پاکستانی سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت کیوں نہیں کرپاتے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
پاکستانی جرنیلوں نے پاکستان کی سیاست کو کولہو کا بیل بنا کر رکھ دیا ہے۔ کولہو کا بیل برسوں ایک دائرے میں گردش کرتا رہتا ہے اور کہیں نہیں پہنچ پاتا۔ پاکستانی سیاست بھی 1958ء سے ایک دائرے میں گردش کررہی ہے اور کہیں نہیں پہنچ پائی۔ اس سیاست نے ملک کو سیاسی استحکام عطا کیا ہے نہ معیشت کو مضبوط بنایا ہے۔ نہ ملک کے نظریاتی تشخص کا دفاع کیا ہے اور نہ ہی انتخابات کو ساکھ عطا کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1958ء سے آج تک پاکستانی سیاست پر جرنیلوں کا قبضہ ہے اور پاکستانی سیاست ’’مقبوضہ سیاست‘‘ کا منظر پیش کررہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی سیاست دان جرنیلوں یا فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت کیوں نہیں کرپاتے؟
اس سوال کا کوئی ایک جواب نہیں ہے۔ البتہ اس سوال کا جواب پاکستانی سیاست دانوں کی ’’اخلاقی ساکھ‘‘ کا نہ ہونا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق تھے۔ انہوں نے ملک کو 1973ء کا اسلامی اور متفقہ آئین دیا تھا۔ انہوں نے لاہور میں اسلامی ممالک کا سربراہ اجلاس بلا کر عالم اسلام میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا تھا۔ وہ عوام میں ’’مشہور‘‘ ہی نہیں ’’مقبول‘‘ بھی تھے مگر وہ عوام کے ’’محبوب‘‘ نہیں تھے۔ لوگ انہیں ’’ووٹ‘‘ دے سکتے تھے۔ ’’نوٹ‘‘ دے سکتے تھے مگر لوگ ان کے لیے جان نہیں دے سکتے تھے۔ چنانچہ جنرل ضیا الحق نے کامیابی کے ساتھ ان کے خلاف بغاوت کی اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ مگر پاکستان میں کہیں بھی بڑا عوامی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ سندھ تک میں راوی چین لکھتا رہا۔ بھٹو کا خیال تھا کہ اگر انہیں پھانسی دی گئی تو سندھ میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی مگر ان کی پھانسی پر بھی سندھ میں دوچار لوگوں نے خود سوزیاں ضرور کیں لیکن خون کی کوئی ندی نہ بہی۔ بھٹو کے بیٹے مرتضیٰ نے مسلح تنظیم بنائی مگر یہ تنظیم بھی ایک طیارہ اغوا کرنے کے سوا کچھ نہ کرسکی۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے برسوں بعد مرتضیٰ کو پاکستان واپس بلایا اور کچھ عرصے بعد اسے کراچی میں بے دردی سے قتل کرادیا۔ بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو ’’خاموش مزاحمت‘‘ کرتی رہیں اور بالآخر ملک چھوڑ کر چلی گئیں۔
الطاف حسین سیاسی رہنما سے آگے بڑھ کر ’’پیر‘‘ بن گئے تھے۔ ان کی تصاویر کروٹن کے پتوں پر آیا کرتی تھیں اور وہ ’’پیغمبری‘‘ کا اعلان کرنے ہی والے تھے کہ ان کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہوگیا۔ الطاف حسین کو اس کی اطلاع پہلے ہی ’’دے دی گئی‘‘ تھی۔ چنانچہ وہ ملک سے فرار ہوگئے۔ تکبیر کے بانی محمد صلاح الدین کے مطابق جو اسٹیبلشمنٹ کے بے حد قریب تھے ملک کی ایک بڑی ایجنسی الطاف حسین کے تعاقب میں تھی اور دوسری بڑی ایجنسی کی گاڑی میں الطاف حسین کو ہوائی اڈے پہنچایا گیا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو الطاف حسین ہر پانچ منٹ کے بعد فون کرکے پوچھ رہے تھے کہ کراچی میں کیا ہورہا ہے؟ انہیں ہر بار ایک ہی جواب دیا گیا کہ کراچی میں کہیں بھی لوگ فوج کی مزاحمت نہیں کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چار پانچ ہزار لوگ موجود تھے فوج وہاں پہنچی تو وہاں موجود لوگ بھی خاموشی سے اپنے گھر چلے گئے۔ اس صورتِ حال کی وجہ بھی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی اخلاقی ساکھ تھی۔ لوگ الطاف حسین کو ’’ووٹ اور نوٹ‘‘ دے سکتے تھے مگر کوئی ان کے لیے ’’جان‘‘ نہیں دے سکتا تھا۔
میاں نواز شریف کے خلاف جنرل پرویز مشرف نے بغاوت کی تو میاں نواز شریف کے پاس قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت تھی۔ میاں صاحب کے جلسوں میں لوگ ’’قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے نعرے لگایا کرتے تھے مگر جب جنرل پرویز مشرف نے میاں صاحب کو اقتدار سے نکالا تو کہیں اور کیا میاں صاحب کے سیاسی مرکز لاہور تک میں دس لوگوں نے مظاہرہ نہیں کیا۔ میاں نواز شریف کی رخصتی کے پندرہ دن بعد کراچی میں مشاہد اللہ نے ریگل چوک پر پندرہ بیس لوگوں کا ایک مظاہرہ کیا۔ وہاں موجود پولیس دو منٹ یہ مظاہرین کو گاڑیوں میں بھر کر چلی گئی۔ مظاہرہ شروع ہی ہوا تھا کہ ختم ہوگیا۔ میاں نواز شریف کا مسئلہ بھی یہی تھا کہ وہ ’’مشہور‘‘ اور ’’مقبول‘‘ تو تھے مگر ’’محبوب‘‘ نہیں تھے۔ لوگ انہیں ’’ووٹ‘‘ اور ’’نوٹ‘‘ دے سکتے تھے مگر ان کے لیے ’’جان‘‘ نہیں دے سکتے تھے۔
عمران خان مقبولیت میں میاں نواز شریف سے بھی آگے ہیں۔ اگر کل انتخابات ہوجائیں تو وہ دو تہائی اکثریت حاصل کرلیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ ان کی عوامی مقبولیت کو زک پہنچانے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ مگر عمران خان کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ وہ مشہور اور مقبول تو بہت ہیں مگر ’’محبوب‘‘ نہیں ہیں۔ لوگ انہیں ووٹ اور نوٹ دے سکتے ہیں ان کے لیے جان نہیں دے سکتے۔ چنانچہ عمران خان اب تک اسٹیبلشمنٹ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ انہوں نے اسلام آباد پر جو یلغار کی اس میں آٹھ دس ہزار لوگ شریک تھے اگر یہ لشکر ایک لاکھ کا ہوتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔
ان مثالوں کے برعکس مثال ترکی کے صدر طیب اردوان کی ہے۔ وہ ملک سے باہر تھے کہ ترکی کی فوج نے ان کے خلاف بغاوت کردی۔ طیب اردوان نے موبائل فون پر قوم کے نام پیغام میں قوم سے فوج کی مزاحمت کے لیے کہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ انہوں نے فوجیوں کو ٹینکوں سے نکالا اور ان کی خوب دھنائی کی۔ لوگوں نے سروں پر منڈلانے اور فائرنگ کرتے ہیلی کاپٹروں تک کی پروا نہیں کی۔ چنانچہ فوجی بغاوت چند گھنٹوں میں ناکام ہوگئی۔ اس سے ثابت ہوا کہ طیب اردوان صرف ’’مشہور‘‘ اور ’’مقبول‘‘ نہیں ہیں وہ عوام کے ’’محبوب‘‘ بھی ہیں، لوگ انہیں ’’ووٹ‘‘ اور ’’نوٹ‘‘ بھی دیتے ہیں اور لوگ ان کے لیے جان بھی دینے پر آمادہ ہیں۔
پاکستان میں سیاسی رہنمائوں کا ایک المیہ یہ ہے کہ ان کی سیاسی جماعتیں حقیقی معنوں میں ’’جمہوری‘‘ نہیں ہیں۔ چنانچہ یہ جماعتیں جماعت سے زیادہ ایک ’’ہجوم‘‘ ہیں۔ اور ہجوم جلسے جلوس کے لیے تو کفایت کرتا ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کی ’’مزاحمت‘‘ کے لیے کفایت نہیں کرتا۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں ہی نہیں بعد میں بھی پیپلز پارٹی سیاسی جماعت سے زیادہ بھٹو خاندان کی ’’میراث‘‘ تھی اور ہے۔ ایم کیو ایم بھی صرف الطاف حسین کے ہاتھ کی گھڑی تھی۔ نواز لیگ کل بھی شریف خاندان کی رکھیل تھی اور آج بھی شریف خاندان کی رکھیل ہے۔ اسے شریف خاندان نے کبھی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش نہیں کی۔ عمران خان بڑے انقلابی بنتے ہیں مگر انہوں نے آج تک پی ٹی آئی کو جمہوری بنانے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے ایک بار پی ٹی آئی میں انتخابات کرائے تھے مگر یہ انتخابات فراڈ تھے۔
مزاحمت کے حوالے سے خطوں کی تاریخ اور نفسیات بھی اہم ہوتی ہے۔ دلی، یوپی، حیدر آباد و دکن اور بنگال نے ہمیشہ انگریزوں کی مزاحمت کی، دلی اور یوپی میں اس مزاحمت کی علامت جنرل بخت خان تھا۔ بنگال میں سراج الدولہ اور دکن میں ٹیپو سلطان۔ لیکن پنجاب طاقت کے خلاف مزاحمت کی تاریخ نہیں رکھتا۔ سکھوں نے چالیس سال تک لاہور کی بادشاہی مسجد کو گھوڑوں کا اصطبل بنائے رکھا مگر اس کے باوجود مسلم پنجاب نے سکھوں کے خلاف بغاوت نہیں کی۔ تحریک پاکستان چلی تو پنجاب انگریزوں کی پٹھو یونیسیٹ پارٹی کے ساتھ تھا۔ تحریک پاکستان کے دوران کے پی کے سرحدی گاندھی غفار خان کے ساتھ کھڑا تھا۔ بلوچستان پر سرداروں کا غلبہ تھا۔ سندھ نے کبھی انگریزوں کی مزاحمت نہیں کی۔ تحریک پاکستان میں سندھ کا حصہ صرف اتنا تھا کہ سندھ اسمبلی نے 1943ء میں پاکستان کے حق میں ایک قرار داد منظور کی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ پاکستان میں شامل علاقے طاقت وروں کی مزاحمت کی تاریخ ہی نہیں رکھتے۔ تاریخ کی اہمیت یہ ہے کہ بنگال نے انگریزوں کی مزاحمت کی۔ مشرقی پاکستان بنگلا دیش بنا تو جنرل ضیا الرحمن نے بابائے قوم شیخ مجیب کا تختہ الٹ دیا اور حالیہ دنوں میں بنگلا دیش کے طلبہ نے شیخ حسینہ واجد کو ایک طویل جدوجہد کے بعد ملک سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستانی سیاست میاں نواز شریف کی مزاحمت کی پاکستان میں انگریزوں کی ایم کیو ایم الطاف حسین لوگ انہیں کراچی میں ان کے لیے انہوں نے نہیں کی تھے مگر کے خلاف نہیں دے ہے اور ایم کی تھا کہ لوگ ان
پڑھیں:
جمہوریت کی مخالفت کیوں؟
گزشتہ دنوں میرے ایک دوست جو درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، میری ان سے ملاقات ہوئی۔ میرے یہ دوست جمہوریت کے سخت ترین مخالف ہیں۔ ان کے نزدیک ہماری تمام تر سیاسی نظام کی خرابیوں کی جڑ پاکستان میں رائج یہ جمہوری نظام ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ ان کے نزدیک اسلام کا سیاسی نظام ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔
اپنے اس دوست کی سوچ کے برعکس راقم التحریر جمہوری نظام کی تمام تر خرابیوں کے باوجود اس کا حامی رہا ہے۔ میرے نزدیک ہماری تمام سیاسی نظام میں خرابیوں کی وجہ جمہوری نظام کا تسلسل کے ساتھ جاری نہ رہنا ہے۔
بار بار کے مارشل لا اور سیاست میں مداخلت کے نتیجے میں یہ خرابیاں پیدا ہوئیں اور عوام جمہوریت کے حقیقی ثمرات سے محروم رہے۔ مجھے دینی اور مذہبی موضوعات پر اپنی کم علمی اورکم فہمی کا ہمیشہ احساس رہا ہے، اس لیے میں عموماً دینی اور مذہبی موضوعات پر علمی گفتگو سے گریز کرتا ہوں۔ تاہم جب جمہوریت کا موضوع ہمارے درمیان دوران گفتگو آیا تو اس گفتگو نے مکالمے کی صورت اختیار کر لی۔
جمہوریت کی مخالفت کے حوالے سے میرے دوست کا کیا موقف ہے، اسے اپنے اسلوب میں بیان کر رہا ہوں۔ میرے دوست کے نزدیک ایک صالح اور مہذب حکومت وہی ہو سکتی ہے جس کی بنیاد اخلاقی اقدار اور تصورات پر قائم ہو۔
دنیا کے سیاسی نظاموں میں اخلاقی اقدارکی کوئی جگہ نہیں، اس میں نمایندگی کا اہل وہی شخص تصورکیا جاتا ہے جو ڈپلومیٹک اور چرب زبان ہو، چاہے اخلاقی حوالے سے کتنا ہی گرا ہوا کیوں نہ ہو۔ یہ عمل اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ اس نظام میں قانون سازی کا حق شہری کا حق ہے۔ لازمی اس قانون سازی میں انسانی خواہشات کو اولین حیثیت حاصل ہوگی اس طرح انسان کی روحانی زندگی تباہ ہو جائے گی اور انسان نفس کا غلام بن کر رہ جائے گا۔
اسلام میں نسلی اور مذہبی گروہ بندی جائز نہیں۔ جمہوری طریقہ انتخاب میں نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات کو ابھارکر عوامی جذبات کو استعمال کرکے اسے اپنی کامیابی کا زینہ بنایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں کشمکش اور تصادم کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
جمہوریت کی بنیادی خوبی محض عددی برتری تصورکی جاتی ہے یہ منطقی لحاظ سے درست نہیں،کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ 200 کے مقابلے 201 کی رائے زیادہ درست اور دانش مندانہ ہے۔ اس نظام میں افراد کی گنتی کی جاتی ہے انھیں تولا نہیں جاتا، یعنی صلاحیت اور قابلیت کی اس نظام میں کوئی اہمیت نہیں۔
جمہوریت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس کا مزاج سیکولر ہے، یہی وجہ ہے کہ جو مذہبی اور دینی جماعت اس میں حصہ لیتی ہے، اس کا مزاج سیکولر ہو جاتا ہے۔ اس نظام میں کامیابی کے لیے تمام طبقات کی حمایت درکار ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ جماعتیں مصلحت کا شکار ہو کر خدائی احکامات کے نفاذ کے بجائے انسانی خواہشات کی تکمیل میں سرگرم عمل ہو جاتی ہیں یہ طرز عمل اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔
میرے دوست کی یہ تمام باتیں جزوی طور پر درست ہیں کلی طور پر نہیں۔ میرا موقف یہ تھا کہ انسانی معاشرے کو مہذب اور تمدنی معاشرہ کہلانے اور عوام الناس کو اجتماعیت کے دائرے میں رکھنے کے لیے کسی نہ کسی نظام حکومت کی ضرورت لازمی طور پر ہوتی ہے اب یہ نظام حکومت کیسے وجود میں آئے گا، اس نظام کے خد و خال کیا ہوں گے؟
حکومت کرنے والوں کے اختیارات کی حدود کیا ہوں گی، ان کا انتخاب کس طرح کیا جائے گا اور سیاسی استحکام کس طرح پیدا ہوگا۔ اس حوالے سے مختلف زمانے میں مختلف تجربات سامنے آئے ہیں، اس میں ایک تجربہ جمہوری نظام بھی ہے۔ دنیا نے اب تک کے تجربات سے جمہوری نظام کو اس کی بہت سی خرابیوں کے باوجود ایک بہتر نظام سیاست پایا ہے جس کی وجہ سے اس نظام کو دنیا بھر میں فروغ حاصل ہوا۔
اگر آپ جمہوری نظام کو اس کی چند خرابیوں کی بنیاد پر مسترد کرتے ہیں تو آپ کو دنیا کے سامنے ایک واضح سیاسی نظام پیش کرنا ہوگا۔ محض ہوا میں قلعے بنانے سے کچھ حاصل نہ ہو سکے گا۔
جہاں تک اسلام کے نظام حکومت کی بات ہے تو ہمیں اسے تاریخی پس منظر میں سمجھنا ہوگا۔ اسلام کے سیاسی نظام میں خلاف راشدہ کے دور کو رول ماڈل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دور حکومت 30 سال کے عرصے پر محیط ہے، اس مدت میں چار صحابی خلیفہ مقرر ہوئے چاروں خلفا کا تقرر چار مختلف طریقوں سے ہوا۔ اس کے بعد جو ماڈل سامنے آیا اسے خاندانی ماڈل کہا جاسکتا ہے۔
اسلام کی پوری سیاسی تاریخ اس پس منظر میں چلتی رہی، اسی پس منظر میں مسلم حکومتیں قائم ہوئیں۔ اس میں زیادہ تر حکمران وہی تھے جو خاندانی حکومت کے اصول کے تحت حکمران بنے تھے۔ یہ خاندانی ماڈل خلافت راشدہ کے رول ماڈل سے مختلف تھا لیکن کیونکہ اس ماڈل میں اہل اسلام کو امن اور حفاظت کے ساتھ دین پر عمل کرنے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کا کام بخوبی انجام پا رہا تھا، اس لیے عوام الناس نے اس نظام کو قبول کیا عرب کے بعض ممالک میں یہ نظام آج بھی رائج ہے۔
اس تاریخی پس منظر کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے۔ اسلام کسی لگے بندھے نظام کی تجویز یا خاکہ پیش نہیں کرتا بلکہ ایسے بنیادی اصول قائم کرتا ہے جو کسی حکومت کے عمومی خدوخال کی تشکیل کرتے ہیں وقت اور حالات کے تحت طرز حکومت کیسا ہونا چاہیے اس کا فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیا ہے یہ میری ناقص رائے ہے اس پر بہتر علمی رائے کا اظہار مذہبی اسکالر اور علما دین ہی کر سکتے ہیں۔
ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس وقت دنیا میں جمہوری نظام کامیابی سے جاری ہے۔ جمہوری نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایسا نظام حکومت ہے جس میں حکومتی مدت پوری ہوتی ہے اس میں پرامن انتقال اقتدار کا طریقہ موجود ہے۔
عوامی رائے عامہ کے ذریعے اسے قانونی اور اخلاقی جواز حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس نظام کو سیاسی استحکام حاصل ہوتا ہے اس لیے اس نظام کو غیر اسلامی قرار دینا درست عمل نہیں ہے اور نہ ہی اسے مغربی طرز حکومت کا نام دیا جانا چاہیے۔ بعض لبرل اور سیکولر عناصر سیاست میں دینی اور مذہبی جماعتوں کی شمولیت کے خلاف ہیں میری ذاتی رائے میں اگر ملک کی اکثریت کسی نظام حیات کو قبول کرکے اس کے نفاذ کی کوشش کرتی ہے تو اس کے اس جمہوری حق کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اسے تسلیم کیا جانا جمہوریت کی روح کے عین مطابق ہے۔
یہ ہے دونوں جانب کا نقطہ نظر، کون درست ہے کون غلط اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔