خیبرپختونخوا کے ضلع کُرم کے علاقے بگن میں امدادی سامان پاراچنار لے جانے والے گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ کردی گئی. جس کے نتیجے میں ایک سپاہی شہید اور 4 دیگر زخمی ہو گئے۔ہنگو کے اسسٹنٹ کمشنر سعید منان نے ٹل سے پاراچنار امدادی سامان لے جانے والی 35 گاڑیوں پر مشتمل قافلے پر حملے کی تصدیق کی ہے۔اسسٹنٹ کمشنر کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد انتظامیہ صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے۔

دریں اثنا، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر شوکت علی نے بتایا کہ حملے کے نتیجے میں ایک سپاہی شہید جبکہ 4 زخمی ہوگئے، مزید کہنا تھا کہ قافلے میں شامل 3 گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔انہوں نے کہا کہ حملہ آور دہشتگردوں کے خلاف ایکشن لیا جا رہا ہے، جوابی کارروائی میں 6 دہشتگرد ہلاک اور 10 زخمی ہو گئے۔کُرم سے سابق وفاقی وزیر ساجد طوری نے بتایا کہ جاری حملے میں چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں کا استعمال کیا جارہا ہے۔سینئر پولیس افسر صہیب گل نے اے ایف پی کو تصدیق کہ حملے کے بعد 21 ٹرک علاقے سے پیچھے ہٹ گئے جبکہ دیگر پھنسے ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد 2 دیگر مقامات پر شدید فائرنگ شروع ہوئی، جو اب بھی جاری ہے.

صہیب گل نے بتایا کہ حملے کے نتیجے میں کچھ ٹرکوں میں آگ بھی لگ گئی۔ڈپٹری کمشنر کُرم محمد اشفاق خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ تھل کے قریب ’فائرنگ جاری ہے۔

خیال رہے کہ پیر کے روز وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے امن معاہدے کے بعد ضلع کرم میں مورچوں کی مسماری کا عمل شروع کے حوالے سے بتایا تھا۔اس کے بعد منگل کے روز امدادی سامان پر مشتمل 25 گاڑیوں کے قافلے کے کُرم پہنچے پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ کرم میں صورتحال معمول پر آرہی ہے۔

واضح رہے کہ 2024 کے آخری مہینوں میں کرم ایجنسی کے علاقے پارا چنار میں مسافر بس پر فائرنگ سے 44 افراد جاں بحق ہوگئے تھے. جس کے بعد کرم ایجنسی کے مختلف علاقوں میں مسلح قبائلی تصادم اور فائرنگ کے نتیجے میں مزید درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔متحارب فریقین کی جانب سے راستوں کی بندش اور احتجاج کی وجہ سے کرم ایجنسی میں کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کی قلت پیدا ہوگئی تھی. جس کے بعد وفاقی کابینہ کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہنگامی طور پر امدادی سامان پاراچنار بھیجا گیا تھا۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: کے نتیجے میں کہ حملے کے کے بعد تھا کہ

پڑھیں:

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر حملہ، 24 افراد ہلاک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 اپریل 2025ء) ایک سینئر پولیس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ آج 22 اپریل بروز منگل کیے گئے اس حملے میں کم از کم 24 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔

اس سے قبل جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا تھا، ''میں پہلگام میں سیاحوں پر اس بزدلانہ حملے کی شدید مذمت کرتی ہوں، جس میں بدقسمتی سے پانچ افراد ہلاک اور کئی دیگر زخمی ہوئے ہیں۔

‘‘ حالیہ برسوں میں ہونے والا ہلاکت خیز حملہ

موجودہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا، ''یہ حملہ حالیہ برسوں میں شہریوں پر ہونے والے کسی بھی حملے سے کہیں زیادہ بڑا ہے اور ہلاکتوں کی تعداد کا ابھی تعین کیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

‘‘ انہوں نے ایک بیان میں کہا، ''ہمارے مہمانوں پر یہ حملہ ایک گھناؤنا فعل ہے۔ اس حملے کے مرتکب افراد حیوان ہیں اور وہ حقارت کے مستحق ہیں۔

‘‘

خطے کے گورنر منوج سنہا، جو نئی دہلی کے نمائندے ہیں، نے بھی ''سیاحوں پر اس بزدلانہ اور دہشت گردانہ حملے‘‘ کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا، ''میں عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ اس مکروہ حملے کے ذمہ داروں کو سزا سے نہیں بچایا جا سکے گا۔‘‘

ابھی تک کسی بھی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن اس مسلم اکثریتی خطے میں سن 1989 سے کشمیری عسکریت پسند ایک مسلح تحریک چلا رہے ہیں۔

یہ عسکریت پسند یا تو آزادی مانگتے ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔

یہ حملہ پہلگام کے مشہور سیاحتی مقام پر ہوا، جو مرکزی شہر سرینگر سے تقریباً 90 کلومیٹر (55 میل) کے فاصلے پر ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے رویندر رینا نے بھارتی نشریاتی اداروں سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ان بزدل دہشت گردوں نے نہتے معصوم سیاحوں کو نشانہ بنایا، جو کشمیر کی سیر کے لیے گئے تھے۔

کچھ زخمی سیاحوں کو مقامی ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔‘‘ کشمیر میں سیاحت اور سکیورٹی

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن 2024 میں تقریباً 35 لاکھ سیاحوں نے کشمیر کا رخ کیا، جن میں اکثریت ملکی سیاحوں کی تھی۔ سن 2019 میں مودی حکومت کی جانب سے خطے کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور نئی دہلی کا براہ راست کنٹرول نافذ کرنے کے بعد سے لڑائی میں کمی آئی ہے۔

اس کے بعد سے حکام نے اس پہاڑی خطے میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بھرپور اقدامات کیے ہیں۔ کشمیر سردیوں میں اسکیئنگ اور گرمیوں میں بھارت کے دیگر حصوں کی شدید گرمی سے نجات کے لیے ایک پرکشش سیاحتی مقام ہے۔

سن 2023 میں بھارت نے سرینگر میں سخت سکیورٹی کے حصار میں جی ٹوئنٹی ممالک کے سیاحت سے متعلق اجلاس کی میزبانی کی تھی۔ حکام کے مطابق اس کا مقصد ''امن اور معمولات‘‘ کی بحالی کو ظاہر کرنا تھا۔

اس کے علاوہ لائن آف کنٹرول کے قریب کئی نئے ریزورٹس بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔

بھارت نے اس خطے میں مستقل طور پر اپنے تقریباً پانچ لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ بھارت اکثر پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے کہ کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے، جبکہ اسلام آباد حکومت ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر حملہ، 24 افراد ہلاک
  • لبنان: اسرائیلی ڈرون حملے میں جماعت اسلامی کے رہنما شہید
  • فلسطینی ریڈ کراس نے طبّی کارکنوں پر حملے کی اسرائیلی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیدیا
  • جنوبی وزیرستان میں انسداد پولیو ٹیم پر حملہ، کانسٹیبل شہید اور دہشت گرد ہلاک
  • ڈی آئی خان: کانسٹیبل کو شہید کرنے والا اشتہاری پولیس مقابلے میں ہلاک
  • جنوبی وزیرستان: انسدادِ پولیو مہم پر مامور پولیس سے فائرنگ کا تبادلہ، دہشتگرد ہلاک، سپاہی شہید
  • صنعا پر امریکی فضائی حملہ، 12 افراد جاں بحق، 30 زخمی
  • صنعا پر امریکی فضائی جارحیت جاری، مزید 12 یمنی شہید، 30 زخمی
  • غزہ میں اسرائیلی دہشتگردی جاری، چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید 44 فلسطینی شہید
  • القسام بریگیڈ کا ایک اور مہلک حملہ، اسرائیلی فوجی ہلاک و زخمی، ٹینکس تباہ