Nai Baat:
2025-04-23@00:25:03 GMT

خدا خیر کرے

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

خدا خیر کرے

آتشزدگی سے تباہ ہونے والا شہر لاس اینجلس دنیا کے متمول ترین افراد کی بستیوں میں سے ایک ہے، اسے فرشتوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔ دنیائے فلم کا سب سے بڑا مرکز ہالی وڈ بھی یہیں ہے جہاں اداکار، موسیقار، ہدایتکار اور فن کی مختلف اصناف سے تعلق رکھنے والے تخلیق کار بڑی تعداد میں مقیم ہیں، یہاں کے باسی اپنے آپ کو دیگر دنیا میں بسنے والوں سے ایک درجہ اوپر سمجھتے ہیں، ان کا طرز زندگی نمائشی ہے۔ یہاں کم سے کم مالیت کا چھوٹا سے چھوٹا گھر بھی کئی ملین ڈالر کا ہے جبکہ بڑے گھر کروڑوں ڈالر مالیت کے ہیں۔ یہ خواب بیچنے والا شہر ہے، تباہ کن آگ کے حوالے سے مختلف تھیوریاں سامنے آ رہی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ برسوں قبل یہاں سمارٹ سٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جہاں ہر وہ چیز میسر ہو جو اس وقت دنیا میں ایجاد ہو چکی ہے اور انسان کے کام آ سکتی ہے۔ اس شہر کی تعمیر 2030ء میں مکمل ہونا تھی لہٰذا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے آگ کا کھیل رچایا گیا لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایسا تھا بھی تو موجودہ شہر کو تباہ کرنے اور عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنانے کی ضرورت کیا تھی۔ نیا شہر اور سمارٹ سٹی تو ایسا نہ کرنے کے باوجود تعمیر ہو سکتا ہے۔

ایک تصور یہ بھی موجود ہے کہ کبوتر کی سی معصومیت اور مور پنکھ کے رنگوں کے سنگھار سے آراستہ طوطے کی تیزی و طراری کا حامل اسی سائز کا ایک پرندہ ہے جو انتہائی جارحانہ مزاج رکھتا ہے۔ یہ پرندہ اگر کہیں آگ جلتی ہوئی دیکھ لے تو جلتی ہوئی ٹہنیاں اپنی چونچ میں پکڑ کر انہیں کہیں دور پھینک آتا ہے۔ وہ یہ عمل اس وقت تک جاری رکھتا ہے جب تک وہ تھک نہیں جاتا۔ عین ممکن ہے یہ پرندہ اپنی دانست میں جلتی ہوئی ٹہنیوں کو دور اس لئے پھینک آتا ہے کہ وہ اپنے قرب و جوار میں آگ کو پھیلنے سے روکنے کی کوششیں تو کرتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کے اس عمل سے آگ دیگر علاقوں میں پھیل جاتی ہے۔ لاس اینجلس اور اس سے ملحقہ علاقوں میں یہ پرندہ ایسے کام کرتے اکثر پایا جاتا ہے، اسے پرندوں میں دہشت گرد یا تخریب کار سمجھا جاتا ہے۔ آگ لگنے سے ایک رات قبل ہالی ووڈ میں گولڈن ایوارڈ کی تقریب کا انعقاد ہوا جس میں فلمی دنیا کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں جمع تھے، نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو ایوارڈ دیئے گئے۔ سٹیج پر آنے والے فنکاروں نے اپنے فنی سفر کے حوالے سے مختصر گفتگو کی۔ مبینہ طور پر ایوارڈ شو کی اینکر نے کہا جس شخصیت کو بھی ایوارڈ ملا ہے کسی نے اسے اپنی محنت کا صلہ کہا ہے۔ کسی نے اسے اپنی خوش قسمتی قرار دیتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا۔ کسی نے اسے اہل خانہ کی دعائوں کا سبب قرار دیتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ آخر میں پروگرام کی ہوسٹ نے کہا کہ کوئی ایک بھی شخصیت ایسی نہیں ہے جس نے خدا کی مہربانی سمجھتے ہوئے خدا کا شکریہ ادا کیا ہو۔ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ یوں لگتا ہے جیسے ’’نعوذ باللہ‘‘ یہاں خدا ہے ہی نہیں۔ ان کلمات کفر کا اس وقت کسی نے کوئی نوٹس نہ لیا کیونکہ اس تقریب میں زیادہ تر ایسے لوگ تھے جو خدا اور اس کی وحدانیت پر یقین نہ رکھتے تھے نہ ہی وہ اسے خالق کائنات سمجھتے تھے۔ غالباً زیادہ تر ایسے تھے جو ڈارون کی تھیوری کے مطابق بندر سے انسان بنے تھے، انہیں بندر سے انسان بننے میں لاکھوں برس لگ گئے۔ اب بندے سے بندے کا پتر بننے میں صرف ایک رات لگی۔ اگلے روز جب سب کچھ جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو رہا تھا تو درجنوں افراد مرد و زن، بچے، بوڑھے آسمان کی طرف دیکھ کر آہ و بکا کرتے اور التجا کرتے نظر آئے کہ یاخدا ہم پر رحم فرما، اے خدا ہمیں اس آگ سے بچا لے۔ اے خدا ہماری غلطیوں کو معاف کر دے لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔ خدا کی لاٹھی بے آواز تھی لیکن اس نے ہر راہ میں آنے والی چیز کو سرمہ بنا ڈالا۔

ہالی ووڈ کی تقریب میں اس شہر کو ’’گاڈ لیس ٹائون‘‘ کہنے والی آج کہاں ہے اور کس حال میں ہے، کوئی نہیں جانتا۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا خدا کے حضور پہنچ چکی ہے۔ خدا کو اس موقع پر یاد کرنے والے خدا سے بارش کی دعائیں کر رہے تھے، ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات جاری تھی، خدا نے خوب یاد دلایا، وہی قادر مطلق ہے۔

کیتھ ایزمنٹ نے پرائیویٹ فائر فائٹر کی خدمت کرکے اپنے گھر کو جلنے سے بچایا اور خدا کا شکر ادا کیا، سیکڑوں فلمی ستاروں، ادیبوں، شاعروں، موسیقاروں اور تیکنیک کاروں کے گھر ان کی نظروں کے سامنے ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ یہاں ایک بہت بڑی حویلی تھی۔ آپ اسے محل بھی کہہ سکتے ہیں جس میں بہترین انداز میں آراستہ بیڈ رومز تھے، بہت بڑی بار تھی جہاں سیکڑوں افراد کے لئے سامان مے نوشی موجود رہتا تھا، بہت بڑا ڈانسنگ فلور وسیع اور عریض لان تھے جہاں ہزاروں افراد پر مشتمل تقریبات کا انعقاد ہوتا تھا کئی گھروں سے بڑا ایسا ڈرائنگ روم بھی تھا کہ تاروں بھری رات کا وہیں بیٹھے ہوئے لطف اٹھانا چاہتے تو ایک بٹن دبانے سے اس کی چھت کھل جاتی تھی۔ اسی جگہ بارش میں نہانے، لپٹنے، جھپٹنے کے شغل بھی ہوتے تھے، ہزاروں گاڑیوں کی پارکنگ اور ملازمین کی رہائش گاہیں بھی تھیں، بہت بڑے کئی سوئمنگ پول تھے جہاں پارٹیاں منعقد ہوتی تھیں، سب کچھ اس طرح جل کر راکھ ہوا جیسے کچھ تھا ہی نہیں، ان عمارتوں کی راکھ کو بھی ہوا اپنے ساتھ اڑا کر جانے کہاں لے گئی۔
جدید ترین مشینری، ٹینکر، جہاز اور ہزاروں فائر فائٹر آگ پر تاحال قابو نہیں پا سکے۔ بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتے تک لگنے والی آگ کے فقط سترہ فیصد حصے پر اسے بجھانے میں کامیابی ہوئی ہے۔

ایک شخص کو آگ لگانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن بعد ازاں اسے عدم ثبوت کی بنا پر رہا کر دیا گیا۔ وہ خوش قسمت تھا، امریکہ میں تھا، پاکستان میں نہیں تھا ورنہ دنیا بھر میں ہر جگہ آگ لگانے کا جرم قبول کرکے پورے نظام کو سرخرو کر سکتا تھا۔ لاس اینجلس حکومت اور انتظامیہ نے پہلے ریلیف پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے 7070ڈالر فی کس دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ہمارے سیلاب کے زمانوں میں دیئے گئے امداد پیکیج سے ملتا جلتا ہے، لاکھ ڈالر کے گھر اور املاک تباہ ہو گئیں تو اونٹ کے منہ میں زیرہ دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس بات کا ذکر بھی سننے میں آ رہا ہے کہ جب فلسطین پر بم برسائے جا رہے تھے، بے گناہوں کا قتل عام ہو رہا تھا تو دنیا کے کونے کونے سے آواز اٹھی، ان کے حق میں احتجاج ہوئے لیکن اس شہر سے مظلوموں کے لئے کوئی آواز بلند نہ ہوئی بلکہ ایک آواز تو ایسی تھی جس نے کہا فلسطینیوں کو جلد سے جلد ملیامیٹ کر دو۔ یہ جیمز وڈ تھا جس کا اپنا گھر ملیا میٹ ہو گیا، غلطیوں اور غفلت کی سزا پوری بستی پر بانٹ دی جاتی ہے پھر سب کو اس میں اس کا حصہ بقدر جثہ ملتا ہے۔ لاس اینجلس کی آگ میں تباہی تو ہے ہی کچھ سبق بھی پوشیدہ ہیں۔
ہم بھی صداقت، امانت اور دیانت کا سبق بھولے ہوئے ہیں۔ خدا خیر کرے، آگ ہم سے زیادہ فاصلے پر نہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: لاس اینجلس نے والے ادا کیا نے کہا سے ایک

پڑھیں:

فصلوں کے لحاظ سے یہ بہت ہی خراب سال ہے، اسد عمر

لاہور:

سابق وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ جب حکومت آئی اور شہباز شریف وزیراعظم بنے اس کے بعد انھوں نے اگلے ڈیڑھ سال پاکستان کے ساتھ وہ کیا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا، پاکستان کی تاریخ کی بد ترین معاشی پرفارمنس اس عرصے کے اندر گزری۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا 24-23 کا سال صنعتی پیداوار کے لحاظ سے بدترین سال تھا، فصلوں کا یہ بہت ہی خراب سال ہے، معیشت میں ترقی کے آثار کچھ کچھ ، تھوڑا تھوڑا نظر آنے شروع ہوئے تھے آج سے تین سے پانچ ماہ پہلے، وہ بھی اس وقت منفی ہو گئے ہیں۔

سابق سیکریٹری خارجہ جوہر سلیم نے کہا جے سی پی اواے ہوا تھا جو جوائنٹ کمپری ہنیسو پلان آف ایکشن کا مخفف ہے ہوا تھا تو کافی عرصہ تک تو لگا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے، لیکن اس کے بعد جب ٹرمپ آئے تو ٹرمپ نے آ کر کہ کہا کہ میں اس سے ودڈرا کرتا ہوں، اس وقت ایران کی پوزیشن بھی پہلے کی نسبت کچھ کمزور ہے، اتنے عرصے سے لگی پابندیوں نے اس کا بہت نقصان کیا ہے، وہ بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔

تجزیہ کار ڈاکٹر کامران بخاری نے کہا ایران کے پاس اب کوئی چوائس نہیں رہی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کی جو چھیالیس سالہ تاریخ ہے اتنا کمزور کبھی بھی نہیں تھا، غزہ کی جنگ کے بعد خطے میں ان کا اثر ورسوخ جاتا رہا، اوپر سے اس کے عوام بالکل نالاں ہے، فنانشلی بہت بری حالت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کوہ قاف میں چند روز
  • غزہ کے بچوں کے نام
  • تین سنہرے اصول
  • عوام کو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے ، عمران خان
  • پی ٹی آئی کو کرش کرنے کے لیے ملک کو بنانا ریپبلک بنا دیا گیا ، بانی پی ٹی آئی
  • فصلوں کے لحاظ سے یہ بہت ہی خراب سال ہے، اسد عمر
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • بجلی
  • یہودیوں کا انجام