ترجمان جے یو آئی نے علی امین گنڈاپور کو اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
لاہور:
ترجمان جے یو آئی نے علی امین گنڈاپور کو اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ قرار دے دیا۔
ترجمان جے یو آئی اسلم غوری نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈاپور خیبرپختونخوا کی سیاست میں ایک ایسا کردار ہیں جو اپنی خود ساختہ اہمیت جتانے کے لیے جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ شخص کینٹ کی آرام دہ پناہ گاہوں میں روپوش رہتا ہے اور باہر آ کر ٹی وی اسکرین پر بڑھکیں مارنے کا ماہر ہے۔
ترجمان جے یو آئی نے کہا کہ علی امین گنڈاپور کا اصل کردار ایک ناکام سیاسی مہرے سے زیادہ کچھ نہیں جسے اسٹیبلشمنٹ نے اپوزیشن کو کمزور کرنے کے لیے میدان میں اتارا ہے مگر اپوزیشن کو تقسیم کرنے کی ہر سازش ناکام ہوگی۔
اسلم غوری نے کہا کہ یہ وہی علی امین گنڈاپور ہے جو خیبرپختونخوا کی سرزمین پر کرپشن اور لوٹ مار کے جھنڈے گاڑ کر عوام کے وسائل کا جنازہ نکال چکے ہیں، ان کے لیے عوامی خدمت ایک مذاق، اور سیاست ذاتی مفادات کی دوڑ سے زیادہ کچھ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور جیسے کردار عمران خان کے قریب رہ کر بھی ان کے لیے شرمندگی کا باعث ہیں۔ یہ شخص اندرون خانہ معافیاں مانگتا ہے، اور باہر آ کر اپنی جعلی بہادری کے دعوے کرتا ہے، ڈی چوک میں اپنے کارکنوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر بھاگنے والے علی امین اب کس منہ سے سیاسی اخلاقیات پر بات کرتے ہیں؟ یہ وہی ہیں جن کی خودغرضی اور بزدلی نے تحریک انصاف کو شرمندہ کیا۔
ترجمان جے یو آئی کا مزید کہنا تھا کہ جے یو آئی نے 2018 اور 2024 کے انتخابات کو عوامی مینڈیٹ کی چوری قرار دیا ہے اور ایسے نتائج کو تسلیم کرنا اس قوم کے ساتھ غداری ہوگا، علی امین جیسے مہرے اس غداری کا حصہ بن چکے ہیں، علی امین گنڈا پور کی سیاست ایک دکان کی طرح ہے، جو جھوٹ اور دھوکہ دہی کے گاہکوں کو فروخت کی جاتی ہے مگر جے یو آئی ایسے کرداروں کو سیاسی میدان میں ہمیشہ کے لیے بے نقاب کرکے چھوڑے گی۔
واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمان تمہاری سیاسی حیثیت عمران خان کے مقابلے جتنی نہیں، تمہاری حیثیت نہیں کہ عمران خان کے ساتھ بیٹھ سکو۔
وزیراعلیٰ خیبرپختو نخوا کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کو خیبر پختونخوا کے انتخابات پر اعتراض ہے تو آئیں حلقے کھول لیتے ہیں، آپ کے جو چار 5 لوگ ہیں وہ بھی فارم 47 کے ہیں، آپ کا مینڈیٹ چوری نہیں ہوا، آپ بلوچستان سے بھی فارم 47 سے آئے ہیں، آپ کے ساتھ دھوکا ضرور ہوا ہے، جنہوں نے آپ کے ساتھ دھوکا کیا جو وعدے ہوئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے، ان کا نام لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی اس طرح کے بیانات دے گا تو بطور وزیراعلیٰ اس کا جواب دوں گا، جنہوں نے آپ کے ساتھ دھوکا کیا ہے ان کا نام لیں ہمارے اوپر بات نہ کریں۔ مولانا فضل الرحمان کہتا ہے میری تیسرے درجہ کی لیڈر شپ عمران خان سے ملے گی، مولانا فضل الرحمان تمہاری سیاسی حیثیت عمران خان کے مقابلے جتنی نہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمان علی امین گنڈاپور ترجمان جے یو آئی عمران خان کے جے یو آئی نے کے ساتھ کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
تحریک انصاف اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی، نامور صحافی کا انکشاف
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن ) نامور صحافی انصار عباسی نے اپنے بلاگ میں لکھاہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گزشتہ ایک سال کے دوران نئے عام انتخابات، حکومت کی تبدیلی اور 2024 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی مکمل تحقیقات کے اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔
نجی ٹی وی جیونیوز کے مطابق اب پارٹی کی مکمل توجہ جیل میں قید پارٹی قیادت بشمول سابق وزیر اعظم عمران خان کیلئے ریلیف کے حصول اور مخالفانہ ماحول میں سیاسی مقام کے دوبارہ حصول پر مرکوز ہے۔
پارٹی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما اب سمجھ چکے ہیں کہ تاریخی لحاظ سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تصادم فضول ہے۔ پی ٹی آئی کی سینئر شخصیات کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد کا گہرا فقدان ٹھیک نہیں ہو سکتا اور پس پردہ کوئی ڈیل ایسی ثابت نہیں ہو سکتی کہ جس سے عمران خان کی اڈیالہ جیل سے رہائی اور اقتدار کے ایوانوں میں دوبارہ واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔
پارٹی کی ایک سینئر شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کا اعتراف کیا کہ فی الوقت ہمارے لئے سب سے بہتر چیز یہ ہو سکتی ہے کہ اقتدار میں واپسی کے بجائے سیاسی بقاءکی حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ پارٹی کو سانس لینے کا موقع مل سکے اور 2028ء میں منصفانہ الیکشن ملے۔ پارٹی اب سمجھتی ہے کہ موجودہ ”ہائبرڈ سسٹم” (ایک اصطلاح جو اکثر اسٹیبلشمنٹ کے زیر تسلط سیاسی فریم ورک کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے) جاری رہے گا۔ یہ نظام ختم کرنے یا اسے کمزور کرنے کی پی ٹی آئی کی کوششیں ناکام رہی ہیں جس کیلئے پارٹی عوامی تحریکیں، عدالتی دباﺅ یا بین الاقوامی برادری سے اپیلوں
کا راستہ اختیار کر چکی ہے۔
پارٹی کا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ عدلیہ اپنی غیر جانبداری کھو چکی ہے جبکہ غیر ملکی حکومتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں خاص طور پر نوجوانوں اور شہری متوسط طبقے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت زیادہ ہے۔ تاہم پارٹی رہنما مانتے ہیں کہ اس عوامی حمایت سے سیاسی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا کیونکہ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ فوج کے ساتھ براہِ راست تصادم کی پالیسی غلط رہی۔ پارٹی کی صفوں میں ایک پریشان کن سوال جنم لے رہا ہے کہ اگر کوئی سمجھوتا ہوا بھی تو کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر دوبارہ بھروسہ کرے گی؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی سیاسی لحاظ سے ناقابل تصور ہے۔پی ٹی آئی کیلئے پریشان کن بات یہ ہے کہ مفاہمت کی خواہشات کے باوجود پارٹی کے بانی چیئرمین نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کیلئے پارٹی سوشل میڈیا کو بیان بازی میں نرمی لانے یا حکمت عملی تبدیل کرنے کیلئے نہیں کہا۔ اس کے برعکس، پارٹی سوشل میڈیا کا بیانیہ سخت تنقید پر مبنی ہے جس سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔
آئندہ کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ایک عملی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہئے، اپنے قیدی رہنماو¿ں کیلئے قلیل مدتی ریلیف حاصل کرنا، نچلی سطح پر دوبارہ منظم ہونا اور آئندہ عام انتخابات کیلئے تیاری شروع کرنا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ پارٹی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے تصادم کے بجائے بقائے باہمی کا راستہ چنتی ہے یا نہیں۔
لاہور سمیت ملک بھر میں زلزلے کے شدید جھٹکے
مزید :