اسلام آباد پولیس میں اکھاڑ پچھاڑ، ایس ایچ او کی تنزلی
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
اسلام آباد کے تھانہ سہالہ کے ایس ایچ او کی تنزلی کرکے انہیں اے ایس آئی بنادیا گیا ہے۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق آئی جی اسلام آباد سید علی ناصر رضوی نے تمام زونز میں کرائم میٹنگز کی ہیں، ناقص کارکردگی پر ایس ایچ او سہالہ کی تنزلی کرکے اے ایس آئی بنا دیا، انچارج انوسٹی گیشن کورال کی کمزور کارکردگی پر پولیس لائن بلا لیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: شہریوں کے لیے بڑا ریلیف، اسلام آباد پولیس کی مصالحتی کمیٹیاں ازسرنو فعال
کمزور کاردگی پر ڈی ایس پی انوسٹی گیشن سواں زون سے وضاحت طلب، ایس ڈی پی او کورال سے کمزور کارکردگی پر وضاحت طلب کی گئی ہے۔
دوسری جانب آئی جی اسلام آباد نے اچھی کارکردگی پر ایس ایچ او ہمک اور انچارج انوسٹی گیشن ہمک کو تعریفی سرٹیفکیٹ اور ایک ایک لاکھ روپے انعام بھی دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شہری سے رشوت لینے پر اسلام آباد پولیس کا اہلکار نوکری سے برخاست
آئی جی اسلام آباد سید علی ناصر رضوی نے پولیس افسران کو ہدایت جاری کی ہے ضلع بھر کے افسران خدمت خلق کے جذبے سے کرائم کنٹرول کریں، جو افسران اچھی کارکردگی دکھائیں گے انہیں انعامات سے نوازا جائے گا، جن کی کارکردگی اچھی نہیں ہوگی ان کو سزائیں دی جائیں گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسلام آباد پولیس ایس ایچ او اے ایس آئی تعریفی سرٹیفکیٹ تنزلی تھانہ سہالہ ناقص کارکردگی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد پولیس ایس ایچ او اے ایس ا ئی تنزلی ناقص کارکردگی اسلام ا باد پولیس کارکردگی پر ایس ایچ او
پڑھیں:
اسلام آباد حادثہ: جج کے بیٹے کی رہائی کے باوجود کئی سوال برقرار
سینیئر کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر کا کہنا ہے کہ ایک جج کے 16 سالہ بیٹے کا بنا لائسنس مبینہ طور پر تیز رفتار لینڈ کروزر سے 2 لڑکیوں کو کچل کر ہلاک کردینا اور پھر 5 دن کے اندر ہی لواحقین سے معافی لے کر رہائی پاجانا انتہائی افسوس ناک اور پریشان کن ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد حادثہ، جج کے کم عمر بیٹے کی گاڑی کی ٹکر سے 2 جوان لڑکیاں جاں بحق
وی نیوز کے پروگرام صحافت اور سیاست میں گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی ثاقب بشیر نے کہا کہ اس واقعہ نے معاشرے میں بڑے خوفناک سوالات چھوڑے ہیں۔
ان کے مطابق واقعے کی تفصیلات سب کے علم میں ہیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ 2 بچیوں کی ہلاکت کے بعد محض پانچ دن میں ایک بااثر خاندان کا فرد کیسے رہا ہو گیا؟ اس سے یہ تاثر ملا ہے کہ اشرافیہ کے لیے راستے ہمیشہ صاف رہتے ہیں، جبکہ عام شہریوں کو ایسی کوئی سہولت نہیں ملتی۔
ثاقب بشیر کے مطابق اس کیس نے ٹریفک پولیس، پولیس اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی کارکردگی پر بھی سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد کے حساس ترین واقعات میں بھی پولیس فوری طور پر سی سی ٹی وی فوٹیج، ایف آئی آر اور گرفتاری سے متعلق اپڈیٹ فراہم کرتی ہے مگر اس کیس میں پولیس ترجمان کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر عام شہری ہوتا تو پولیس کئی سطحوں پر کارروائی کرتی۔
مزید پڑھیے: اسلام آباد حادثہ: ہائیکورٹ جج کی ماورائے عدالت تصفیے کی کوششیں، صحافی اسد ملک کا انکشاف
ثاقب بشیر نے بتایا کہ ٹریفک پولیس نے بھی اس معاملے میں کوئی واضح کارروائی نہیں دکھائی حالانکہ یہ کئی قانونی جرائم پر مشتمل کیس تھا۔
ان کے مطابق یہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ اس سے جڑے 6 دیگر قانونی سوالات بھی موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف لواحقین نے معاف کر دیا لیکن دوسری طرف ریاستی اداروں کو بغیر لائسنس، جالی نمبر پلیٹ اور زیرِ عمر ڈرائیونگ جیسے جرائم پر کارروائی کرنی چاہیے تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ حادثے کے بعد زخمیوں کو قریبی پولی کلینک کے بجائے دور موجود پمز اسپتال لے جانا بھی سوالیہ نشان ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جج صاحب موقعے پر پہنچے اور بچے کو اپنی دوسری گاڑی میں گھر بھیج دیا گیا جبکہ پولیس کو گرفتاری ڈالنے میں تقریباً چار گھنٹے لگے۔
مزید پڑھیں: کم عمر بچے کی گاڑی چلاتے پرانی ویڈیو وائرل، ’کیا یہ وہی ابوذر ہے جس کی گاڑی سے 2 لڑکیاں جاں بحق ہوئیں؟‘
ثاقب بشیر کے مطابق جب ملزم کو ریمانڈ کے لیے عدالت لایا گیا تو عدالت کا وقت ختم ہو چکا تھا، میڈیا کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی اور رپورٹرز کی بنائی گئی کچھ ویڈیوز بھی ڈیلیٹ کروائی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی آرڈر کی کاپی بھی 48 گھنٹے گزرنے کے باوجود دستیاب نہیں ہو سکی، جو ایک غیر معمولی بات ہے۔
ثاقب بشیر نے کہا کہ ملزم کا بھائی عدالت سے روتا ہوا نکلا لیکن اندر کیا معاملہ طے ہوا یہ واضح نہیں ہو سکا۔
انہوں نے کہا کہ شفافیت کے بغیر ایسے کیسز میں سوالات بڑھتے رہتے ہیں اور یہ عمل نہ صرف جوڈیشری بلکہ پورے انتظامی نظام کے لیے بدنامی کا باعث بنتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اسکوٹی پر سوار لڑکیوں کو کچلنے کا واقعہ، جج کے بیٹے کا جسمانی ریمانڈ منظور
ان کا کہنا تھا کہ حیران کن طور پر حکومت، پولیس، ٹریفک پولیس، جوڈیشری یا کسی بھی ادارے نے اس معاملے پر ایک لفظ بھی نہیں بولا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسکوٹی سوار لڑکیوں کی ہلاکت جج کے بیٹے کا جرم سینیئر رپورٹر ثاقب بشیر