ماسکو(انٹرنیشنل ڈیسک) روس نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنر شپ کسی ملک کے خلاف نہیں ہوگی۔ خبررساں اداروں کے مطابق روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے ایران کے ساتھ روس کی شراکت داری کے معاہدے کے امکان بارے کہا کہ دونوں ممالک کی یہ شراکت داری کسی اور ملک کے خلاف نہیں ہوگی۔ اس سے قبل کریملن نے اطلاع دی تھی کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور ایران کے صدر مسعود پزشکیان 17 جنوری کو دوطرفہ مذاکرات کے بعد اس غیرمعمولی معاہدے پر دستخط کریں گے۔ کریملن کے مطابق دونوں سربراہان تجارت و سرمایہ کاری، نقل و حمل اور انسانی وسائل کے حوالے سے مختلف شعبوں میں تعاون کو بڑھانے پر غور کریں گے ،جب کہ علاقے اور بین الاقوامی سطح پر موجود صورتحال کا جائزہ لیں گے۔دوسری جانب روس اور یوکرین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے حصے کے طور پر 50فوجیوں کو رہا کردیا گیا۔ روسی وزارت دفاع کے بیان میں کہا گیا کہ یوکرین کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ متحدہ عرب امارات کی ثالثی میں کیا گیا۔ مذاکراتی عمل کے نتیجے میں 25 روسی اور 25 یوکرینی فوجیوں کا کیف انتظامیہ کے زیر کنٹرول علاقوں سے تبادلہ ہوا۔ رہا ہونے والے روسی فوجی بیلاروس میں ہیں اور انہیں ضروری طبی اور نفسیاتی مدد فراہم کی گئی اور وہاں سے انہیں وزارت صحت کے مراکز میں علاج کے لیے ماسکو لے جایا جائے گا۔ ادھر یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر کہا کہ ہمارے 25 فوجی اور شہری وطن واپس آرہے ہیں۔ انہیں شدید زخم اور بیماریاں لاحق ہیں لہٰذا ان میں سے ہر ایک کو ضروری طبی مدد فراہم کی جائے گی۔ زیلنسکی نے ثالثی کی کوششوں پر متحدہ عرب امارات کا شکریہ ادا کیا۔یاد رہے کہ اس سے قبل 30 دسمبر کو روس اور یوکرین کے مابین قیدیوں کے تبادلے میں 300 سے زیادہ روسی اور یوکرینی فوجی رہا کیے گئے تھے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: یوکرین کے ایران کے کے ساتھ

پڑھیں:

مودی کا دورہ سعودی عرب: تیل، تجارت اور اسٹریٹیجک شراکت داری کی نئی راہیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 اپریل 2025ء) بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی منگل کو سعودی عرب کے شہر جدہ پہنچے، جو بطور وزیر اعظم ان کا تیل سے مالا مال اس خلیجی مملکت کا تیسرا دورہ ہے۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب بھارت اپنی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کے لیے توانائی کے وسائل کو یقینی بنانے اور سعودی عرب کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

دورے کا پس منظر

نریندر مودی کا یہ دورہ ایک روز قبل نئی دہلی میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے ساتھ اعلیٰ سطحی بات چیت کے بعد شروع ہوا ہے، جس میں بھارت نے واشنگٹن کے ساتھ ایک ممکنہ تجارتی معاہدے پر تبادلہ خیال کیا اور امریکی محصولات سے بچنے کی حکمت عملی اپنائی۔

(جاری ہے)

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق مودی کے سعودی عرب کے اس دورے سے بھارت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات واضح ہوتی ہیں، جو انرجی سکیورٹی، معاشی ترقی اور علاقائی تعاون پر مبنی ہیں۔

نئی دہلی میں وزیر اعظم مودی کے دفتر کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''بھارت سعودی عرب کے ساتھ اپنے طویل اور تاریخی تعلقات کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جو حالیہ برسوں میں اسٹریٹیجک گہرائی کے ساتھ ساتھ تیز رفتار بھی ہو چکے ہیں۔ ہم نے باہمی طور پر فائدہ مند اور مضبوط شراکت داری قائم کی ہے۔‘‘

توانائی اور تجارت جیسے شعبوں میں تعاون

سعودی عرب کئی برسوں سے بھارت کے لیے تیل کا ایک اہم سپلائر رہا ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق سعودی عرب دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت کے لیے تیل کا تیسرا بڑا فراہم کنندہ ملک ہے۔ بھارت کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بڑے پیمانے پر پٹرولیم کی درآمدات پر انحصار کرتی ہے اور سعودی عرب اس ضرورت کو پورا کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

نریندر مودی نے اپنے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ دونوں ممالک ریفائنریز اور پیٹروکیمیکلز کے شعبوں میں مشترکہ منصوبوں پر غور کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، ''ہم بھارت، سعودی عرب اور وسیع تر خطے کے درمیان بجلی کے گرڈ اسٹیشنوں کی باہمی ربط کاری کے لیے فیزیبیلٹی اسٹڈیز پر کام کر رہے ہیں۔‘‘ مبصرین کے مطابق یہ منصوبے دونوں ممالک کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون کو نئی بلندیوں تک لے جا سکتے ہیں۔ سعودی عرب میں بھارتی کمیونٹی کا کردار

سعودی عرب میں 20 لاکھ سے زائد بھارتی شہری مقیم ہیں، جو سعودی لیبر مارکیٹ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

یہ بھارتی ورکرز سعودی عرب کے بڑے ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر و تکمیل میں شامل رہے ہیں اور ہر سال اربوں ڈالر کی ترسیلات زر بھارت بھیجتے ہیں۔ مودی اپنے دو روزہ دورے کے دوران جدہ میں بھارتی کمیونٹی کے ارکان سے ملاقات کریں گے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان سماجی اور معاشی رابطوں کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ اسٹریٹیجک تعلقات اور عالمی تناظر

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور نریندر مودی کے درمیان قریبی روابط کی بدولت حالیہ برسوں کے دوران بھارت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات نمایاں طور پر مضبوط ہوئے ہیں۔

ان دونوں رہنماؤں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت کے دوران گہرے باہمی تعلقات کی بنیاد رکھی تھی۔ صدر ٹرمپ اگلے ماہ سعودی عرب کا دورہ کرنے والے ہیں، جو ان کا اپنی دوسری مدت صدارت کے دوران پہلا غیر ملکی دورہ ہو گا۔ یہ امر بھارت، سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان سہ فریقی اسٹریٹیجک تعاون کی اہمیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سعودی عرب میں بھارتی کمیونٹی کی اہمیت اور نئے مشترکہ منصوبوں کی پلاننگ اس دورے کی اہمیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ دورہ نہ صرف بھارت کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے بلکہ خطے میں اس کے اسٹریٹیجک اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوششوں کا حصہ بھی ہے۔

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • مودی کا دورہ سعودی عرب: تیل، تجارت اور اسٹریٹیجک شراکت داری کی نئی راہیں
  • روسی صدر نے یوکرین کے ساتھ براہ راست بات چیت کا اشارہ دے دیا
  • یمن میں امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا ہے، رپورٹ
  • پیوٹن کا 30 گھنٹوں کی خصوصی جنگ بندی کا اعلان، یوکرینی صدر شک میں پڑ گئے
  • امریکا-ایران مذاکرات؛ ماہرین جوہری معاہدے کا فریم ورک تیار کریں گے، ایرانی وزیرخارجہ
  •  او آئی سی انجمن غلامان امریکہ ہے، یمن اور ایران مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، مشتاق احمد 
  • روسی صدر پیوٹن کا ایسٹر کے موقع پر یکطرفہ یوکرین جنگ بندی کا اعلان
  • روسی صدر کا یوکرین میں عارضی جنگ بندی کا اعلان
  • ایسٹر کے موقع پر روس یوکرین میں جنگی کارروائیاں نہیں کرے گا، روسی صدر کا فیصلہ
  • پیوٹن کا ایسٹر کے موقع پر یکطرفہ یوکرین جنگ بندی کا اعلان