وزیراعظم کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ شہباز شریف نے اپوزیشن کے تحریری مطالبات کا جواب دینے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی جبکہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن نے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے اور وہ مینڈیٹ واپسی کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی ہے۔اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے رکن رانا ثنااللہ نے سینیٹر عرفان صدیقی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ آج ملاقات میں اپوزیشن نے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا۔رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے تحریری مطالبات کا جواب دینے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی.

حکومتی کمیٹی پی ٹی آئی کے مطالبات کا جائزہ لے کرجواب دے گی.کمیٹی میں تمام اتحادی اور پیپلزپارٹی کے اراکین بھی شامل ہیں. حکومتی کمیٹی مطالبات پر جو جواب دے گی وہ حتمی ہوگا۔وزیراعظم کے مشیر نے مزید کہا کہ اپوزیشن کے 2 بنیادی مطالبات ہیں جن کا وہ پچھلے 10، 11 ماہ سے ذکر کرتے آرہے ہیں، ایک تو یہ کہ ہمارا مینڈیٹ واپس کیا جائے. جس پر ہم انہیں کہتے ہیں کہ اس کے لیے قانونی طریقہ کار اختیار کیا جائے. آج اس سے وہ دستبردار ہوگئے ہیں اور آج کی ملاقات میں انہوں نے الیکشن کے حوالے سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ تمام مقدمات سیاسی طور پر بنائے گئے ہیں جس پر ہم نے انہیں کہا تھا کہ آپ ہمیں ایف آئی آر کے نمبرز فراہم کریں کہ کن سیاسی ورکز کے خلاف ایسے مقدمات بنائے گئے ہیں لیکن انہوں نے اس حوالے سے کسی قسم کی تفصیلات فراہم نہیں کی۔رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اپوزیشن نے اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ میں کہا ’وفاقی حکومت 2 کمیشن قائم کرے اور ان کمیشن کی سربراہی یا چیف جسٹس آف پاکستان کریں یا پھر سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز میں کسی کو سربراہی دی جائے. یہ کمیشن انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت بنائے جائیں۔سابق وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ تحریری مطالبات میں 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کی بات کی گئی تو یہ معاملہ تو پہلے سے سپریم کورٹ میں ہے اور اس پر پہلے سے ہی جوڈیشل ریویو ہوچکا ہے تو اس میں دوبارہ چیف جسٹس کس چیز کی انکوائری کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح اسلام آباد ہائیکورٹ کی حدود میں رینجرز کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کی قانونی حیثیت اور ذمہ داران کے خلاف تحقیقات کا کہا گیا، یہ معاملے پر بھی پہلے ہی جوڈیشل ایکشن ہوچکا ہے. اس پر تو اسی وقت ہی اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹس لے لیا تھا۔رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ کمیشن 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے وقت کے حالات کی تحقیقات کرے کہ کن حالات میں گروہوں یا افراد کو اعلیٰ سیکیورٹی مقامات تک رسائی ملی، پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام کیسز انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چل رہے ہیں جب کہ کچھ کے ملٹری کورٹس میں فیصلے ہوچکے ہیں۔مشیر وزیراعظم نے مزید کہا کہ یہ تمام کیسز تو پہلے ہی عدالتوں میں ہیں تو اب ان کا نئے سرے سے کمیشن بنانے کا تو مینڈیٹ بھی نہیں ہے کہ کیسز عدالتوں میں کسی بھی سطح پر چل رہے ہوں تو اس میں کمیشن کیا کرسکتا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ کمیشن یہ بھی دیکھے کہ لوگوں کو کس حالات میں گرفتار کیا گیا.اس پر جتنے بھی کیسز چل رہے ہیں وہاں سب کچھ بتایا گیا ہے کہ کون کہاں سے اور کیسے حراست میں لیا گیا۔رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے مطالبات پروپیگنڈے کے علاوہ کچھ نہیں. پی ٹی آئی نے چارٹر آف ڈیمانڈ جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں ان مطالبات کا تو کوئی جواب نہیں بنتا. پی ٹی آئی نے مطالبات کے ساتھ کسی قسم کی تفصیلات اور ڈیٹا فراہم نہیں کیا. لہذا اس پر 2017 کے ایکٹ کے تحت جوڈیشل کمیشن کا قیام کا جواز نہیں بنتا۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: نے چارٹر آف ڈیمانڈ کا کہنا تھا کہ رانا ثنا اللہ پی ٹی آئی نے اپوزیشن نے مطالبات کا انہوں نے کہا کہ

پڑھیں:

ججز ٹرانسفر سینیارٹی کیس میں رجسٹرار سپریم کورٹ،جوڈیشل کمیشن نے جواب جمع کروا دیئے

ججز ٹرانسفر سینیارٹی کیس میں رجسٹرار سپریم کورٹ،جوڈیشل کمیشن نے جواب جمع کروا دیئے WhatsAppFacebookTwitter 0 19 April, 2025 سب نیوز

اسلام آ باد(سب نیوز)ججز ٹرانسفر سینیارٹی کیس میں رجسٹرار سپریم کورٹ نے جواب جمع کرادیا اور کہا ہے کہ اس معاملے میں چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت شامل تھی۔رجسٹرار سپریم کورٹ کے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 200(1) کے تحت، صدر کسی ہائی کورٹ کے جج کو اس کی رضا مندی، چیف جسٹس پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت کے بعد، کسی دوسرے ہائی کورٹ میں منتقل کر سکتا ہے۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 200(1) کے تحت وضع کردہ طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے، وزارتِ قانون و انصاف نے 01-02-2025 کو ایک خط کے ذریعے معزز چیف جسٹس آف پاکستان سے ججز کے تبادلے کی مشاورت حاصل کی۔یہ مشاورت/اتفاقِ رائے چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے 01-02-2025 کو فراہم کی گئی، اس جواب کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔دوسری طرف سپریم کورٹ آف پاکستان میں جوڈیشل کمیشن نے تحریری جواب جمع کرادیا، جواب اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کی آئینی درخواست پر سماعت کرنے والے بنچ میں جمع کرایا گیا۔

رپورٹ کے مطابق جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے اپنے جواب میں کہا کہ زیرِ بحث آئینی درخواست میں 01 فروری 2025 کو جاری ہونے والے تبادلہ نوٹیفکیشن، 03 فروری 2025 کی سنیارٹی لسٹ، 12 فروری 2025 کو جاری ہونے والے قائم مقام چیف جسٹس کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن، اور 08 فروری 2025 کو دیے گئے نمائندگی فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔جواب کے مطابق جوڈیشل کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جس کا دائرہ کار آئین کے آرٹیکل 175 اے کے تحت مقرر ہے، اور اس کا بنیادی کام سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور وفاقی شرعی عدالت کے ججوں کی تقرری کرنا ہے۔جواب میں کہا گیا کہ موجودہ مقدمے کے حقائق بنیادی طور پر آرٹیکل 200 کے تحت ججوں کے تبادلوں سے متعلق ہیں، جس پر کمیشن کا براہ راست اختیار نہیں، جواب کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔جوڈیشل کمیشن نے تحریری جواب میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں، جب بھی سپریم کورٹ معاونت کے لیے بلائے گی ہر ممکن معاونت دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، ایک بوند بھی پانی چوری کا ارادہ نہیں: رانا ثناء اللّٰہ
  • ن لیگ اور پی پی کا پانی کے مسئلے پر مشاورتی عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق
  • ہم موجودہ حالات میں اپوزیشن اتحاد کے حق میں نہیں، حافظ حمد اللہ
  • چارٹر انسپیکشن کمیٹی کے چیئرمین کے لیے پروفیسر سروش لودھی کا انتخاب 
  • پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے، پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے: رانا ثنا اللہ
  • ‎کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جا سکتا؛ رانا ثناء اللہ
  • ججز ٹرانسفر سینیارٹی کیس میں رجسٹرار سپریم کورٹ،جوڈیشل کمیشن نے جواب جمع کروا دیئے
  • ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس، جوڈیشل کمیشن، رجسٹرار سپریم اور وزارت قانون نے جواب جمع کروا دیا
  • چیف جسٹس نے ججز کے تبادلوں پر رضامندی ظاہر کی تھی: رجسٹرار سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں،جوڈیشل کمیشن کا ججز سنیارٹی کیس میں جواب