دہلی سے یہ اچانک چیخ وپکار کیوں شروع ہوگئی ہے؟ بھارتی لیڈرشپ کو پاکستان کی طرف منہ کرکے ہذیانی انداز میں گالیاں بکنے اور الزام تراشی کرنے کا دورہ کیوں پڑگیا ہے؟ وہ تو اپنی فلم انڈسٹری اور میڈیا کے ذریعہ سے خود خطے کی سپر طاقت بناچکے تھے ، امریکی قوت کے تمام مراکز ان کے سر پر سایہ فگن تھے، پاکستان کے عاقبت نااندیش فتنہ پرور انتشاری بھی جی جان سے مودی کے مقاصد کی پاسداری پر یقین رکھتے تھے ۔ اس سب کےباوجود یہ اچانک کیاایسا ہوگیا کہ پہلے بھارتی وزیر دفاع’’ راج ناتھ سنگھ‘‘ اور اب آرمی چیف’’ اوپندرا دویدی ‘‘زباں وبیان کی چوکڑی بھول بیٹھے،الزام تراشی اور گالم گلوچ پر اتر آئے ، آخر کیوں ؟ یہ سب بےسبب تو ہو نہیں سکتا۔کل تک بھارت کی پالیسی یہ تھی کہ پاکستان تو مسئلہ ہی نہیں،ہمارا مقابلہ چین سے ہے ، اب پھر وہ پاکستان پاکستان چلانے لگا ہے،کیوں؟اس کا دکھ، اس کی پریشانی اور تکلیف ہم بہت اچھے سے جانتے ہیں،لیکن صد افسوس کہ بھارت کے دکھ کی اس گھڑی میں ہم بحیثیت فرد اور بحیثیت قوم قطعاً اس سے ہمدردی نہیں رکھتے، کیونکہ اس کا دکھ ہماری خوشی سے وابستہ ہے ، ان کی تکلیف ہماری ترقی اور کامیابی کا لازمی نتیجہ ہے۔
بھارتی آہ وبکا کی ٹائمنگ کو دیکھیں تو صاف سمجھ آتی ہے کہ ان کے درد کی وجوہات دو ہیں۔ اول یہ کہ پاکستان اور بنگلہ دیش جس تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں ، وہ بھارت کے لئے اک ڈرائونا خواب ہے ۔ اس نے ربع صدی کی محنت سے پاکستان کے اندر غدار خریدے ،میرجعفر وصادق کے وارث میر دریافت، ان کی مدد سے مشرقی پاکستان میں خون کی ہولی کھیلی ، قتل عام کیا، پاکستان کو دو لخت کرنے میں کامیابی حاصل کی ، اس بے شرمی کے’’ چہلم ‘‘ یعنی چالیس برس مکمل ہونے پر حسینہ واجد کی قیادت میں ڈھاکہ میں جشن منایا گیا اور اپنے میروں ، غداروں کے وارث بلا کر انہیں ایوارڈ دئیے گئے ۔ غیرت وحمیت سے تہی دامن وتہی دست میر جعفر کے یہ وارث اس قدر بے باک ثابت ہوئے کہ نہ صرف اپنی غداریوں پر ایوارڈ لینے جا پہنچے، بلکہ پاکستان کی افواج پر کیچڑ اچھالتے، شہدا کی توہین کرتے پاکستان سے معافی مانگنےکا مطالبہ بھی کرتے رہے ۔ دہلی سرکار اور اس کے ایجنٹ پاکستان میں 1971 جیسے مزید المیے تخلیق کرنے کے سازشوں میں مصروف تھے کہ ڈھاکہ جاگ اٹھا ، پاکستان کے خلاف لگایا گیا شیطانی مورچہ بنگالیوں کی غیرت ایمانی کے سامنے نہ صرف خس وخاشاک ثابت ہوا اور حسینہ واجد کو بھاگتے بنی بلکہ ڈھاکہ کے گلی کوچوں سے بھارت اور اس کے پالتو بنگلہ بدھو کی ایک ایک نشانی یوں کھرچ کر مٹادی گئی کہ اب کوئی نام لینے والا بھی نہیں بچا۔ یہ صدمہ ہی دہلی سرکارکے لئے کم وحشت ناک نہ تھا کہ اب بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات ، بیرونی مداخلت کے خلاف دونوں ممالک کی افواج کا اتحاد اور پاکستان سے دفاعی خریداری کے بنگلہ دیشی ارادے دہلی سرکار کو ہذیان بکنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ایسے میں وہ اپنے بال نہ نوچے تو کیا کرے؟بنئے کی تو ساری سرمایہ کاری ڈوب گئی، ممکن ہے بات یہاں تک محدود نہ رہے۔ جس بھارت کو ہم جانتے ہیں ، وہ زخمی سانپ کی طرح ڈسنے کی کوشش کرسکتا ہے ، لیکن فکر کی بات اس لئے نہیں کہ ہم اسے جانتے ہیں اور دانت توڑنے کا ہنر بھی ہمیں معلوم ہے ۔ بقول کسے ’’ ہم نے پون صدی سے بھارت کو ہی پڑھا ہے ، سمجھا ہے ، اسی سے نمٹنے کی تیاری کی ہے ، ہمارا ہدف کوئی اور ہے ہی نہیں ۔‘‘
دہلی سرکار کا دکھ صرف یہ نہیں کہ ڈھاکہ اور اسلام آباد قریب آرہے ہیں ، سازشوں سے الگ کئے گئے دو جڑواں بھائی پھر سے گلے مل رہے ہیں، اس کا دکھ ایک اور بھی ہے۔ جس کی تفصیلات بھارتی دفاعی تجزیہ نگار’’ دنیش کے ووہرا ‘‘ نے بیان کی ہیں ، ووہرا نے اپنے ایک ویلاگ میں دعویٰ کیاہے کہ بھارت پاکستان کی طرف سے جدید ٹیکنالوجی کے حصول اور حربی صلاحیتوں میں اضافے کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہے ۔ دہلی سرکار آج تک کہتی آئی ہے کہ وہ پاکستانی فوج کو کوئی خاص خطرہ نہیں سمجھتی ۔ تاہم چائنہ راہداری کی وجہ سے پاکستان کی حربی صلاحیتوں کے بارے میں بھارت کا خیال تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔دنیش کے مطابق معاشی چیلنجز کے باوجود،پاکستان کی فوج نے حربی صلاحیتوں میں تیزی سے اضافہ کیا ہے،خاص طور پر جدید ہتھیاروں کے حصول میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ تفصیل بیان کرتے ہوئے ووہرا نے کہاکہ پاکستان خطے میں ایک اہم قوت کے طورپر ابھر رہاہے، اس نے چین سے 40ففتھ جنریشن کے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حامل لڑاکا طیاروںJ-35کے حصول کے معاہدے کو حتمی شکل دے دی ہے، جن کی پاکستان کی فراہمی 2026کے آخر تک شروع ہوجائیگی، جبکہ بھارت اس کے برعکس ابھی صرف فورتھ جنریشن کے جنگی طیاروں کے حصول کی جدوجہد کر رہا ہے ، اس میں بھی وہ ابھی کامیابی سے کوسوں دور ہے ۔جس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنے ہمسایہ ملک سے بہت پیچھے ہے ۔پاکستان پہلے ہی ففتھ جنریشن کے لڑاکاطیاروں کے حصول کا معاہدہ کر چکا ہے جبکہ بھارت کے پاس ان جدید طیاروں کے حصول کا کوئی واضح منصوبہ ہی نہیں ہے۔ ووہراکہتا ہے کہ اس کے موقف کی تصدیق بھارتی فضائیہ کے سربراہ ائیر مارشل اے پی سنگھ کے حالیہ بیان سے بھی ہوتی ہے،جس میں وہ کہتا ہے کہ ’چین اور پاکستان دونوں نے بھارت کو جنگی صلاحیتوں کے شعبے میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ووہرا جدید فوجی ٹیکنالوجی کے حصول میں پاکستان کی پیشرفت کاحوالہ دیتے ہوئے کہتا ہےکہ بھارت اس شعبے میں چین سے کئی دہائیوں پیچھے تھاتاہم اب وہ پاکستان سے بھی ایک دہائی پیچھے رہ گیا ہے۔ ایک جانب چینی اشتراک سے j-35 پاکستان کے ترکش کو خطرناک بنا رہا ہے تو دوسری جانب ترکیہ کے KAAN سسٹم کے حصول کے بعد جلد ہی بھارت پرپاکستان کی برتری مزید واضح اور فیصلہ کن ہو جائیگی ۔ بھارت کا رونا یہ ہے کہ وہ اب بھی مگ 21 جیسے فرسودہ طیاروں پر انحصار کر رہا ہے۔ جنہیں بڑے پیمانے پر حادثات کا شکار ہونے کی وجہ سےاڑتے ہوئے تابوت کہاجاتا ہے ۔ ووہرا غالباً بھارتی نیول چیف کا رونا بھول گیا ہے ، جس نے دسمبر کے آخر میں ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ پاکستان نیوی مختصر وقت میں جس تیزی سے مستحکم ہوئی ہے ، وہ ہمارے لئے خطرہ ہے۔‘‘بہرحال بھارتی آرمی چیف ہو یا وزیر دفاع ہم یہی کہیں گے کہ تمہارا دکھ ہمیں معلوم ہے ، لیکن ہم دکھ کی اس گھڑی میں قطعاً تمہارے ساتھ نہیں ہیں ، خدا کرے کہ تمہارا یہ دکھ دن دگنی رات چگنی رفتار سے بڑھتا رہے۔ انشا اللہ
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ٹیکنالوجی کے کہ پاکستان پاکستان کے پاکستان کی کہ بھارت کے حصول تیزی سے رہے ہیں رہا ہے کا دکھ
پڑھیں:
امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) امریکی نائب صدر جے ڈی وینس آج پیر کی صبح نئی دہلی پہنچے جن کی شام کے وقت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات متوقع ہے۔ اس ملاقات میں دیگر اہم امور کے ساتھ ہی دو طرفہ تجارتی معاہدے پر بات چیت توجہ مرکوز رہنے کا امکان ہے۔
امریکی نائب صدر وینس اپنی اہلیہ کے ساتھ بھارت آئے ہیں، جو بھارتی نژاد ہیں اور ان کا تعلق ریاست آندھرا پردیش سے ہے۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں اس دورے کو اہم سمجھا جا رہا ہے، یاد رہے کہ یہ امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ کے درمیان ہو رہا ہے۔بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ دورہ "فریقین کو دو طرفہ تعلقات میں پیش رفت کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرے گا" اور ملاقات کے دوران دونوں رہنما "باہمی دلچسپی کی علاقائی اور عالمی امور کی پیش رفت پر خیالات کا تبادلہ کریں گے۔
(جاری ہے)
"امریکی ادارے کا بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' پر پابندی کا مطالبہ
وزیر اعظم مودی کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں فروری میں مودی کے دورہ امریکہ کے دوران طے پانے والے دو طرفہ ایجنڈے کی پیش رفت پر توجہ مرکوز کرنے کا امکان ہے۔ اس ایجنڈے میں دو طرفہ تجارت میں "انصاف پسندی" اور دفاعی شراکت داری میں توسیع جیسے امور شامل ہیں۔
بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے، "ہم بہت مثبت ہیں کہ یہ دورہ ہمارے دو طرفہ تعلقات کو مزید فروغ دے گا۔"
بھارت کے لیے اہم کیا ہے؟امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ امریکی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس دونوں ممالک کی باہمی تجارت 129 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی، جس میں بھارت کے حق میں 45.7 بلین ڈالر کا سرپلس ہے۔
مودی ان پہلے عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں، جنہوں نے دوسری بار اقتدار سنبھالنے کے بعد صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ بھارتی حکومت نے امریکہ سے برآمد کی جانے نصف سے زیادہ اشیا پر ٹیرف میں کمی کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔
ٹرمپ کا بڑے پیمانے پر عالمی ٹیرف کا اعلان، پاکستان بھی متاثر
مودی اور ٹرمپ کے درمیان اچھے تعلقات کا ذکر عام بات ہے، البتہ امریکی صدر نے بھارت کو "ٹیرف کا غلط استعمال کرنے والا" اور "ٹیرف کنگ" تک کہا ہے۔
ٹرمپ نے بھارتی درآمدات پر 26 فیصد ٹیرف کا اعلان کیا ہے، جس پر فی الوقت 90 دنوں تک کے لیے روک لگی ہوئی ہے اور اس سے بھارتی برآمد کنندگان کو عارضی راحت بھی ملی ہے۔
امریکی نائب صدر وینس اس ماہ بھارت کا دورہ کریں گے
وینس کے دورہ بھارت کے ساتھ سے نئی دہلی کو اس بات کی امید ہے کہ 90 دن کے وقفے کے اندر ہی ایک تجارتی معاہدہ ہو جائے گا۔
بھارت رواں برس کواڈ سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے والا ہے اور وینس کے دورے کو اس طرح بھی دیکھا جا رہا ہے کہ اس سے بھارت میں ٹرمپ کی میزبانی کا راستہ بھی ہموار ہو سکتا ہے۔ کواڈ میں امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔
ادارت رابعہ بگٹی