ کیس پاکستان تحریک انصاف پراپرٹی ٹائیکون پی ٹی ا ئی ملک ریاض وی نیوز القادر ٹرسٹ کی میں ملک ریاض ملک ریاض کو اس کیس میں ان کے خلاف کیا جائے نے کہاکہ عدالت نے سے گفتگو کرنے کا سکتا ہے کے لیے کا حکم کو سزا

پڑھیں:

پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟

ایک خبر نظر سے گزری جس پر ابھی تک حیرانی نہیں جا رہی۔ یہ ایک خبر ہی نہیں ہے بلکہ فکر انگیز موضوع ہے۔ اس سے ہمارے محفوظ یا غیرمستحکم مستقبل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس خبر کے مطابق کراچی کے 80سال کے ایک بزرگ نے کراچی کی فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی یے جس کا موضوع ’’کراچی میں ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت اور سامعین‘‘ تھا۔ اگر یہ خبر سچی ہے اور ملک بھر میں نمایاں ہوئی ہے تو سچی ہی ہو گی۔ لیکن دل ابھی تک نہیں مان رہا ہے کہ اس موضوع پر بھی کوئی کارآمد تھیسز لکھا یا لکھوایا جا سکتا ہے۔ ہمارے اہل علم اور سرکردگان فکری طور پر اس قدر تشنہ تکمیل اور کسمپرسی کا شکار ہو سکتے ہیں اس کا ابھی تک یقین نہیں آ رہا ہے۔ شائد یہ ہماری قومی تعلیمی ترقی کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کا پہلا واقعہ ہے کہ اس طرز کے کسی فضول اور لایعنی موضوع پر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی ہے! بہتر ہوتا کہ موصوف نے پی ایچ ڈی ہی کرنی تھی تو اس موضوع پر تین چار سال مغز ماری کرنے کی بجائے وہ کسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگری ہی خرید لیتے۔
ہاں یہ واقعہ پی ایچ ڈی کے 80سالہ طالب علم کے لئے قابل فخر ضرور ہے کہ انہوں نے اپنے علم و تحقیق کا شوق پورا کرنے کے لئے عمر کے اس حصے میں یہ غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس مد میں ان کی تحقیق کے شوق اور محنت کو تو سراہا جا سکتا ہے مگر موضوع کے انتخاب پر وہ کسی داد کے مستحق نہیں ہیں۔ اس خبر کے مطابق صاحب کی صحت ٹھیک نہیں تھی، انہیں مختلف اوقات میں چار دفعہ ہارٹ اٹیک اور ایک بار فالج کا حملہ ہوا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا۔ طالب علم کے علمی عزم اور استقلال کو ہم بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے پی ایچ ڈی کے لیئے اس موضوع کو منظور کیا ان کی عقل و بصیرت پر حیرت ہے کہ وہ اس موضوع پر پی ایچ ڈی کروا کر قوم و ملک اور دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔
تعلیمی دنیا میں پی ایچ ڈی ایک تحقیقی مقالہ ہوتا ہے جس میں کسی ایک خاص موضوع کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کروا کر اس کے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔ اس تحقیق میں بھی 5,000 سے زائد افراد(مرد و خواتین) نے حصہ لیا، اور اس میں انہوں نے ایف ایم ریڈیو کے سیاسی شعور، آفات سے متعلق آگاہی، ثقافت اور زبان پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی آرا پیش کیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اردو زبان کی وسعت یا متاثر کن گفتگو کے آداب وغیرہ کے کسی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھواتے، مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم علم و تحقیق کے میدان میں بھی اتنے ہی کرپٹ ہیں جتنے زندگی کے دوسرے معاملات میں ہیں یعنی آپ چاہیں تو کوئی سورس (جگاڑ) لگا کر اپنی کاروباری برانڈ پر بھی تحقیقی مقالہ لکھوا کر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دلوا سکتے ہیں یعنی ڈگری کی ڈگری اور کاروبار کا کاروبار!پی ایچ ڈی ہولڈر کو فلاسفی کا ڈاکٹر بھی کہا جاتا ہے۔ علمی کامیابی کی سب سے بڑی سطح پی ایچ ڈی (ڈاکٹر آف فلاسفی)ہے، جو کہ ڈاکٹریٹ کی تحقیقی ڈگری ہے۔ اس کا مطلب فلسفہ کا ڈاکٹر ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی کسی موضوع پر تحقیق کرتا ہے تو وہ اس میں خود کو غرق کر دیتا ہے، اس کی مکمل چھان بین کر کے اس کی تاریخ جاننے کی کوشش کرتا ہے، اس کے سیاق وسباق سے آگہی حاصل کرتا یے اور پھر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی تحقیق کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ اس کے بعد جس امیدوار کا لکھا ہوا پی ایچ ڈی کا مقالہ پاس ہو جاتا ہے وہ اپنے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا اضافہ کر سکتا ہے۔
عام میڈیکل ڈاکٹر وہ شخص ہوتا ہے جو کسی بیمار کے مرض کی تفتیش اور تشخیص کرتا ہے اور مریض کی جانچ پڑتال کے بعد اس کی صحت کی بحالی کے لئے دوا لکھ کر دیتا ہے۔ ہمیں زوال سے نکلنے کے لئے اپنے ہر شعبے میں پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ تشخیص کریں اور ہمیں بتائیں کہ ہمارے زوال کی اصل وجوہات کیا ہیں۔
میرے خیال میں وہ شخص جو جنون کی حد تک اپنے مضمون سے پیار نہیں کرتا، اس میں خود کو کھو نہیں دیتا اور جسے اپنے مضمون پر مکمل عبور اور دسترس نہیں ہوتی وہ حقیقی معنوں میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر کہلانے کا حق دار نہیں ہو سکتا ہے۔ اصل میں پی ایچ ڈی ہولڈر صحیح معنوں میں اسی وقت ڈاکٹر کہلاتا ہے جب وہ اپنے موضوع کا ایک سپیشلسٹ کی طرح ’’ایکسپرٹ‘‘ ہو جاتا ہے۔
ہماری پی ایچ ڈی ڈگریوں کی یونہی تنزلی جاری رہی تو آئندہ تاریخ کی پی ایچ ڈی کا عنوان ہو گا، ’’سکندر اعظم نے دنیا کو فتح کرنے کی بجائے ڈانس کی کلاس میں داخلہ کیوں نہ لیا‘‘ یا اردو زبان کی پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ہو گا، ’’بہادر شاہ ظفر کو اردو شعرا کے مشاعرے کروانا کیوں پسند تھے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب سرسید احمد خان نے ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور علامہ اقبال ؒنے ’’اسلامی عقیدے کی تشکیل نو‘‘ کے تحقیقی موضوعات پر خامہ فرسائی کی تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ اجاگر ہوا اور ’’اسلامی مملکت خداداد‘‘ وجود میں آئی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر پاکستان اب تک قائم ہے تو ہمارے علمی موضوعات ایسے ہونے چایئے کہ جس سے پاکستان دنیا کی ’’سپر پاور‘‘ بن سکے۔ محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار کو اس پر غور کرنا چایئے کہ وہ تعلیمی نصاب اور موضوعات کی سمت درست کرنے کی طرف توجہ دیں۔ اگر ہماری علمی اور تعلیمی تنزلی یونہی جاری رہی تو کچھ بعید نہیں کہ سیاسیات میں پی ایچ ڈی کے لیئے کسی کو اگلا موضوع ’’لوٹا کریسی‘‘ ہی نہ دے دیا جائے۔ اگر ریڈیو ایف ایم پر پی ایچ ڈی ہو سکتی ہے تو سیاسی لوٹوں پر پی ایچ ڈی نہ کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟

متعلقہ مضامین

  • فلم ’جوش‘ میں کاجول اور عامر خان نے شاہ رخ کیساتھ کام کرنے سے کیوں منع کردیا تھا؟
  • ریلوے ٹریک بحال ہونے کے 9 ماہ بعد سبی سے ہرنائی پہلی ٹرین کی کامیاب آزمائش
  • پاکستانی یوٹیوبرز کے بینک اکاؤنٹس کیوں بند ہوئے، اصل سبب کیا بنا؟
  • اسحاق ڈار اور امارات کے نائب وزیراعظم کی ملاقات، باہمی تعلقات مزید مضبوط بنانے پر زور
  • پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
  • ضروری سیاسی اصلاحات اور حسینہ واجد کے ٹرائل تک انتخابات قبول نہیں، جماعت اسلامی بنگلہ دیش
  • پاکستان کی بقا کے لئے کھوئی ہوئی لیڈرشپ کو تلاش کر نے کی ضرورت ہے، وزیر دفاع
  • پاکستان کو درپیش ویزہ مسائل کی بڑی وجہ فقیروں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے،خواجہ آصف
  • پاکستان کو درپیش ویزہ مسائل کی بڑی وجہ فقیروں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے،خواجہ آصف
  • زلزلہ کیوں آتاہے؟