چین کے خلاف امریکی تجارتی کریک ڈاؤن چین کی ترقی کو نہیں روک سکتا،چینی وزارت تجارت WhatsAppFacebookTwitter 0 16 January, 2025 سب نیوز


بیجنگ : چینی  وزارت تجارت کے ترجمان نے چین پر امریکی تجارتی پابندیوں کے حالیہ سلسلے پر ایک بیان دیا۔جمعرات کے روز انہوں نے کہا کہ  بائیڈن انتظامیہ  نے اپنے   اقتدار  کے آخری ایام میں  چین پر  شدید تجارتی پابندیاں نافذ کی ہیں ، نام نہاد قومی سلامتی کی بنیاد پر چین پر اپنے سیمی کنڈکٹر ایکسپورٹ کنٹرولز کو بڑھایا ہے ،امریکہ میں  کاروں سے منسلک چینی سافٹ ویئر، ہارڈ ویئر اور  گاڑیوں کے استعمال پر پابندی لگا ئی  ہے، چین سمیت دیگر ممالک میں ڈرون سسٹمز کی انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی اور سروس سیکیورٹی کے جائزے کا آغاز  کیا ہے  ،

متعدد چینی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی  ہیں اور  کئی چینی اداروں کو “بدنام  مارکیٹ ” کے طور پر درج کیا گیا  ہے۔ چین ان تمام اقدامات پر  شدید عدم اطمینان  کا اظہار کرتا ہے اور ان کی  پرزور مخالفت  کرتا ہے ۔ترجمان نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کے یہ اقدامات   چینی کمپنیوں کے جائز حقوق اور مفادات کی سنگین خلاف ورزی ہیں  اور ان اقدامات نے  مارکیٹ کے قوانین اور بین الاقوامی اقتصادی و تجارتی آرڈر کو  پامال کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے  عالمی صنعتی سلسلہ اور سپلائی چین کے استحکام کو شدید خطرات لاحق ہیں اور  ان اقدامات نے  امریکی کمپنیوں سمیت دنیا بھر کے ممالک کی کمپنیوں کے مفادات کو  نقصان پہنچایا ہے۔

چینی وزارت تجارت کے ترجمان نے کہا کہ بہت سی اہم امریکی کمپنیوں اور صنعتی انجمنوں نے واضح طور پر بعض اقدامات کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کیا ہے اور بعض ممالک  نے  بھی ان کے غیر منطقی ہونے اور ان سے اپنے اختلاف کا واضح اظہار کیاہے ۔ان کا کہنا تھا کہ  اس طرح کا  طرز عمل معاشی جبر اور غنڈہ گردی ہے   جو نہ تو عقلی  ہے  اور نہ ہی ذمہ دار انہ ۔ اس سے نہ صرف چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات  بلکہ عالمی معیشت کی مستحکم ترقی کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔ترجمان نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کہتی  کچھ ہے لیکن کرتی کچھ اور ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پابندیاں، رکاوٹیں  اور دباؤ  چین کی ترقی کو  روکیں گے نہیں  بلکہ چین کی  خود انحصاری  اور مضبوطی ،سائنس اور ٹیکنالوجی میں  اس کے اختراع کے اعتماد اور صلاحیت کو  مزید تقویت دیں گے ۔ترجمان نے کہا کہ چین اپنے  اقتدار اعلی، سلامتی اور ترقی کے مفادات کے مضبوط تحفظ کے لیے اقدامات  جاری رکھے گا ۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: ترجمان نے کہا کہ ترقی کو چین کی

پڑھیں:

ٹیکس چوری میں ملوث ڈاکٹرز اور نجی طبی اداروں کے خلاف ایف بی آر کا سخت کریک ڈاؤن

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس چوری میں مبینہ طور پر ملوث نجی پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز، میڈیکل کلینکس اور نجی اسپتالوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ حالیہ ڈیٹا اینالسز کے دوران سامنے آنے والے چونکا دینے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر کیا گیا ہے، جن سے ملک میں ڈاکٹروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر ٹیکس عدم تعمیل کا انکشاف ہوا ہے۔
ایف بی آر کے مطابق ملک بھر میں مجموعی طور پر 1 لاکھ 30 ہزار 243 ڈاکٹرز رجسٹرڈ ہیں، تاہم رواں سال صرف 56 ہزار 287 ڈاکٹرز نے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروائے، جبکہ 73 ہزار سے زائد ڈاکٹرز قابلِ ٹیکس آمدنی رکھنے کے باوجود گوشوارے جمع کرانے میں ناکام رہے۔
اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ شعبہ، جو ملک کے سب سے زیادہ آمدنی والے پیشوں میں شمار ہوتا ہے، اپنی اصل آمدنی اور ظاہر کردہ آمدنی کے درمیان واضح تضاد رکھتا ہے۔ ڈیٹا کے مطابق 2025 میں 31 ہزار 870 ڈاکٹرز نے نجی پریکٹس سے صفر آمدنی ظاہر کی جبکہ 307 ڈاکٹرز نے نقصان ظاہر کیا، حالانکہ بڑے شہروں میں ان کے کلینکس روزانہ مریضوں سے بھرے رہتے ہیں۔
صرف 24 ہزار 137 ڈاکٹرز ایسے ہیں جنہوں نے کسی حد تک کاروباری آمدنی ظاہر کی، لیکن ان کی جانب سے ادا کیا گیا ٹیکس بھی ممکنہ آمدنی کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ مثال کے طور پر:
17 ہزار 442 ڈاکٹرز جن کی سالانہ آمدنی 10 لاکھ روپے سے زائد تھی، انہوں نے یومیہ اوسطاً صرف 1,894 روپے ٹیکس ادا کیا۔
10 ہزار 922 ڈاکٹرز جن کی آمدنی 10 سے 50 لاکھ روپے سالانہ کے درمیان تھی، ان کا یومیہ ٹیکس محض 1,094 روپے رہا۔
3 ہزار 312 ڈاکٹرز جن کی آمدنی 50 لاکھ سے ایک کروڑ روپے تھی، انہوں نے یومیہ صرف 1,594 روپے ٹیکس دیا۔
سب سے زیادہ آمدنی والے 3,327 ڈاکٹرز جن کی سالانہ آمدنی ایک کروڑ روپے سے زائد تھی، انہوں نے یومیہ اوسطاً صرف 5,500 روپے ٹیکس ادا کیا۔
حیران کن طور پر 38 ہزار 761 ڈاکٹرز نے 10 لاکھ روپے سے کم آمدنی ظاہر کی، جن کا یومیہ ٹیکس صرف 791 روپے رہا، جبکہ ایسے بہت سے ڈاکٹرز فی مریض 2 ہزار سے 10 ہزار روپے تک فیس وصول کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ 31 ہزار 524 ڈاکٹرز نے صفر آمدنی ظاہر کرنے کے باوجود مجموعی طور پر 1.3 ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈز کے دعوے بھی دائر کر رکھے ہیں، جو اس صورتحال کو مزید تشویشناک بنا دیتا ہے۔
یہ تمام اعداد و شمار زمینی حقائق سے شدید متصادم ہیں، کیونکہ ملک بھر میں نجی کلینکس ہر شام مریضوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ اگر موازنہ کیا جائے تو گریڈ 17 اور 18 کے سرکاری افسران ماہانہ اس سے کہیں زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں جتنا کئی ڈاکٹر پورے سہ ماہی میں بھی ادا نہیں کرتے، حالانکہ سرکاری ملازمین کے پاس آمدنی چھپانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
یہ صورتحال ایک بنیادی سوال کو جنم دیتی ہے:کیا ایک ملک صرف اُن طبقات کے ٹیکس پر چل سکتا ہے جن کی آمدنی چھپ نہیں سکتی، جبکہ زیادہ آمدنی والے شعبے یا تو آمدنی کم ظاہر کریں یا بالکل ظاہر ہی نہ کریں؟
زیادہ آمدنی رکھنے والے طبقات کی جانب سے کم یا صفر آمدنی ظاہر کرنا نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ ٹیکس نظام میں انصاف کے اصولوں کے بھی منافی ہے۔ بڑھتا ہوا یہ کمپلائنس گیپ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ ٹیکس نظام میں شفافیت اور انصاف کی بحالی کے لیے مؤثر اور بلا امتیاز انفورسمنٹ ناگزیر ہو چکی ہے۔
اب زیادہ آمدنی والے پیشوں میں ٹیکس کمپلائنس کوئی اختیاری معاملہ نہیں رہا، بلکہ یہ قومی معیشت کے استحکام اور ریاستی بقا کے لیے ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چینی سائنسدانوں کی بڑی پیش رفت، چکن جیسا سستا متبادل گوشت تیار
  • ٹیکس چوری میں ملوث ڈاکٹرز اور نجی طبی اداروں کے خلاف ایف بی آر کا سخت کریک ڈاؤن
  • پاکستان کااپنی چائے کی کاشت اور اس کی تجارت کرنے کا فیصلہ
  • اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے گوادر فری زونز کو فارن ایکسچینج پالیسی فریم ورک سے مستثنیٰ قرار دے دیا
  • ٹرمپ کا بڑا اعلان: وینزویلا کے خلاف فوجی کارروائی کا خطرہ بڑھ گیا
  • ناروے کے سفیر وزارتِ خارجہ میں طلب، ڈیمارش سے متعلق سوالات
  • فیض حمید طاقت کے نشے میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے رہے، بلاول بھٹو
  • پاک افغان تجارتی کشیدگی، اصل مسئلہ سرحد نہیں، دہشتگردی ہے
  • نیپرا کے ٹیرف تعین کرنے کیخلاف اپیلیں، آئینی عدالت نے بجلی کمپنیوں سے جواب مانگ لیا
  • نیپرا کے ٹیرف تعین کے خلاف بجلی کمپنیوں سے جواب طلب