نبی اکرمؐ نے حیا کو ایک اخلاقی قدر کے طور پر متعارف کرایا، یہاں تک کہ اسے ایمان کا ایک لازمی جز قرار دیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’حیا ایمان کا ثمرہ ہے اور ایمان کا مقام جنت ہے، اور بے حیائی و بے شرمی بدکاری میں سے ہے اور بدکاری دوزخ میں لے جانے والی ہے‘‘۔ (ترمذی، مسند احمد، ابن ماجہ) ایک اور حدیث میں جس میں ایمان اور حیا کا باہمی تعلق واضح کیا گیا ہے، آپؐ نے فرمایا: ’’حیا اور ایمان دونوں ہمیشہ ساتھ اور اکٹھے ہی رہتے ہیں۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اْٹھا لیا جاتا ہے‘‘۔ (مستدرک للحاکم، صحیح الجامع للالبانی)
درحقیقت حیا کا تصور بہت زیادہ وسعت اور جامعیت رکھتا ہے جس میں نہ صرف فواحش و منکرات سے اجتناب بلکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا کے خلاف ہر بات اور ہر کام سے رْک جانا مقصود ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: ’’اللہ سے حیا کرو، جیسا کہ حیا کا حق ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبیؐ! الحمدللہ! ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: حیا سے یہ مراد نہیں جو تم کہتے ہو‘ بلکہ جو شخص اللہ سے حیا کا حق ادا کرے تو اسے چاہیے کہ سر اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے، اس کی حفاظت کرے، پیٹ اور جو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے، اس کی حفاظت کرے اور اسے چاہیے کہ موت کو اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے، اور جو شخص آخرت کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے وہ دنیا کی زینت وآرائش کو چھوڑ دیتا ہے، پس جس شخص نے ایسا کیا تو اس نے اللہ سے حیا کی، جس طرح حیا کا حق ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
اسلام میں عفت و عصمت کے وسیع تصور کو راسخ کرنے کے لیے حیا کے ہمہ گیر پہلوؤں کی مختلف احادیث کے ذریعے سے وضاحت کی گئی۔ سیدنا ابو مسعود عقبہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ ے فرمایا: ’’لوگوں کے پاس کلامِ نبوت سے جو بات پہنچی ہے ان میں یہ بھی ہے: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر‘‘۔ (بخاری)
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’ایمان کی ستّر سے زائد شاخیں ہیں، (یا ساٹھ سے زائد، راوی کو شک ہے)، ان میں سب سے افضل لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے، اور سب سے ادنیٰ راستے میں پڑی ہوئی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے۔ اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
سیدنا انسؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’فحش جس چیز میں بھی ہو اسے بدنما بنا دیتا ہے، اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت عطا کرتی ہے‘‘۔ (ابن ماجہ، ترمذی و احمد)
آپؐ نے فرمایا: ’’حیا تو بس خیر ہی لاتی ہے‘‘۔ ( بخاری، مسلم)
نیز فرمایا: ’’ہر دین کا ایک خاص وصف ہے اور اسلام کا وصف حیا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اللہ سے حیا نے فرمایا حیا کا
پڑھیں:
مثالیہ اور انسان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251214-03-8
شاہنواز فاروقی
انسان کی زندگی پر انسان کے مثالیے یا Ideal کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ جیسا مثالیہ ہوتا ہے انسان بھی ویسا ہی ہوتا ہے۔ مثالیہ اعلیٰ ہوتا ہے تو انسان بھی اعلیٰ بن جاتا ہے۔ مثالیہ ادنیٰ ہوتا ہے تو انسان میں بھی چھوٹا پن درآتا ہے۔ مثالیہ سورج ہو تو انسان کم از کم چراغ ضرور بن جاتا ہے۔ مثالیہ تاریکی ہو تو انسان کا پورا کردار تاریکی میں ڈوب جاتا ہے۔ مثالیے کی اس اہمیت کو سلیم احمد نے اپنے ایک بے مثال شعر میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے۔
اک پتنگے نے یہ اپنے رقصِ آخر میں کہا
روشنی کے ساتھ رہیے روشنی بن جائیے
انسانی تاریخ کا سب سے بڑا مثالیہ سب سے بڑا Ideal رسول اکرمؐ کی ذات اور آپؐ کی سیرت طیبہ تھی۔ چنانچہ صحابہ کرام کا مثالیہ رسول اکرمؐ اور آپؐ کی سیرت طیبہ تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا نے پیغمبروں کے بعد صحابہ سے زیادہ عظیم شخصیات کہیں نہیں دیکھیں۔ صحابہ میں بھی مثالیے سے تعلق کے حوالے سے ایک درجہ بندی ملتی ہے۔ سب سے بلند درجہ خلفائے راشدین یعنی سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ کا ہے۔ پھر خلفائے راشدین کے سوا وہ چھے صحابہ ہیں جنہیں ان کی زندگی ہی میں جنت کی بشارت دی گئی اور جو خلفائے راشدین کے ساتھ مل کر عشرئہ مبشرہ کہلاتے ہیں۔ اس کے بعد غزوۂ بدر میں شامل ’’بدری صحابہ‘‘ ہیں۔ خلفائے راشدین میں جو بات رسول اکرمؐ نے سیدنا عمرؓ کے بارے میں فرمائی وہ کسی کے بارے میں نہیں فرمائی۔ سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ کے بارے میں بھی نہیں۔ آپؐ نے فرمایا میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے۔ اس بات کا اثر ہمیں سیدنا عمرؓ کی پوری زندگی میں نظر آتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ کئی بار وحی سیدنا عمرؓ کی رائے یا خیال کے مطابق نازل ہوئی۔ مثلاً آیات حجاب۔ سیرت عمرؓ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار دریائے نیل خشک ہوگیا۔ لوگ دریا کے خشک ہونے کی اطلاع لے کر سیدنا عمرؓ کے پاس پہنچے۔ سیدنا عمرؓ نے دریائے نیل کو مخاطب کرکے اس کے نام ایک خط لکھا آپ نے کہا اگر تو اپنی مرضی سے رواں ہوتا ہے تو خشک پڑا رہ لیکن اگر تو اللہ کی مرضی سے بہتا ہے تو جاری ہوجا۔ لوگوں نے سیدنا عمرؓ کا یہ خط دریائے نیل میں جاکر ڈال دیا اور دریائے نیل جاری ہوگیا۔ سیدنا عمرؓ کی زندگی کا دوسرا واقعہ یہ ہے کہ آپؓ نے مدینے سے کئی سو کلو میٹر دور ایک لشکر روانہ کیا۔ لشکر کا دشمن سے مقابلہ ہورہا تھا اور سیدنا عمرؓ مدینے کی مسجد نبوی میں جمعے کا خطبہ دے رہے تھے اچانک خطبہ دیتے دیتے سیدنا عمرؓ نے اسلامی لشکر کے کمانڈر کا نام لے کر کہا کہ ذرا پہاڑ کی طرف توجہ کرو۔ اسلامی لشکر کے کمانڈر نے سیدنا عمرؓ کی یہ آواز سنی اور پہاڑ کی طرف دیکھا تو دشمن فوج کا ایک دستہ اس جانب سے چلا آرہا تھا۔ اسلامی لشکر کامیاب ہو کر لوٹا تو لشکر کے کمانڈر نے سیدنا عمرؓ کو بتایا کہ ہم نے میدان جنگ میں آپ کی آواز سن لی تھی۔ یہ دونوں واقعات سیدنا عمرؓ کی کرامتیں تھیں اور صحابہ یا اکابر صوفیہ کی کرامتیں رسول اکرمؐ کے معجزات کا فیضان ہیں۔ سیرتِ طیبہؐ سے خلفائے راشدین کے غیر معمولی تعلق کو خود رسول اکرمؐ نے بھی بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ آپؐ کا ارشاد ہے کہ میں شہر علم ہوں، ابوبکرؓ اس کی چھت ہیں۔ عمرؓ اور عثمانؓ اس کی دیواریں ہیں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تین خلفائے راشدین کے مستقبل کے بارے میں رسول اکرمؐ کو پہلے ہی آگاہ فرما دیا تھا۔ چنانچہ ایک بار رسول اکرمؐ احد پہاڑ پر تھے کہ وہ ہلنے لگا۔ اس وقت رسول اللہ کے ساتھ سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ تھے۔ رسول اکرمؐ نے اُحد پر پائوں مارا اور کہا ٹھیر جا۔ اس وقت تجھ پر ایک نبیؐ اور ایک صدیق اور دو شہدا کے سوا کوئی نہیں ہے۔
صحابہ کے بعد ہماری تاریخ اور ہماری تہذیب میں عظیم ترین لوگ تابعین ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا مثالیہ یا Ideal صحابہ کرام تھے۔ تابعین کے بعد ہمارے عظیم ترین لوگ تبع تابعین تھے اور ان کا مثالیہ یا Ideal تابعین تھے۔
تبع تابعین کے بعد ہمارے جن علما اور صوفیا نے وقت کو پھلانگ کر اپنا زیادہ سے زیادہ تعلق سیرتِ سرورِ کونین، صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین سے قائم کیا اور انہیں اپنا مثالیہ بنایا وہ بھی عظیم ہوگئے۔ اقبال نے ایسے ہی چار عظیم لوگوں کا ذکر اپنے ایک شعر میں کیا ہے۔ اقبال نے فرمایا ہے۔
عطارّ ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی
عطار کی عظمت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ تاتاری لشکر ان کے شہر کو فتح کرنے کے لیے شہر کے باہر پہنچا تو عطار اپنی خانقاہ میں بیٹھے تھے۔ عطار نے اپنے سامنے رکھا ہوا پیالہ اوندھا کرکے رکھ دیا۔ چنانچہ ایک لمحے میں شہر تاتاری لشکر کے سامنے سے اوجھل ہوگیا۔ تاتاری لشکر اس وقت لوٹ گیا مگر وہ لشکر اگلے دن پھر آگیا۔ عطار نے اپنی خانقاہ میں بیٹھے بیٹھے پیالہ پھر اوندھا کرایا۔ شہر پھر تاتاری لشکر کو نظر آنا بند ہوگیا۔ تاتاری لشکر تیسرے دن پھر شہر فتح کرنے آیا۔ عطار کا ہاتھ پھر پیالے کی جانب بڑھا مگر ندائے غیب آئی کہ اب بس کرو۔ عطار کا ہاتھ رک گیا۔ اس روز تاتاری لشکر نے شہر کو فتح کرلیا۔ تاتاری لشکر کے ہاتھوں اس روز جو لوگ شہید ہوئے ان میں عطار بھی شامل تھے۔
مولانا روم کی عظمت یہ ہے کہ ان کی شاعری کے دیوان کو فارسی کا قرآن کہا جاتا ہے۔ یہ مبالغہ آمیز تعریف ہے مگر اس مبالغے کے بغیر مولانا کی شاعرانہ عظمت بیان نہیں کی جاسکتی۔ اقبال خود دنیا کے عظیم ترین شاعروں میں سے ایک ہیں مگر انہوں نے لکھا ہے کہ رومی ایک سمندر ہیں اور میں اس سمندر کے ساحل پر پڑا ہوا ایک کوزا ہوں۔ رومی، رومی بننے سے پہلے صرف ایک عالم تھے۔ وہ ایک دن ایک تالاب کے کنارے بیٹھے اپنی کتابیں پڑھ رہے تھے کہ وہاں ایک صوفی شمس تبریز آگئے۔ شمس تبریز نے رومی کی کتابیں اٹھائیں اور رومی سے پوچھا یہ کیا ہے؟ رومی نے کہا یہ وہ ہے جو تم نہیں جانتے۔ شمس تبریز نے وہ ساری کتابیں تالاب میں پھینک دیں۔ رومی پریشان ہوگئے۔ شمس تبریز نے وہ کتابیں تالاب سے نکالیں تو وہ سوکھی تھیں۔ رومی نے پوچھا یہ کیا ہے؟ شمس تبریز نے کہا یہ وہ ہے جو تمہیں معلوم نہیں۔ اس واقعے کے بعد رومی شمس تبریز کے عاشق ہوگئے اور پھر وہ ایک عظیم شاعر اور عظیم صوفی بن کر ابھرے۔
غزالی عالم بھی تھے اور صوفی بھی۔ غزالی کا مثالیہ پوری اسلامی تاریخ تھی۔ چنانچہ غزالی بھی عظیم بن کر ابھرے۔ غزالی کے زمانے میں یونانی فلسفے نے ابن سینا اور فارابی جیسے لوگوں کے عقائد خراب کردیے تھے۔ چنانچہ غزالی نے تہافت الفلاسفہ نام کی کتاب میں یونانی فلسفے کا رد لکھ کر پورے عالم اسلام کو گمراہی اور ضلالت سے بچالیا۔ غزالی کی دوسری عظمت یہ ہے کہ غزالی کے ایک معاصر کہا کرتے تھے کہ غزالی کا علمِ حدیث کمزور ہے۔ اس بات سے غزالی کو شدید تکلیف پہنچتی تھی۔ چنانچہ غزالی کے معاصر نے ایک دن خواب میں رسول اکرمؐ کو دیکھا۔ خواب میں غزالی بھی موجود تھے جو رسول اللہ سے شکایت کررہے تھے کہ یہ شخص میرے علمِ حدیث کو ناقص قرار دے کر مجھے تکلیف پہنچاتا ہے۔ رسول اکرمؐ نے ایک کوڑا غزالی کو دیا اور کہا کہ لو اس شخص کو مارو۔ غزالی نے ایسا ہی کیا اور اس شخص کو غزالی کے کوڑے لگے۔ چنانچہ وہ بیدار ہوگیا اور صبح کو غزالی کے پاس آکر ان سے معافی مانگی اور انہیں پورا خواب سنایا۔
عہد ِ حاضر میں مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ اب ان کے لیے نہ سیرت طیبہ مثالیہ ہے نہ صحابہ۔ ان کے لیے تابعین Ideal ہیں نہ تبع تابعین۔ ان کے لیے ہمارے اکابر علما اور صوفیا نمونۂ عمل ہیں نہ ہمارے بڑے دانش ور۔ حد تو یہ ہے کہ اب ہمارے لیے ہمارے شاعر و ادیب بھی Ideal نہیں ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کا Ideal اب اداکار ہیں، گلوکار ہیں، کرکٹرز ہیں، چند روز پیش تر شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ کرکٹرز اور ٹیلی ڈرامے کے اداکاروں کو ’’فالو‘‘ کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اب ہمارے پاس عمران خان، جاوید میانداد اور ظہیر عباس جیسے کرکٹرز موجود ہیں نہ بڑے اداکار جیسے فردوس جمال، روحی بانو اور عظمیٰ گیلانی۔ ہماری نئی نسل کو ’’اداکار‘‘ متاثر کرتے ہیں مگر انہیں معلوم ہی نہیں کہ اس دائرے میں دلیپ کمار کی کیا عظمت تھی، مینار کماری کا کیا کمال تھا؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہماری نئی نسل کرکٹرز اور اداکاروں میں کیوں دلچسپی رکھتی ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ پیسہ اور شہرت۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری نئی نسل کا اصل Ideal اب صرف پیسہ اور شہرت ہے۔ حالانکہ تاریخ بتاتی ہے کہ زندگی میں اصل چیز ’’کمال‘‘ ہے۔ کمال کے دو ’’کتّے‘‘ ہیں۔ پیسے اور شہرت مگر ہماری نئی نسل کمال کو اپنا مثالیہ بنانے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔