Daily Ausaf:
2025-04-22@07:35:32 GMT

وطن ثانی، ایک ادب پارہ، ایک پْل

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

کتابیں معاشروں کے تہذیبی ورثے کا آئینہ اور علم کا مستقل خزانہ ہوتی ہیں۔ کسی قوم کی ترقی کا راز اس کی کتاب دوستی میں چھپا ہوتا ہے۔ ایک امریکی مفکر کا کہنا ہے کہ جو لوگ کتابیں نہیں پڑھتے اور جو نہیں پڑھ سکتے، ان میں کوئی فرق نہیں۔ تمام انسان اولاد آدم ہونے کی وجہ سے سب برابر ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں لیکن اس کے باوجود قرآن حکیم نے جاننے والوں اور نہ جاننے والوں کو برابر قرار نہیں دیا۔ گویا فرق اور برتری کی بنیاد علم ہے۔ اگرچہ یہ کہا کہ جاتا ہے کہ یہ صدی شائد کتابیں کی آخری صدی ہے لیکن علم کے فروغ کے لئے کتاب ہمیشہ رہے گی چاہے اس کی صورت کوئی اور ہو۔کتاب اب اوراق سے ترقی کرتی ہوئی ای بک اور آڈیو بک کی صورت بھی اختیار کرچکی ہے۔ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام اپنے اہل علم ، دانشوروں اور مصنفین کی عزت افرائی کرتیں ہیں۔ سویڈن میں تمام کرنسی نوٹوں پر ملک کے ادیبوں اور مصنفین کی تصاویر دی گئی ہیں۔ اس سے علم دوستی اور کتاب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ترقی یافتہ اقوام کتاب کے فروغ کے لئے کوشاں رہتی ہیں اور تعلیمی اداروں میں طلبہ میں غیر نصابی کتابوں کے مطالعہ کے لئے فروغ دیا جاتا ہے۔ پبلک لائبریریوں کے ساتھ متحرک لائبریریاں جو بسوں اور کشتیوں کی صورت میںہوتی ہیں، وہ بھی عام ہیں۔ مغربی ممالک میں کتابیں خریدینا اور دوسروں کو تحفے کی صورت میں دینا عام ہے۔ یہی علم دوستی ہے جس نے اقوام مغرب کو ترقی کی معراج پر پہنچا دیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ کتاب دوستی رکھنے والا ہی حقیقی وطن دوست ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں نیشنل بک فاؤنڈیشن جو ایک قومی ادارہ ہے جو معیاری کتب طبع کرکے بہت کم داموں پر ملک بھر میں مہیا کرتا ہے۔ اس ادارہ کے ایم ڈی مراد علی مہمند کی سربراہی میں بہت متحرک ہے اور ملک کے طول و عرض میں کتاب میلوں کے ذریعے کتاب بینی کے فروغ کے لئے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی جانب سے ادیبوں اور مصنفین کی کتابوں کی تقریب رونمائی اور پذیرائی منعقد کرنا بہت مستحسن کوشش ہے۔ اس سے نہ صرف کتابیں متعارف ہوتی ہیں اور کتاب بینی کا حلقہ وسیع ہوتا ہے بلکہ کتاب لکھنے والوں کی بھی عزت افزائی ہوتی ہے۔ اسی سلسلہ میں نیشنل بک فاؤنڈیشن نے احمد فراز آڈیٹوریم میں راقم (عارف کسانہ) کی کتاب ’’وطنِ ثانی‘‘ کی تقریب پذیرائی منعقد کی۔ کسی مصنف کی عدم موجودگی میں کتاب کی تقریب پذیرائی کا انعقاد بھی منفرد واقعہ ہے۔ اس تقریب کا انعقاد اور اس میں حاضرین کی بڑی تعداد کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ علم دوست لوگ آج بھی کتابوں سے جڑے ہیں اور ان کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کا عزم رکھتے ہیں۔ تقریب میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نامور شخصیات نے شرکت کی، جن میں دانشور، سفارت کار، ادیب ،علمی شخصیات اور طلبہ شامل تھے۔
وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف جاہ، سویڈن اور فن لینڈ میں پاکستان کے سفیر بلال حئی، سپین میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر ظہور احمد اور قومی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان، مینجر اور کوچ اصلاح الدین صدیقی نے خصوصی پیغامات ارسال کئے۔ مقررین جن میں سابق سفیر افراسیاب مہدی ہاشمی قریشی، وفاقی ٹیکس محتسب کے سابق مشیر محمد صدیق، سابق کیبنٹ سیکرٹری سید ابو احمد عاکف، بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد سلیم، نیشنل بک فاؤنڈیشن پاکستان کے ایم ڈی مراد علی مہمند اور نازیہ رحمٰن شامل تھے، ان کا کہنا تھا کہ ’’وطن ثانی‘‘ دو معاشروں کے درمیان میں رابطے اور باہمی تعاون کی بہترین کوشش ہے۔ یہ ، پاکستان اور سویڈن کے درمیان ایک پْل کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کتاب کے مصنف تین دہائیوں سے سویڈن میں مقیم ہیں اور یہ ان کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہے، جس میں سویڈن کے سماجی، ثقافتی، تعلیمی اور اقتصادی نظام کو نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ ۔ یہ تصنیف نہ صرف سویڈن کو اردو قارئین سے روشناس کراتی ہے بلکہ ان کے لیے ایک رہنما کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ وطنِ ثانی ان موضوعات پر مبنی ہے جو عام طور پر اردو قارئین کی پہنچ سے دور رہتے ہیں۔ کتاب میں سویڈن کی سماجی بہبود، نظام حکومت، سیاسی اور تعلیمی نظام، بنیادی حقوق اور قوانین، ایجادات اور سائنسی تحقیقات، رسم و رواج اور اہم ایام، کامیاب سویڈش شخصیات، پاک سویڈش تعلقات اور نوبل انعام جیسے منفرد موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مختصر یہ کہ اردو میں یہ سویڈن کے بارے میں گائیڈ بک کی حیثیت رکھتی ہے۔
بنگلہ دیش میں پاکستان کے سابق سفیر افراسیاب مہدی ہاشمی قریشی جو خود بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں،نے غور طلب حقیقت بیان کی کہ جب بھی کوئی فاتح قوم کسی ملک پر قبضہ کرتی ہے تو اس کے علمی ورثہ کو تباہ کرتی ہے۔ یہی کام سابقہ مشرقی پاکستان میں 17دسمبر 1971ء کو ہوا۔ سقوط ڈھاکہ کے اگلے روز تمام لائیبریوں کا جلا دیا گیا تاکہ ماضی کی تاریخ کو مٹا دیا جائے۔ سابق کیبنٹ سیکرٹری سید ابو احمد عاکف نے کتاب دوستی کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا۔ان کا کہنا تھا کہ اپنے مشاہدات اور تاثرات کو کتاب کی صورت لکھنا آسان کام نہیں بلکہ یہ ایک صدقہ جاریہ ہے، جو مصنف کو زمانوں تک زندہ رکھتا ہے۔ وطن ثانی نہایت محنت اور لگن سے سویڈن جیسے ترقی یافتہ ملک کی کامیابیوں کو اردو زبان میں منتقل کرنے کی کوشش ہے اور ایسی تصنیف پاکستان اور سویڈن کے درمیان ایک مثبت رابطے کا ذریعہ ہے۔ یہ کتاب ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی اپنے علم و عمل کے ذریعے کیسے اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ ’’وطن ثانی‘‘ بلاشبہ ایک ایسا ادب پارہ ہے جو پاکستان اور سویڈن کے درمیان فکری اور تہذیبی رابطے کا ایک مضبوط ذریعہ بنے گا۔ یہ کتاب پڑھنے والوں کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ علم اور کتاب کی طاقت ہی وہ بنیاد ہے جس پر کامیاب معاشرے کھڑے کیے جا سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان کے کے درمیان ہیں اور کی صورت کتاب کی کرتی ہے کے لئے

پڑھیں:

بلوچستان کی ترقی اور کالعدم تنظیم کے آلہ کار

گوادر پورٹ پاکستان کے لیے تجارتی ترقی کا دروازہ ہے۔ خلیج فارس کے دہانے پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ بندرگاہ پاکستان کو نہ صرف خطے بلکہ بین الاقوامی سطح پر تجارتی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

اس بندرگاہ کے ذریعے چین، وسطی ایشیا اور خلیجی ممالک تک بآسانی رسائی میسر آئے گی، جس سے پاکستان کو سالانہ لاکھوں ڈالرکا تجارتی فائدہ پہنچے گا۔ گوادر بندرگاہ نہ صرف پاکستان کو اقتصادی استحکام دے رہی ہے بلکہ یہ بلوچستان کی معاشی خوشحالی میں بنیادی کردار ادا کررہی ہے۔

 ویژن بلوچستان 2030 پروگرام کے تحت کمیونی کیشن انفرا اسٹرکچر، ڈیموں کی تعمیر، پانی کی قلت کو دورکرنے اور فشریزکے مختلف منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے۔ خوشحال بلوچستان کی تعمیر و ترقی میں حکومتی اور عسکری کاوشوں کا کلیدی کردار ہے۔

اس طرح کے بے شمار منصوبے بلوچستان کی تقدیر بدلنے کے لیے سرگرم ہیں، جس میں ریکوڈک کا منصوبہ بھی سرفہرست ہے، اس منصوبے کے زیر اہتمام طبی سہولیات سے آراستہ انڈس اسپتال نوکنڈی کا افتتاح گزشتہ برس 25جون 2024 کو کیا جاچکا ہے۔ 

یہ اسپتال ضلع چاغی اور نوکنڈی جیسے پسماندہ علاقوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے، اس کے علاوہ ریکوڈک مائننگ کے تحت نوکنڈی میں قائم ہنر ٹیکنیکل انسٹیوٹ، جس میں 350 کے قریب خواتین و مرد حضرات ہنر سیکھ رہے ہیں جب کہ اس منصوبے کے تحت پانچ پرائمری اسکول، ہمائی کلی، مشکی چاہ، موکچہ، دربن چاہ اور تنگ کھچاؤ کے علاقوں میں قائم کیے جاچکے ہیں جن میں اس وقت 357 طلبا وطالبات زیر تعلیم ہیں۔

اس کے علاوہ چین اور پاکستان کا مشترکہ منصوبہ سینڈک کاپر،گولڈ مائن پراجیکٹ کے تحت سینڈک اسپتال، اسکولوں کا قیام بلوچستان کے روشن مستقبل کا اہم باب ہیں۔ سی پیک، سینڈک اور ریکوڈک منصوبوں کی وجہ سے ہزاروں افراد کو روزگار ملا ہے۔ نوجوانوں کو ترجیحی بنیادوں پر تعلیمی مواقعے فراہم کیے جا رہے ہیں، متعدد یونیوسٹیوں اور میڈیکل کالجزکا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔

 بلوچستان کی ترقی سے کالعدم تنظیمیں خائف ہیں، یہ تنظیمیں نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے خطرے کا سبب بنی ہوئی ہیں، جن سے نجات کے لیے سیکیورٹی فورسز مسلسل متحرک ہیں۔گزشتہ ماہ جعفر ایکسپریس پرکالعدم تنظیم کے حملے کے واقعے نے پوری قوم کو خوف میں مبتلا کر کے رکھا، دہشت گردوں نے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنایا اور 20 سے زائد مسافروں کی جان لی۔ 

بعد ازاں پاک فوج کے آپریشن نے عسکریت پسندوں کا سارا زور پسپا کیا اور 33 دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا، بعد ازاں مسافروں کو بازیاب کرایا، خیال رہے، اس ٹرین میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد زیادہ تھی، بلوچستان میں پنجابی بولنے والوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کی ذمے داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی بہت فخر سے لیتی ہے۔

بلوچ قوم کی داد رسی کی باتیں بلوچستان کی بہت سی قوم پرست تنظیمیں کرتی ہیں، جس میں ایک نام بلوچ یکجہتی کونسل کا ہے، اس تنظیم کو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ لیڈ کرتی ہیں، جو کہ غفار لانگو کی بیٹی ہیں، غفار لانگو واپڈا کا ملازم تھا،جس نے بی ایل اے جوائن کر لی تھی، جس کی وجہ سے وہ ایک آپریشن میں مارا گیا تھا۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی مکمل تعلیم حکومتی وظیفے پر ہوئی، وہ سرکاری ملازم ہیں، ان کی بہن بھی سرکاری وظیفے پر صوبہ پنجاب میں زیر تعلیم ہیں، پھر بھی یہ لوگ ریاست کے مخالف ہیں، جس سے ان کی منافقت واضح ہوتی ہے۔ 

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ آج کل جیل میں ہیں کیونکہ انھوں نے جعفر ایکسپریس حملے میں مارے گئے دہشت گردوں کی لاشوں کو مردہ خانے سے زبردستی اپنی تحویل میں لیا، جس پر مذمت کی گئی اور کوئٹہ کے حالات خراب ہوئے، جس کے سبب ماہ رنگ کی گرفتاری عمل میں آئی، یہاں سوال ہے کہ آخر ماہ رنگ کو کیوں ان دہشت گردوں کی لاشوں کی اس قدر ضرورت تھی کہ وہ اسے لینے کے لیے اتنی بے تاب تھیں۔

بلوچستان کے بدترین حالات میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل کا بھی بڑا اہم کردار ہے،گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کی سیاست میں سرگرم سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اختر مینگل فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں خضدار سے رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے تاہم انھوں نے ستمبر 2024 میں قومی اسمبلی کی اپنی اس نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ اپنی سیاسی جماعت بی این پی مینگل کے واحد منتخب رُکن قومی اسمبلی تھے۔

اختر مینگل ایم پی اے، ایم این اے اور وزیر اعلیٰ بلوچستان رہ چکے ہیں، وہ کوئلے کی کانوں کے مالک ہیں، ہمیشہ اقتدار سے وابستہ رہے ہیں، ان کی بے شمار جائیدادیں ہیں، وہ اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے بلوچ قوم کے نام پر دھرنے دے رہے ہیں، آج سے قبل جب وہ خوب اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے جائیدادیں بنا رہے تھے تو انھیں ایک بار بھی بلوچستان کی تقدیر اور بلوچ قوم کی قسمت کے بارے میں ایک بار بھی خیال نہیں آیا، کچھ لوگ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے آلہ کار معلوم ہوتے ہیں۔

پاکستانی کالعدم جماعت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، بی ایل اے کے نسلی تشدد کے خلاف صوبہ سندھ میں مختلف مقامات پر احتجاج ہوا۔ عوام کا دعویٰ ہے کہ بی ایل اے ہندوستان کی ہدایت پرکام کررہی ہے،کالعدم تنظیم نسلی بنیادوں پر بے گناہ پاکستانیوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور قتل کر رہی ہے۔ عوام نے دہشت گردوں کو پھانسی سمیت سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

 پاکستان کے دیگر صوبوں کے لوگ بلوچ طلبا اور شہریوں کا پرتپاک استقبال کرتے ہیں، جب کہ پنجابیوں اور پشتونوں کو قتل کر کے نفرت پھیلانے پر بی ایل اے کی مذمت کرتے ہیں۔ کالعدم تنظیم کے خلاف احتجاج میں عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے بلوچ بھائیوں کی حمایت کا بھی اظہارکیا اور پاکستان کی مسلح افواج کے حق میں نعرے لگائے۔

پاکستان کے باشعور عوام کا کہنا ہے کہ بی ایل اے کا احتجاجی مارچ ایک ڈھونگ ہے، جو ان کے اصل مقصد کو چھپا رہا ہے، دراصل یہ عناصر بلوچستان کی ترقی کو سبوتاژکرنا چاہتے ہیں تاکہ بلوچ قوم بنیادی سہولیات سے محروم رہے۔

 ریاست مخالف عناصر نے پاکستان کے استحکام کو کافی بار متزلزل کرنے کی کوشش کی اور اللہ کے کرم سے ہر بار ناکام رہے، سیکیورٹی فورسز نے فیصلہ کن کارروائی سے ان کے ناپاک منصوبوں کوکچلا، بات واضح ہے کہ ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والوں کو قانون کی پوری طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے کسی کو استثنا نہیں ملے گا۔

متعلقہ مضامین

  • سورج کا پارہ ہائی، بیشتر علاقوں میں موسم گرم اور خشک رہنے کا امکان
  • کراچی کا پارہ چڑھ گیا 
  • علامہ اقبال اور پاکستان پوسٹ
  • کتاب ہدایت
  • کراچی آج ہیٹ ویو کی لپیٹ میں، پارہ 41 پر جانے کا امکان
  • کراچی میں ہیٹ ویو کا الرٹ، صبح سے شدید گرمی، پارہ کتنا رہے گا؟
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائمقام چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا
  • بلوچستان کی ترقی اور کالعدم تنظیم کے آلہ کار
  • تبسم تنویر کی انسانیت کے لیے خدمات قابل تحسین،مقررین ،sosویلیج میں تقریب، سوانح عمری کی رونمائی