Express News:
2025-04-22@07:18:55 GMT

سندھ میں پیپلز پارٹی کا اقتدار

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

2008 میں جنرل پرویزکی صدارت میں پیپلز پارٹی 2007 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے نتیجے میں 1993 کے بعد اقتدار میں آئی تھی اور اس نے سندھ میں اپنی واضح اکثریت سے حکومت بنائی تھی اور پی پی نے مسلم لیگ (ن) سے مل کر حکومت بنائی تھی جو چند ماہ ہی چل سکی تھی اور آصف زرداری نے (ن) لیگ کی علیحدگی کے بعد ایم کیو ایم اور (ق) لیگ کو ملا کر گیلانی حکومت بنائی اور راجہ پرویز اشرف کی حکومتوں کی مدت پوری کرائی تھی۔

بلوچستان میں پی پی کا اور کے پی میں اے این پی کے ساتھ اتحاد سے وزیر اعلیٰ تھے جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریتی حکومت تھی اور پی پی کی سندھ حکومت واضح اکثریت سے مضبوط حکومت تھی، بعد کے تینوں انتخابات میں پی پی سندھ میں واضح اکثریت سے حکومتیں بناتی رہی اور موجودہ سندھ حکومت بھی واضح اکثریت کی حامل ہے جہاں 2018 میں پی ٹی آئی کا اپوزیشن لیڈر تھا اور اب ایم کیو ایم کا اپوزیشن لیڈر ہے اور سولہ برسوں میں قائم علی شاہ کی جگہ مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بنتے رہے اور چار حکومتوں میں وزارت اعلیٰ صرف سیدوں کو ملتی رہی جب کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر دور میں سید قائم علی شاہ اور عبداللہ شاہ کے علاوہ ممتاز بھٹو، غلام مصطفیٰ جتوئی، آفتاب شعبان میرانی بھی وزیر اعلیٰ پی پی حکومتوں میں رہے مگر سیدوں کو زیادہ اہمیت بے نظیر بھٹو کے بعد آصف زرداری نے سب سے زیادہ دی اور سندھ کا زیادہ اقتدار سیدوں کے پاس رہا اور مراد علی شاہ پی پی کی حکومتوں میں تیسرے سید وزیر اعلیٰ ہیں اور سب سے زیادہ عرصہ اقتدار بھی سیدوں کا ہے جو شاید آصف زرداری کی ذاتی پسند ہیں۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کا چوتھا اقتدار بھی بے حد مضبوط ہے اور سندھ کے ایک مضبوط سسٹم کے ساتھ چل رہا ہے اور موجودہ ایم کیو ایم کے اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے سندھ سسٹم قرار دیا ہے۔

جمعہ دس جنوری کا سندھ اجلاس وہ منفرد اجلاس تھا جو میڈیا کے مطابق ایجنڈے کی کارروائی کے بغیر اسپیکر نے اس لیے ملتوی کر دیا کہ اس اجلاس میں صرف دو تین ارکان ہی موجود تھے جب کہ ایوان میں صرف پی پی ہی کے تقریباً ایک سو ارکان ہیں اور باقی ایم کیو ایم، پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے بھی کچھ ارکان ہیں مگر جمعہ کو بہ مشکل دو تین ارکان آئے اور کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے مختصر وقت میں کورم کے باعث ملتوی ہوا۔

 سندھ اسمبلی کی رپورٹنگ کرنے والے ایک سینئر صحافی کے وی لاگ کے مطابق ایسا نہیں تھا اور کافی ارکان ایوان میں موجود تھے جہاں اپوزیشن لیڈر نے اسپیکر سے بات کرنے کی اجازت مانگی جو اسپیکر نے نہیں دی اور کورم نہ ہونے کے جواز پر اجلاس ملتوی کر دیا جس کے بعد ایم کیو ایم کے اپوزیشن لیڈر نے مقررہ مقام پر ارکان کے ہمراہ میڈیا ٹاک کی۔ ایم کیو ایم کے کنوینر اور وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سندھ اسمبلی کو وہ اسمبلی قرار دے چکے ہیں کہ جہاں اپوزیشن کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی نہ انھیں ایوان میں بولنے کا موقعہ دیا جاتا ہے۔

موجودہ سندھ حکومت میں یوں تو کئی سینئر وزیر ہیں مگر تمام میں صرف ایک سینئر وزیر شرجیل انعام میمن ہی میڈیا میں چھائے نظر آتے ہیں جو سندھ کے وزیر اطلاعات ہونے کے علاوہ ٹرانسپورٹ اور ایکسائز کے وزیر بھی ہیں۔ وزیر ٹرانسپورٹ کی حیثیت سے انھوں نے کراچی ہی نہیں بلکہ سندھ کے بعض دیگر بڑے شہروں میں سندھ حکومت کی طرف سے مختلف بسیں چلوائی ہیں اور اب انھوں نے کراچی میں ڈبل ڈیکر بسیں چلوانے کا بھی اعلان کیا ہے اور وہ پی ٹی آئی سے متعلق دیگر وزیروں کے مقابلے میں زیادہ بیانات دیتے ہیں جن کی یہ بھی منفرد اہمیت ہے کہ وزیر اعظم کراچی آمد پر پہلی بار سینئر وزیر شرجیل میمن کے گھر انھیں دادا بننے کی مبارکباد دینے گئے۔

  سندھ حکومت میں پہلے بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کو مشیر قانون اور حکومت سندھ کا ترجمان رکھا گیا اور انھوں نے موثر طور سندھ حکومت کی ترجمانی کی اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پیپلز پارٹی کے پہلے میئر ہیں جنھیں سندھ حکومت نے اکثریت نہ ہونے کے باوجود خصوصی طور پر میئر منتخب کرایا تھا جنھیں جماعت اسلامی منتخب نہیں مانتی اور انھیں قبضہ میئر قرار دیتی ہے جن کے پاس اکثریت نہیں تھی اور پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمین میئر الیکشن والے دن غیر حاضر ہونے کے باعث وہ میئر منتخب ہو گئے تھے اور موجودہ جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے اور اکثریت حاصل کرنے کے لیے ممبران توڑ لینا عام بات ہے۔

سندھ حکومت نے ایک خاتون کے ساتھ سکھر کے اپنے میئر کو بھی اپنا ترجمان مقرر کیا ہوا ہے ، وزیروں، مشیروں، معاونین خصوصی اور دیگر سرکاری عہدیداروں نے بھی اپنے اپنے بندے رکھے ہوئے ہیں انھیں گاڑیاں اور سہولتیں ان کے اداروں سے مل جاتی ہیں مگر تنخواہیں کہاں سے ملتی ہیں اس کا پتا نہیں مگر پیپلز پارٹی اپنی حکومتوں اور ماتحت اداروں میں ملازمتیں دینے میں ہمیشہ فراغ دل رہی ہے۔ بجٹ اور جگہیں ہوں نہ ہوں مگر پی پی اپنے لوگوں کو مایوس نہیں کرتی اور اسی لیے تمام بلدیاتی اور حکومتی اداروں میں ملازمین کی بھرمار ہے اور ہر جگہ فاضل عملہ رکھا جاتا ہے جنھیں ماضی میں (ن) لیگ کی حکومت فارغ بھی کردیتی تھی۔

ایم کیو ایم پی پی کی ملازمتیں دینے کی اس فیاضی کو جانبدارانہ اور مخصوص قرار دیتی ہے اور اپنے لوگوں کو ملازمتیں نہ دینے پر احتجاج کرتی ہے جواب میں پی پی کے وزیر یہی الزام ایم کیو ایم پر دہرا دیتے ہیں کہ ماضی میں انھوں نے بھی یہی کیا تھا اور اپنے ماتحت اداروں میں اپنے لوگ بھرے تھے۔ سندھ میں سولہ برسوں سے پیپلز پارٹی کو اقتدار ایسے ہی نہیں مل رہا وہ اپنوں کو ہمیشہ نوازتی رہی ہے یہ خوبی مسلم لیگ (ن) میں تو ہے ہی نہیں وہ اپنوں کو نوازنے پر کم اور کارکردگی پر زیادہ یقین رکھتی ہے۔ سندھ کے قوم پرست بھی پی پی کی اسی فیاضی پر خوش ہیں اور تنقید نہیں کرتے مگر پی پی حکومت کی مجموعی کارکردگی پر مطمئن نہیں اور تنقید کرتے آ رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اپوزیشن لیڈر واضح اکثریت پیپلز پارٹی ایم کیو ایم سندھ حکومت وزیر اعلی پی ٹی آئی انھوں نے پی پی کی علی شاہ سندھ کے تھی اور ہیں مگر ہونے کے ہیں اور ہے اور میں پی

پڑھیں:

کینالز تنازع پر ن لیگ پیپلزپارٹی آمنے سامنے، کیا پی ٹی آئی کا پی پی پی سے اتحاد ہو سکتا ہے؟

دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن آمنے سامنے ہیں۔ جمعہ کو حیدر آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہاکہ پانی کی تقسیم کا مسئلہ وفاق کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، اسلام آباد والے اندھے اور بہرے ہیں، یہ نہ سننے کو تیار ہیں اور نہ ہی دیکھنے کے لیے تیار ہیں، ہم وزارتوں کو لات مارتے ہیں، کینالز منصوبہ کسی صورت منظور نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت فوری طور پر اپنا متنازع کینالز کا منصوبہ روکے، ورنہ پیپلز پارٹی ساتھ نہیں چل سکتی۔

یہ بھی پڑھیں متنازع کینالز منصوبہ: نواز شریف اور شہباز شریف کی پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت

اس ساری صورتحال میں اگر پیپلز پارٹی حکومت کی حمایت سے دستبردار ہو جاتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی اکٹھی ہو سکتی ہیں؟ اور یہ ممکنہ اتحاد پی ٹی آئی کے لیے کم بیک کرنے میں کتنا مفید ثابت ہو سکتا ہے؟

کینالز کے معاملے پر اختلاف پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ میں ہوگا، ماجد نظامی

سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی نے کہاکہ پیپلز پارٹی اس وقت مشکل صورتحال سے اس لیے دوچار ہے کیونکہ 9 فروری کے بعد سے لے کر اب تک وہ وفاقی حکومت پر تنقید تو کرتے تھے، لیکن ساتھ شامل بھی تھے، لیکن اب معاملہ تھوڑا مختلف ہے کیوں کہ کینالز کے معاملے پر یہ اختلاف پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ میں ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ اس کے علاوہ سندھ میں قوم پرستوں کے مؤقف کی وجہ سے بھی پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے، اس لیے وفاقی حکومت پر پیپلز پارٹی تنقید تو کررہی ہے، لیکن ان کے اصل مخاطب اسٹیبلشمنٹ کے افراد ہیں، کیونکہ کینالز جو خصوصاً پنجاب میں آئیں گی، وہ ماڈرن فارمنگ کے ایریاز کے لیے تشکیل دی جا رہی ہیں۔

’براہِ راست اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرنا پیپلز پارٹی کے لیے ذرا مشکل ہے‘

انہوں نے سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہاکہ چونکہ سیاسی صورتحال پر براہِ راست اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرنا پیپلز پارٹی کے لیے ذرا مشکل ہے، اس لیے وہ وفاقی حکومت پر تنقید کررہے ہیں، لیکن یہ معاملہ پیپلز پارٹی بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ ہے، اس سے مسلم لیگ ن کا کوئی تعلق نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ماجد نظامی نے کہاکہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان اتحاد کا کوئی امکان نہیں، کیوں کہ نہروں کے معاملے پر پیپلزپارٹی کی یہ لڑائی مسلم لیگ ن سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان میں کوئی ایسی حکومت تشکیل نہیں پا سکتی جس کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہ ہو، اس لیے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کا معاملہ ذرا مشکل نظر آتا ہے۔

کینالز کے معاملے پر پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی نشست کامیاب نہیں ہوسکی، احمد بلال

تجزیہ کار احمد بلال نے کہاکہ سندھ تو پہلے سے ہی شور مچاتا آرہا ہے کہ انہیں پانی کم ملتا ہے، اگر اب ایسی صورت میں نہریں بھی نکلیں گی تو ان کے ساتھ زیادتی ہوگی، اسی لیے پیپلزپارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں باقاعدہ مہم چلا رہی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ متنازع کینالز منصوبے کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہونے والی نشست کامیاب نہیں ہو سکی، جس کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید بڑھتا جارہا ہے، اور بلاول بھٹو نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر انہوں نے ساتھ چھوڑ دیا تو یہ حکومت نہیں چل سکے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان پیپلزپارٹی کبھی بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد نہیں کرےگی، ان کے مسلم لیگ ن کے ساتھ معاملات حل ہو جائیں گے، اس وقت جو کچھ ہورہا ہے یہ صرف ایک پریشر ہے۔

’پیپلزپارٹی حکومتی حمایت سے دستبردار ہوگئی تو مرکز میں انتخابات دوبارہ ہوں گے‘

انہوں نے مزید کہاکہ اگر پیپلز پارٹی حکومت سے علیحدگی اختیار کرتی ہے تو وفاق کی یہی صورتحال ہوگی کہ انتخابات دوبارہ ہوں گے، اور ایسی صورت میں مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں کیوں کہ اس وقت ملک درست سمت میں گامزن ہو چکا ہے، اور معیشت ٹریک پر آگئی ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ یہ افورڈ نہیں کر سکتے کہ اس وقت دوبارہ سے سے انتخابات کروائے جائیں، بلاول بھٹو نے جلسے میں جو کہا یہ صرف بیان کی حد تک تھا۔

انہوں نے کہاکہ صدر مملکت آصف زرداری منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کیسے آگے بڑھنا ہے، کیسے پریشر ڈالنا ہیں اور مطالبات منوانے کے لیے کیا آپشن استعمال کرنے ہیں۔

نہروں کا معاملہ پیپلزپارٹی کے لیے اہمیت کا حامل ہے، رانا عثمان

سیاسی تجزیہ کار رانا عثمان نے بتایا کہ نہروں کا مسئلہ پیپلزپارٹی کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے، چونکہ اس کا سارا ووٹ بینک سندھ میں ہے، اور وہاں پر ان کی حکومت بھی ہے۔

انہوں نے کہاکہ پانی کے معاملے پر سندھ کے عوام بہت جذباتی ہیں، کالا باغ ڈیم کے معاملے پر یہ چیز واضح بھی ہو چکی ہے، کچھ بھی ہو جائے پیپلزپارٹی نہریں نکالنے کے معاملے پر راضی نہیں ہو سکتی۔

رانا عثمان نے کہاکہ بلاول بھٹو کی جانب سے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی دھمکی ایک سیاسی پریشر ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو جمہوریت کے لیے کیا خطرات ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں حکومت متنازع نہری منصوبہ روکے ورنہ ساتھ نہیں چل سکتے، بلاول بھٹو نے شہباز شریف کو خبردار کردیا

انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ ملک اس وقت نئے انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا، کیونکہ پاکستان کی معاشی صورتحال ہی ایسی ہے، اس لیے پیپلزپارٹی حکومت کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آصف زرداری بلاول بھٹو پی ٹی آئی پی پی پی اتحاد پیپلزپارٹی شہباز شریف عمران خان کینالز معاملہ مسلم لیگ ن نواز شریف وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • پانی معاملہ صرف سندھ نہیں پنجاب کا بھی مسئلہ ہے، نیئر بخاری
  • نہروں کا معاملہ پی پی کے لیے نعمت، وارننگ پرحکومت کی مذاکرات کی پیشکش
  • پیپلز پارٹی کھیل بگاڑنا چاہتی ہے؟
  • لاہور بیٹھک، ن لیگ اور پی پی کا ساتھ چلنے پر اتفاق
  • پیپلز پارٹی کينالز کی حامی ہے، انہیں اقتدار اسی بنیاد پر ملا ہے، ایاز لطیف پلیجو
  • وفاق اور سندھ کا نہروں کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق
  • رانا ثنا کا شرجیل میمن سے رابطہ، دونوں رہنماؤں کا کینالز معاملہ بات چیت سے حل کرنے پر اتفاق
  • وفاقی حکومت کسی وقت بھی گرسکتی: پیپلز پارٹی رہنما شازیہ مری
  • کینالز تنازع پر ن لیگ پیپلزپارٹی آمنے سامنے، کیا پی ٹی آئی کا پی پی پی سے اتحاد ہو سکتا ہے؟
  • کینالز منصوبہ پیپلز پارٹی ہی مسترد کرائے گی: وزیرِاعلیٰ سندھ مراد علی شاہ