Jasarat News:
2025-04-22@06:18:39 GMT

ہجری سال کی اہمیت وتار یخ

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

اسلام سے قبل عیسوی سال ومہینوں کی تر تیب سے تاریخ لکھی جاتی تھی اور اہل اسلام میں تاریخ لکھنے کا رواج نہ تھا۔ دور فاروقی میں اہل حل وعقد نے اس کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ یہاں تک کہ 17ھ میں سیدنا موسیٰ اشعریؓ نے سیدنا عمرؓ کو خط لکھا کہ امارت اسلامیہ کی طرف سے مختلف ممالک کے بادشاہوں کو خطوط روانہ کیے جاتے ہیں مگر ان میں تاریخ نہیں لکھی ہوتی، اگر تاریخ لکھنے کا اہتمام ہو جائے تو اس میں بے شمار فوائد ہیں مثلاً پتا چل جائے گا کہ کون سے دن آپ کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا۔ کب یہ حکم متعلقہ حکام تک پہنچا۔ کب اور کس تاریخ کو اس پر عمل در آمد ہوا وغیرہ۔ سیدنا عمرؓ کو یہ مشورہ بہت پسند آیا، انہوں نے اکابر صحابہ کرامؓ کو اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی اور مشورہ کے لیے جمع کیا۔

اختلاف آرا
اکابر صحابہ کرامؓ کی طرف سے چار قسم کی مختلف آرا سامنے آئیں۔ بعض صحابہ کرامؓ کا مشورہ تھا کہ آپؐ کی ولادت کے سال سے اسلامی تاریخ اور اسلامی سال کی ابتدا کی جائے۔ بعض نے کہا کہ نبوت کے سال سے اسلامی سال شروع کیا جائے۔ بعض نے فرمایا کہ ہجرت سے اسلامی سال کا آغازکیا جائے۔ کچھ حضرات نے کہا آپؐ کے وصال سے اسلامی سال کی ابتدا ہو۔ الغرض ان مختلف آرا پر کافی غورو خوض ومباحثے کے بعد سیدنا عمرؓ نے فیصلہ فرمایا کہ ہجرت سے اسلامی سال کی ابتدا زیادہ مناسب ہے۔

خصوصیات
ہجرت کی برکت سے حق وباطل کے درمیا ن واضح فرق وامتیاز پیدا ہوا۔ ہجرت سے ہی اسلام کو عزت وشان ودبدبہ ملا۔ ہجرت کے سال سے ہی نبی اکرمؐ اور مسلمان سلامتی وامن کے ساتھ بلا خوف و خطر رب کی عبادت کے مزے لوٹنے لگے۔ ہجرت کے سال ہی مسجد نبوی کی بنیاد رکھنے کا عظیم واقعہ پیش آیا۔ ان خصوصیات کی بنا پر اکابر صحابہ کرامؓ کا اجماعی متفقہ فیصلہ ہوا کہ ہجرت کے سال سے اسلامی تاریخ اور اسلامی سال کی ابتدا ہو۔

دوسرا مسئلہ
دوسرا مسئلہ یہ پیش آیا کہ ہجرت کے سال سے اسلامی سال کی ابتدا تو ہوگئی۔ اب کون سا مہینہ پہلے نمبر پر ہوگا؟ یعنی کس مہینے سے اسلامی مہینوں کی ابتدا عمل میں لائی جائے؟ رجب کے مہینے سے۔ رمضان کے مہینے سے۔ محرم کے مہینے سے۔ ربیع الاول کے مہینے سے۔

فیصلہ
سیدنا عمرؓ نے محرم کے مہینے سے اسلامی سال کے مہینوں کی ابتدا کی۔ دو وجہ سے۔ انصار نے بیعت عقبیٰ کے موقع پر مدینے آنے کی دعوت دی۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو محرم کے مہینے میں ہجرت کے لیے روانہ کرنا شروع فرمایا۔ حجاج کرام حج کی سعادت کے بعد محرم میں اپنے گھروں کو واپس جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے سب کے متفقہ فیصلہ اور اجماع سے محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ قرار پایا۔
باقی رہی یہ بات کہ اس میں کیا حکمت تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ولادت یا نبوت سے ابتدا کی جاتی تو اختلاف ہو سکتا تھا۔ کیوں کہ ولادت یا نبوت کا دن متعین نہیں ہے۔ اسی طرح وصال کی تاریخ بھی متعین نہیں ہے۔ نیز وصال کا سال مسلمانوں کے غم وصدمے کا سال تھا۔ اس لیے ہر صورت مناسب تھا کہ محرم الحرام سے ابتدا کی جاتی جس میں ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔

شرعی حکم
اسلامی تاریخ کا شرعی حکم یہ ہے کہ اس کا یاد رکھنا فرض کفایہ ہے، یعنی اگر مسلمان اس کو ترک کر دیں تو سارے مسلمان گنہگار ہو ں گے۔ البتہ اکثر اہل اسلام اگر اسے یاد رکھیں تو اس عذاب سے بقیہ لوگ بچ جائیں گے۔

تقاضا
اس ساری گفتگو کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں اپنی شادی بیاہ، خوشی غمی، سفر کی تاریخ، کاروبار شروع کرنے کی تاریخ، معاملات، معاشرت، غرض کہ تمام قسم کے پروگراموں میں نمایاں طور پر اسلامی تاریخوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اس کی برکت سے ہمارے پروگراموں میں نورانیت آئے گی۔ اور اپنے بچوں میں اسلامی تاریخ کا جذبہ اجاگر ہوگا۔ اس کی اہمیت سے، اس کو پھیلانے سے عرش پر رب راضی ہو گا اور آقاؐ بھی خوش ہوں گے، اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی تاریخ کی اہمیت و عظمت نصیب فرمادیں۔ (آمین)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسلامی سال کی ابتدا کے سال سے اسلامی سے اسلامی سال اسلامی تاریخ ہجرت کے سال کے مہینے سے ابتدا کی کہ ہجرت کی طرف

پڑھیں:

مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) اس کی ایک واضح مثال 1861ء سے 1865ء تک جاری رہنے والی امریکی خانہ جنگی ہے۔ مورخین اس کے اسباب پر منقسم ہیں۔ ایک گروہ کا ماننا ہے کہ یہ جنگ غلامی کے خاتمے کے لیے لڑی گئی، جبکہ دوسرا گروہ اسے یونین کے تحفظ سے جوڑتا ہے۔ تیسرے گروہ کی رائے ہے کہ شمالی ریاستیں، جو صنعتی ترقی کی راہ پر تھیں، جنوبی ریاستوں کے زرعی کلچر اور غلامی پر مبنی معیشت کو ختم کرنا چاہتی تھیں۔

جنوبی ریاستوں کے بڑے زمیندار، جن کی دولت غلاموں کی محنت سے حاصل شدہ زرعی پیداوار پر منحصر تھی، غلامی کو جائز قرار دیتے تھے۔ وہ دعویٰ کرتے تھے کہ افریقی غلاموں کو ان کے ''پسماندہ معاشروں‘‘ سے نکال کر امریکہ میں آباد کیا گیا، جہاں انہیں عیسائیت قبول کروا کر ''نجات اور معاشی استحکام‘‘ دیا گیا۔

(جاری ہے)

جب کوئی تاریخی واقعہ متنازع ہو جاتا ہے، تو ہر گروہ اپنے موقف کے دفاع کے لیے نئے تاریخی مآخذ تلاش کرتا ہے یا موجودہ مآخذ کی نئی تشریحات پیش کرتا ہے۔

اس عمل سے تاریخ کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے اور نئے خیالات اسے تازگی عطا کرتے ہیں۔ تاہم یہ عمل تاریخ کو مسخ کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

یورپی سامراجی ممالک نے اپنی نوآبادیاتی تاریخ کو بہت حد تک مسخ کیا ہے۔ انہوں نے مقامی باشندوں کا استحصال کیا، ان کا قتل عام کیا اور ان کی دولت لوٹ لی لیکن ان مظالم کا تذکرہ ان کی تاریخی کتابوں میں شاذ و نادر ہی ملتا ہے۔

اس کے برعکس، وہ اپنی نوآبادیاتی تاریخ کو فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ایشیا اور افریقہ کی ''پسماندگی‘‘ کو ختم کر کے انہیں ''مہذب‘‘ بنایا۔

اسی طرح، جن یورپی ممالک نے غلاموں کی تجارت کی، انہوں نے افریقہ سے غلاموں کو جہازوں میں بھر کر امریکہ کی منڈیوں میں فروخت کیا اور کریبین جزائر میں ان سے شکر اور کافی کی پیداوار کروائی۔

ان مظالم کی تفصیلات ان کی تاریخ سے غائب ہیں۔

تاریخ کا ارتقاء کیسے ہوتا ہے؟

وہ فخر سے بتاتے ہیں کہ 1830ء کی دہائی میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے غلامی کا خاتمہ کیا اور وہ اسے اپنی مذہبی و اخلاقی اقدار کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ حقیقت سے دور ہے۔ غلامی کا خاتمہ مذہبی یا اخلاقی وجوہات کی بجائے تکنیکی ترقی کی وجہ سے ہوا۔

جب مشینوں نے غلاموں کی محنت سے زیادہ پیداوار دینا شروع کی تو غلام معاشی بوجھ بن گئے۔ نتیجتاً، انہیں آزاد کیا گیا لیکن آزادی کی قیمت بھی غلاموں سے ہی وصول کی گئی۔ مالکان نے دعویٰ کیا کہ غلام ان کی ملکیت ہیں، اس لیے انہیں آزادی کے بدلے چار سے پانچ سال تک بغیر معاوضے کے کام کرنا پڑا۔ یورپی ممالک نے غلاموں کی نسلوں سے لی گئی محنت کا کوئی معاوضہ ادا کرنے پر غور نہیں کیا اور غلامی کے کاروبار کو جرم قرار دینے سے گریز کیا۔

یورپی سامراج نے اپنی غربت کم کرنے کے لیے افریقہ میں کالونیاں قائم کیں۔ سیسل روڈز (وفات: 1902ء) نے موجودہ زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے برطانوی غریبوں کو آباد کیا۔ جرمنی نے نمیبیا اور ہرارے میں نابا قبائل کو ختم کر کے جرمن آباد کاروں کو بسایا۔ اس طرح، یورپی ممالک نے ''اپنی غربت ختم کر کے افریقیوں کو غریب‘‘ بنا دیا لیکن ان کی تاریخ ان جرائم پر خاموش ہے۔

تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل قوم پرستی اور وطن پرستی کے نام پر بھی کیا گیا۔ 1937ء میں جاپان نے چین پر حملہ کیا اور نانجِنگ سمیت کئی شہروں میں لوٹ مار اور قتل عام کیا۔ نانجِنگ میں شہریوں کا قتل، خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور منچوریہ میں آبادی کا خاتمہ جاپانی بربریت کی واضح مثالیں ہیں۔

عالمگیر تاریخ

جاپان نے فلپائن اور کوریا میں بھی یہی مظالم دہرائے، جہاں کوریائی خواتین کو ''کمفرٹ ویمن‘‘ کے نام سے جنسی غلامی کا نشانہ بنایا گیا۔

لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپانی مورخین نے قوم پرستی کے نام پر ان مظالم کو نظرانداز کیا۔ نانجنگ کے قتل عام کو تاریخی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، حالانکہ تصاویر اور شواہد موجود ہیں، جن میں شہریوں کی لاشیں سڑکوں پر بکھری نظر آتی ہیں۔

کچھ جاپانی فوجیوں نے فخریہ طور پر اپنی ڈائریوں میں لکھا کہ انہوں نے شہریوں کو قطار میں کھڑا کر کے یہ دیکھا کہ ایک گولی سے کتنے لوگ ہلاک ہو سکتے ہیں۔

ایسی تفصیلات جاپانی تاریخ سے غائب ہیں۔

جاپان نے اپنی نئی نسل کو تاریخی حقائق کے بجائے قومی عظمت کی داستانیں سنائیں اور مظالم کو قومی مفاد کے نام پر چھپایا۔ یورپی سامراجی ممالک نے بھی اپنی کالونیوں کی آزادی کے وقت تاریخی دستاویزات کو یا تو جلا دیا یا اپنے ممالک میں منتقل کر دیا۔ آزادی کے بعد لکھی گئی تاریخ میں ایشیا اور افریقہ کی سامراجی مزاحمت کو نظر انداز کیا گیا اور حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا گیا۔

مسخ شدہ تاریخ کو درست کرنا اس لیے مشکل ہے کہ متعلقہ دستاویزات یا تو موجود نہیں یا یورپی ممالک کے قبضے میں ہیں، جہاں تک ایشیا اور افریقہ کے ممالک کی رسائی نہیں۔ بدقسمتی سے ایشیا اور افریقہ کے ان ممالک میں، جہاں آمرانہ حکومتیں رہی ہیں، وہاں بھی تاریخ کو مسخ کیا گیا۔ آمروں نے اپنے ظلم و ستم کو قوم پرستی کے نام پر چھپایا اور مورخین نے ان واقعات کو مکمل طور پر بیان کرنے سے گریز کیا۔

جب تاریخ کو مسخ کر کے نصابی کتب میں شامل کیا جاتا ہے، تو نوجوان نسل تاریخی شعور سے محروم ہو جاتی ہے۔ وہ ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے گمراہی کا شکار ہوتی ہے۔ تاریخ کو درست کرنے کی ذمہ داری مورخین اور معاشروں پر عائد ہوتی ہے تاکہ آنے والی نسلیں حقائق سے آگاہ ہو سکیں اور ماضی کے تجربات سے سیکھ سکیں۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد میں تاریخ رقم: 35 روز میں انڈر پاس کی تعمیر کا آغاز
  • عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
  • سونے کی قیمت میں آج بھی بڑا اضافہ، نرخ نئی تاریخ ساز سطح پر پہنچ گئے
  • رانی مکھرجی کی فلم ’مردانی 3‘ کب ریلیز ہوگی؟ تاریخ سامنے آگئی
  • پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
  • نئی تاریخ رقم، ویرات کوہلی نے ڈیوڈ وارنر کا ریکارڈ توڑ دیا
  • مسیحیوں کے تہوار ’ایسٹر‘ کی دلچسپ تاریخ
  • مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟
  • امریکا فلسطینیوں کے قتل میں برابر کا شریک ہے: حافظ نعیم الرحمان
  • جماعت اسلامی کا غزہ میں جاری مظالم کیخلاف 26 اپریل کو ہڑتال کا اعلان