ہم سب جانتے ہیںکہ پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کے قیام کے لئے آخری حد تک کوششیں کر رہے ہیں ، بالخصوص خیبرپختونخوا میں، جو اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی علاقے سے خوارجیوں کے حملے اور ہمارے جوانوں کے شہید ہونے کی خبر آجاتی ہے۔ آرمی چیف ، ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارم سے ملک میںسرمایہ کاری لانے کے لئے بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ا ور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جس علاقے میں دہشت گردی رہے گی اس علاقے میں سرمایہ کاری نہیں ہو سکے گی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہاں روزگار نہیں ہوگا اور جب روزگار نہیں ہو گا تو خوشحالی نہیں ہو گی۔ خیبرپختونخوا کا ایک مسئلہ اور ہے کہ وہاں ایک ایسی جماعت کی حکومت ہے جو نظریاتی گمراہی اور فکری مغالطے پیدا کرتی ہے اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ دشمن نے ہمارے اندر نقب لگانا شروع کر دی ہے۔ یہ انتہائی ضروری تھا کہ خیبرپختونخوا کے سیاسی رہنمائوں کو دہشتگردی کے فکری ، نظریاتی اور سیاسی مقابلے کے لئے آن بورڈ لیا جائے اوراسی لئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان، پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے فیصل کریم کنڈی، مسلم لیگ نون کے پی کے صدر امیر مقام، اے این پی کے علی حیدر ہوتی اور ایمل ولی خان کے ساتھ ساتھ آفتاب شیرپائو سمیت دیگر بھی ہمیں ان تصویروں میں نظر آ رہے تھے جن سے جنرل عاصم منیر نے ملاقاتیں کیں۔
سچ پوچھیں تو مجھے پی ٹی آئی کے چئیرمین اور اس صوبے سے رکن قومی اسمبلی بیرسٹر گوہر ان تصویروں میں نظر نہیں آئے تھے مگر بعد میں پتا چلا کہ علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہ بھی ان ملاقاتوں میں موجود تھے جوخالصتاً غیر سیاسی تھیں کیونکہ ان ملاقاتوں کا مقصد ہی یہ تھا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کے متحد ہوجائیں کیونکہ دہشت گرد جب بم دھماکے کرتے ہیں یا گولیوں کی بارش تو یہ نہیں دیکھتے کہ مرنے والے کس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیںاور اسی طرح جب ہمارے افسر اور جوان سرحدوں پر خوارجیوں کا راستہ روکتے ہیں، اپنی جانوں کی قربانیاں دیتے ہیں تو یہ نہیں پوچھتے کہ اے دہشت گردو تم مسلم لیگ نون والوں کو مارنے کے لئے آ رہے تو رک جائو اور اگر پی ٹی آئی والوں کو مارنے جا رہے تو چلے جائو بلکہ مجھے کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی ، اے این پی اور جے یو آئی نے جو زخم کھائے ہیں وہ سب سے گہرے ہیں۔ یہ بہت ہی مقدس اورمحترم ملاقاتیں تھیں جن کا مقصد اپنے معصوم شہریوں کی زندگیوں کا تحفظ تھا۔ ان کے ذریعے ہم نے اپنے بچوں کی جانیں بچانی تھیں اور اپنے نوجوانوں کا روزگار بھی کیونکہ اگر امن نہیں ہوگا تو کاروبار نہیں ہو گا اور کاروبار نہیں ہوگا تو روزگار نہیں ہوگا۔ ذرا غور کیجئے، حضرت ابراہیم علیہ سلام نے جس شہر کی بنیادیںاٹھائی تھیں اس کے لئے سب سے پہلے امن ہی کی دُعا کی تھی کہ بے شک امن ہر دوسری سہولت اور نعمت سے پہلے آتا ہے۔
مجھے افسوس ہوا کہ پی ٹی آئی ان مقدس اور محترم ملاقاتوں کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی ناپاک جسارت کی۔ ایک طرف ان کے سربراہ نو مئی کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ان کے سوشل میڈیا ٹرولز شہیدوں کا سرعا م مذاق اڑاتے ہیں اور دوسری طرف سے یہ فوج سے غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر سیاسی مذاکرات کرنے کے اتنے شوقین ہیںکہ اگر ان کے خوابوں اور ان کی خواہشوں میں بھی کوئی ملاقات ہوجائے تو یہ اسے سچ سمجھتے ہیں، اس کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ جیسے واضح ہو چکا کہ ان ملاقاتوں کا مقصد سو فیصد سیکورٹی اور انسداد دہشت گردی کی کوششیں تھا اور یہ فوج کے ذمہ داران کا اعلیٰ ظرف، حب الوطنی اور قومی سطح پراتحاد کی خواہش تھی کہ رکیک ترین حملوں کے باوجود پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے وہاں ان کے لوگوں کو بغیر کسی تعصب اور نفرت کے بلایا گیا تھا۔ بیرسٹر گوہر نے اس موقعے پر سیاسی گفتگو کرنے کی کوشش کی اور سیکورٹی ذرائع نے واضح کیا کہ انہیں جواب میں بتا دیا گیا کہ وہ سیاسی گفتگو، سیاسی رہنماؤں کے ساتھ جا کر کریں۔ یہ بات پاک فوج کے ترجمان بھی بارہا واضح کر چکے ہیں کہ فوج کسی قسم کے سیاسی مذاکرات کا حصہ نہیں بنے گی کہ سیاست ، سیاستدانوں کا کام ہے۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ جب انہیں سیاسی گفتگو کرنے پر شٹ اپ کال بھی مل گئی اس کے بعد بھی انہوں نے تین، چار روز گزرنے کے بعد اس ملاقات کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی اور اس پر جیل میں بند پارٹی کے بانی کو بھی گمراہ کیا۔ شائد ان کے لئے آرمی چیف سے ملاقات اتنی بڑی کامیابی تھی کہ وہ پھولے نہیں سمائے اور عمران خان سے بھی اس پر ایک بیان جاری کروا لیا۔ یہ دراصل ایک بیانیہ بنانے کی کوشش تھی کہ ان کے فوج کے ساتھ رابطے بحال ہوگئے ہیں اورجو مذاکرات وہ کرنے جا رہے ہیں وہ بھی فوج کی آشیرباد سے ہو رہے ہیں۔ دلچسپ معاملہ تو اس وقت ہوا کہ ابھی یہ سب اس ملاقات کی خوشی میں سوشل میڈیا پر گھنگھرو باندھ کے ناچنے کی تیاری ہی کر رہے تھے کہ سیکورٹی ذرائع سے حقیقت سامنے آ گئی اور وہ گھنگھرو ناچنے سے پہلے ہی ٹوٹ کے بکھر گئے۔
پی ٹی آئی والوں سے کہنا ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک اسٹیبلشمنٹ کو بے وقوف بناتے رہے اوراس کے ذریعے انہوں نے بزداروںاور محمود خانوں تک کو مسلط کئے رکھا مگر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا ہے۔ اب بات کارکردگی پر ہوگی، عوام کی خوشحالی پر ہو گی ، وطن کی مضبوطی پر ہو گی۔ میرے خیال میں فوج کو اس وقت ان سے براہ راست یا بالواسطہ کسی قسم کی بات نہیںکرنی چاہئے جب تک یہ لوگ پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ نو مئی کے حملوں پر باقاعدہ معافی نہ مانگ لیں اور اس امر کی انڈرٹیکنگ نہ دیںکہ آئندہ ایسی حرکتوں سے گریز کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی نے اب سیاسی لوگوں سے مذاکرات شروع کئے ہیں تو انہیں لگ پتا جائے گا کہ سیاست کس بھائو بکتی ہے۔ اس سے پہلے ان کی تمام تر کامیابیاں اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے ہی رہی ہیں چاہے وہ دو ہزار گیارہ کا جلسہ ہو، دو ہزار چودہ کے دھرنے ہوں یا دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات۔ جب سے انہیں اپنی فہم وفراست کے ساتھ سیاست کرنی پڑی ہے تب سے ان کا حال پتلا ہے، ناکامی پر ناکامی ہو رہی ہے۔ مجھے ان پر واضح کرنا ہے کہ فوج مکمل طور پر غیر سیاسی ہے اور اپنے آئینی کردار تک محدود ہے۔ جو بات شیخ رشید کو سمجھ آ گئی ہے وہ بانی پی ٹی آئی اور ان کے حواریوںکو بھی آجانی چاہئے۔ بیرسٹر گوہر نے سوچا تھا کہ وہ ماضی کی طرح اپنے فالوورز کو بے وقوف بنائے رکھنے میںکامیاب ہوجائیں گے مگر ان کے جھوٹ کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ گئی، مخے ہم نے آرمی چیف کے سامنے معاملات رکھے اوران کی طرف سے مثبت جواب ملا، چل جھوٹے ۔۔!
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی نہیں ہوگا کے لئے ا کرنے کی سے پہلے رہے ہیں کے ساتھ نہیں ہو فوج کے اور ان اور اس تھی کہ
پڑھیں:
یمن میں امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا ہے، رپورٹ
اسلام ٹائمز: ایران کو تزویراتی گہرائی اور معاشی وسائل کی فراوانی اور ہتھیاروں کی مقدار اور معیار کے لحاظ سے حوثیوں پر برتری حاصل ہے اور اس کے پاس تیز رفتار اینٹی شپ میزائل ہیں جو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو ہلاکت خیز دھمکی دینے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنے عالمی مفادات کو پہلے جیسی آسانی کے ساتھ برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ خصوصی رپورٹ:
چینی ویب سائٹ SOHO کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کو فوجی طاقت اور وسیع فوجی سہولیات کے باوجود یمن کے انصار اللہ کے مقابلے میں بری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جیسا کہ کہاوت ہے کہ کاٹنے والا کتا کبھی نہیں بھونکتا اور حقیقی طاقتور اوچنا نہیں بولتا۔ امریکہ کی موجودہ فوجی طاقت کو دیکھتے ہوئے، اصولی طور پر یہ کہنا ممکن ہے کہ ایران کے ساتھ امریکہ کے تصادم پر یہ مقولہ صادق آتا ہے، جیسا کہ ابتدائی طور پر ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے طاقت کے استعمال کی بات کی، حوثیوں پر تابڑ توڑ حملے ایک ایسی ہی گھن گرج پر مبنی حکمت عملی ہے، جو امریکیوں کو معقول محسوس ہو رہی ہے، لیکن اس کے پیچھے مذکورہ مقولہ ہی سچ لگتا ہے۔
فی الحال، ریاستہائے متحدہ کے پاس دو طیارہ بردار بحری جہاز اور ان کے ساتھ بحیرہ احمر کے علاقے میں اسٹرائیک گروپس موجود ہیں، جن کے چاروں طرف تباہ کن کشتیوں اور اسکارٹ جہازوں کے بیڑے ہیں۔ اس کے علاوہ، واشنگٹن نے بڑی تعداد میں B-2 سٹیلتھ بمبار طیاروں کو اپنی سرزمین سے منتقل کر دیا ہے اور انہیں بحر ہند میں ایک اڈے پر تعینات کر دیا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر یہ فوجی تعیناتی واضح طور پر حوثیوں کے خلاف ہی ہے۔ لیکن حقیقت میں اس سے امریکہ کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ ایک ماہ سے زیادہ کی مسلسل فضائی بمباری کے باوجود حوثیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔
وہ پہلے کی طرح (غزہ کی حمایت میں) وقتاً فوقتاً جوابی حملے کرتے رہتے ہیں۔ تہران کے ساتھ مذاکرات کے وقت، واشنگٹن نے حوثیوں کے خلاف اپنی جنگ شروع کرنے کو ترجیح دی۔ اگرچہ یہ ایران کو مذاکرات کی شرائط ماننے اور براہ راست جنگ سے بچنے کے لیے مجبور کرنے کے لیے طاقت کا مظاہرہ لگتا ہے، لیکن یہ احتیاط سے تیار کی گئی امریکی چال کارگر ثابت نہیں ہوئی اور بالآخر ایک فسانہ اور جعلی شو میں بدل گئی۔ واشنگٹن کی اعلیٰ فوجی طاقت محدود صلاحیتوں کے ساتھ "یمن کی عوامی فوج" کے خلاف غالب آنے میں ناکام رہی۔ اگر حوثی ایسے ہیں، تو امریکہ ایران سے لڑنے کا فیصلہ کریگا تو حالات کیا ہوں گے؟
ایران کو تزویراتی گہرائی اور معاشی وسائل کی فراوانی سمیت کئی حوالوں سے ہتھیاروں کی مقدار اور معیار کے لحاظ سے حوثیوں پر برتری حاصل ہے اور اس کے پاس تیز رفتار اینٹی شپ میزائل ہیں جو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو ہلاکت خیز دھمکی دینے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنے عالمی مفادات کو پہلے جیسی آسانی کے ساتھ برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ امریکہ نے یوکرین کے بحران میں روس کا سر توڑ مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں اور وہ مشرق وسطیٰ میں یمن کی دلدل میں پھنس گیا۔
"واشنگٹن نے خطے میں اپنے سلسلہ وار اقدامات سے ایک مضبوط قوت کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن اس کے بالکل برعکس ہوا، اور آج ایسا لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سب کی نظریں اس طرف لگی ہوئی ہیں کہ کیا واشنگٹن اپنا کام جاری رکھے گا یا ذلت اور مایوسی میں پیچھے ہٹ جائے گا۔"