تھل ايكسپریس کا جادوئی سفر
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
آج کے جدید دور میں آپ راولپنڈی اسلام آباد سے ملتان بذریعہ موٹروے سات گھنٹوں میں پہنچ سکتے ہیں جبکہ تھل ایکسپریس جو کہ راولپنڈی سے صبح سات بج کر بیس منٹ پر چل کر سولہ گھنٹے میں ملتان تک اپنا سفر مکمل کرتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ بعض دفعہ یہ اور بھی تاخیر کا شکار ہوجائے۔
یہ بتانے کا مقصد ان سیاحوں کو دعوت دینا ہے جن کو ریل کے سفر سے عشق ہے، جن کے چہروں کو ریل کی مٹی اور دھول کچھ نہیں کہہ سکتی، جنہیں ریل کے انجن سے نکلنے والا کالا دھواں پسند ہے، جنہیں کوئی پریشانی نہیں کہ یہ ٹرین کب اپنی منزل پر پہنچے گی۔ جنہیں ہر اسٹیشن پر اتر کر ٹرین کی سیٹی سننا اور پھر ٹرین میں سوار ہونا پسند ہے، جنہیں ریل کی رفتار سے کوئی غرض نہیں کہ یہ آہستہ کیوں چل رہی ہے، کیونکہ ان کو پسند ہے ريل کا سفر اور گزرتے مناظر۔ جن كو پسند ہے پہاڑوں، سرنگوں، دریاؤں سے گزرنا۔ یہ سفر ایڈونچر پسند لوگوں کےلیے ہے نہ کہ آرام پسند افراد کےلیے۔
پوٹھوہار، ہزارہ، سرائیکی، پنجابی ریجن سے گزرتی ريل طرح طرح کی ثقافت کا پتہ بتاتی ہے۔ ہم شہری لوگ جو سمجھتے تھے کہ ٹوپی والا برقعہ متروک ہوچکا ہے لیکن وہاں سے گزر کر پتا چلا کہ ابھی بھی ٹوپی والا برقعہ پہنا جارہا ہے۔ ابھی بھی لوگ بغیر بجلی، گیس کے زندگی گزار رہے ہیں۔ ابھی بھی کچھ علاقوں میں پکی سڑک نہیں، ابھی بھی ريلو ے ٹریک کے ساتھ انگر یزوں کی بنائی ہوئی چوکیاں موجود ہیں۔ ابھی بھی ريل میں ایک صدی پرانا نظام ہے۔
لوکل ٹرین میں لوگوں سے ہم آہنگی جلد ہوجاتی ہے۔ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں، ملکی حالات کا پتہ چلتا ہے، زندگی کی مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے۔ تھل ايكسپریس پر سفر کرنے کےلیے ہم تین دوستوں نے ساہیوال سے اسلام آباد پہنچ کر رات کا قیام کیا۔ ہماری لوکیشن سے گولڑہ شریف ریلوے اسٹیشن نزدیک تھا اور تھل ايكسپریس کا ٹائم 7:38 کا تھا، اس لیے راولپنڈی کے بجائے گولڑہ شریف اسٹیشن کےلیے ان ڈرائیو سے گاڑی بک کی جو کہ دو منٹ میں گیٹ کے باہر تھی۔ سات بجے ہم گولڑہ شریف ریلوے اسٹیشن پر پہنچ چکے تھے۔ اس ریلوے اسٹین کا شمار بھی پاکستان کے خوبصورت ترین ریلوے اسٹیشنوں میں ہوتا ہے اور اس ریلوے اسٹیشن کو میوزیم کی شکل بھی دی گئی ہے۔ صبح سویرے میوزیم بند تھا اس لیے اطراف میں موجود ریلوے کے اسٹيم انجن اور بوگیوں کو دیکھ کر وقت گزارنے لگے۔
گولڑہ شریف ریلوے اسٹیشن پر طلوع افتاب اور سیکڑوں سال پرانے برگد کے درختوں پر پرندوں کی چہچہاٹ ایک سحر انگیز منظر تھا۔ راولپنڈی ريلوے اسٹیشن سے ہمارے ایک اور دوست نے بھی ہمیں جوائن کرنا تھا جو کہ تھل ایکسپریس پر سوار ہوچکا تھا۔
فوٹو گرافی کے دوران اسٹیشن ماسڑ کا بندہ بار بار ہمیں اندر بلانے کا پیغام دے رہا تھا۔ آخر ہم نے اس کی بات سننے کےلیے اسٹیشن ماسٹر کے آفس کا رخ کیا تو وہی پرانی باتیں سننے کو ملیں کہ سیاحوں کےلیے بھی كيمرے سے فوٹو گرافی بغیر اجازت نامہ منع ہے۔ نجانے ان لوگوں کی سوچ کب بدلے گی کہ موبائل سے بنا سکتے ہیں كيمرے سے نہیں۔ اتنی دیر میں ہماری ريل پليٹ فارم پر پہنچ چکی تھی اور اس کی آخری بوگی میں موجود دوست کی نگاہیں ہمیں تلاش کر رہی تھیں۔ ريل رکتے ہی ہم آخری بوگی کی طرف لپکے اور اپنے ہم سفر سے بغل گیر ہوئے۔ فیس بک فرینڈ سے یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔
جیسے ہی ريل نے چلنا شروع کیا تو ہم نے اپنی آخری بوگی کا پچھلا دروازہ کھول دیا اس دروازے سے خوبصورت منظر اور ريل کی پٹری دیکھ کر ہم سب کے چہرے کھل اٹھے۔ اس منظر کو دیکھ کر ہم آخری بوگی کے لگنے والے جھٹکے بھی بھول گئے۔
اب ریل کے سفر سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ خوش گپیوں کا نہ ركنے والا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ چھوٹے چھوٹے ریلوے اسٹیشنوں پر اسٹاپ کرتی ہوئی تھل ایکسپریس اٹک ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو وہاں پر ہمارے بہت ہی پیارے سیاح دوست عارف بھائی ہمیں ملنے کےلیے موجود تھے۔ اٹک کے پہاڑی سلسلوں اور ريل کی سرنگوں کو پروموٹ کرنے میں عارف بھائی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ انھوں نے ہمیں چائے اور مونگ پھلی پیش کی۔ جیسے ہی ریل نے سیٹی بجائی عارف بھائی سے مل کر ہم ريل میں دوبارہ سوار ہوگئے۔ اب ہماری بوگی میں ایک بزرگ بھی اپنے بکرے کے ساتھ سوار ہوچکے تھے۔
جیسے ہی ريل اٹک سے نکلی تو ہم نے بوگی کے پچھلے دروازہ کا رخ کیا کیونکہ اب اس سفر کا سب سے خوبصورت منظر شروع ہونے جارہا تھا۔ ريل اب ندی نالوں سے گزرتی کالا چٹا کے پہاڑی سلسلوں میں داخل ہوچکی تھی۔ انجن سے نكلتا کالا دھواں اور پٹری کے اردگرد بلند ہوتے پہاڑوں کے مناظر میں ہم کھو چکے تھے۔ ریل پہلی سرنگ میں داخل ہوچکی تھی۔ کالا چِٹا پہاڑوں کی سرنگ سے گزرتی ہوئی ریلوے کی آخری بوگی میں بیٹھنا ایک جادوئی تجربہ ہے۔ جیسے ہی ٹرین سرنگ کے تاریک دل میں داخل ہوتی پیچھے رہ جانے والی روشنی آہستہ آہستہ ماند پڑتی جاتی اور ہر جانب ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ سرنگ کے اندر کی گھنی تاریکی، ٹرین کے پہیوں کی گونج اور دھندلے روشنی کے جھماکے ایک منفرد احساس پیدا کر رہے تھے۔
جیسے ہی ٹرین سرنگ سے باہر نکلتی ہے، منظر اچانک بدل جاتا ہے۔ پیچھے رہ جانے والی سرنگ کی محرابی ساخت اور اس کے اردگرد کے پہاڑ، دھوپ میں نہاتے ہوئے شاندار تصویر پیش کرتے ہیں۔ آخری بوگی سے نظر آتا ہوا پیچھے کا منظر، لمبی پٹریوں کا سانپ کی مانند بل کھاتا ہوا راستہ، اور دور افق تک پھیلا ہوا سبزہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی مصور نے اپنے تخیل کے کینوس پر رنگ بکھیر دیے ہوں۔
آخری بوگی سے دیکھے جانے والے مناظر میں ایک الگ سی خاموشی اور سکون چھپا ہوتا ہے۔ کالا چِٹا پہاڑوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے یہ منظر ایک یادگار تجربہ تھا۔ کالا چٹا پہاڑی کی آخری سرنگ ختم ہوتے ہی ريل کی رفتار کم ہونا شرو ع ہوگئی اور ريل ان سرنگوں کے دہانے کے قریب خوبصورت ريلوے اسٹیشن جھلار کے سامنے رک گئی۔ ہم نے بھی جلدی جلدی اتر کر چند تصاویر بنائیں تو ساتھ ہی ريل نے چلنے کےلیے سیٹی بجادی۔ اس ريلوے اسٹیشن پر ريل کے رک کر چلنے کی وجہ مسلسل بل کھاتی پٹریوں سے آہستہ سے گزرنا تھا۔
پہاڑی راستوں اور بل کھاتی ریلوے لائن کی وجہ سے ریل کی رفتار 40 سے 50 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ ہم کبھی ریل کی کھڑکی سے اردگرد کے مناظر دیکھ کر لطف اندوز ہوتے تو کبھی ٹرین کے دروازے کا رخ کرتے اور جیسے ہی ریل کسی اسٹیشن پر رکتی تو اس اسٹیشن پر اتر کر اس کی تختی کے ساتھ فوٹو بنواتے۔
اس ٹریک پر موجود ریلوے اسٹیشنوں کی حالت کافی ابتر تھی۔ دوپہر کو ایک بجے تھل ایکسپرس داؤد خیل ریلوے اسٹیشن پر پہنچ چکی تھی۔ اب پہاڑی سلسلہ ختم ہوچکا تھا اور پنجاب کا میدانی علاقہ شروع تھا۔ راستے میں ہم نے جنڈ اسٹیشن کے مشہور پکوڑوں اور روٹی کے ساتھ بھوک مٹائی اور کندیاں ریلوے اسٹیشن سے چائے پی۔
شام ہونے کو تھی اور ریل تھل کے علاقے میں داخل ہوچکی تھی۔ ریل کی پٹری کے اردگرد ریتیلی زمین اور غروب ہوتا سورج خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے۔ جیسے ہی ریل بھکر ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو شام کا اندھیرا اتر آیا۔ اب ہمارا یہ سفر رات کی تاریکی میں ملتان ریلوے اسٹیشن تک جاری رہا۔ ہم دوست اس سفر کے ہر لمحہ اور ہر ریلوے اسٹیشن سے بہت لطف اندوز ہوئے۔ تھل ایکسپریس کا یہ سفر واقعی ایک جادوئی اور سحر انگیز سفر تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ابھی بھی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے ہی دیکھ کر پسند ہے کا تھا ہی ریل اور اس ریل کی
پڑھیں:
چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس، پاکستان ریلوے کے آڈٹ اعتراضات کے جائزہ لیا گیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 اپریل2025ء) پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس منگل کو پی اے سی کے چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا ۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلی افسران نے شرکت کی ۔ اجلاس میں پاکستان ریلوے کے آڈٹ اعتراضات کے جائزہ کے دوران سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ ریلوے کی پنشن کا بجٹ ابھی بھی کافی نہیں ہے، لوگوں کو دو سال سے پنشن کے فوائد نہیں ملے۔ ابھی 64 ارب کی رقم مختص کی گئی ہے، 13 ارب سے زائد کی لائبلٹی پڑی ہے۔ریلوے کا آپریٹنگ منافع ایک ارب کے قریب ہے۔ایم ایل ون سٹرٹیجک پراجیکٹ ہے۔ایم ایل فور کے تحت گوادر کو مین لائن سے جوڑنا ہے۔تھر کو ریلوے سسٹم سے جوڑ رہے ہیں۔ ایم ایل ون کا کراچی سے ملتان تک فیز ون رکھا ہے۔(جاری ہے)
ایم ایل ون کا ملتان سے پشاور فیز ٹو ہے۔ایم ایل ون اب تک بن جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب تک ایم ایل ون کے ثمرات بھی آنے چاہئیں تھے۔ایم ایل ون کے اب تک نہ بننے کی کئی وجوہات ہیں۔ ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ یا مسئلہ نہیں ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے اب سی پیک میں شامل ہے ۔ایم ایل ون پر ایک سو ساٹھ کلو میٹر فی گھنٹہ سے ریل گاڑی جاسکے گی۔لاہور سے اسلام آباد تک کا سفر اڑھائی گھنٹے کا ہو جائے گا ۔پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بتایا گیا کہ تین ارب سے زائد کا مٹیریل خریدنے میں پیپرا رولز کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس پر سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ یہ 100 لوکو موٹو کی مرمت کا پراجیکٹ تھا ۔ پی اے سی نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ابھی تک یہ معاملہ حل کیوں نہیں کیا ۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ ریلوے اور پیپرا کے درمیان تعاون نہ ہونے کی وجہ سے مسئلہ حل نہیں ہوا۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ہمارا ٹائم ضائع ہورہا ہے یہ کس کی ذمہ داری ہے ۔سیکرٹری ریلوے نے پی اے سی کو کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرادی۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کو آڈٹ حکام نے بتایا کہ 506 ملین کا ایچ ایس ڈی آئل استعمال کرنے سے متعلق غلط بیانی کی گئی ہے۔ سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ میں نے اس ہفتے انکوائری کی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے ۔دس دنوں میں رپورٹ پی اے سی کو فراہم کردیں گے۔ رکن کمیٹی سید حسین طارق نے کہا کہ اس مسئلے کی نشاندہی 2007 میں ہوئی تھی ، ڈیڑھ سال پہلے کمیٹی کیوں بنائی گئی۔ کمیٹی نے اس معاملے پر دس دن میں رپورٹ طلب کرلی۔ ریلوے ملازمین کو 482 ارب روپے کا خلاف ضابطہ ڈیلی الائونس دینے کے معاملہ پر سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ فکس ڈیلی الائونس کو میں نے ہی بند کیا ہے۔ اس معاملے میں ضابطے پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔ہمیں اس رقم کو ریگولرائز کرنے کی ضرورت ہے۔ فنانس ڈویژن حکام نے کہا کہ فنانس ڈویژن اس کو خلاف ضابطہ سمجھتا ہے۔ اس معاملے کو ای سی سی میں لے جایا جائے۔ پی اے سی نےفنانس ڈویژن کو یہ معاملہ دیکھنے کی ہدایت کی ۔پی اے سی کو سیکرٹری ریلوے نے بریفنگ میں بتایا کہ ریلوے پبلک گڈز سروس اور بزنس کو سپورٹ فراہم کرتی ہے۔ آئل امپورٹ بل میں 500 ملین کی کمی لائے ہیں۔ریلوے کالونیوں میں ملازمین افسران کو سبسڈائزڈ بجلی کی فراہمی بند کردی ہے۔ بجلی کے فری یونٹس کو 155 ملین یونٹس سے 85 ملین یونٹس تک لے آئے ہیں۔تمام ریلوے کالونیوں میں میٹرنگ انفراسٹرکچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ایم ایل این پر گاڑیوں کی سپیڈ زیادہ سے زیادہ 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔ ماضی میں ریلوے سے 100روپے کمانے کیلئے 180روپے کا خرچہ کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ریلوے کی پنشن کا بجٹ ابھی بھی کافی نہیں ہے۔لوگوں کو دو سال سے پنشن کے فوائد نہیں ملے، ابھی 64 ارب کی رقم مختص کی گئی ہے تیرہ چودہ ارب کی لائبلٹی پڑی ہے۔پنشن کی مد میں 77 ارب روپے سے زائد کے بقایاجات ہیں۔وفاق کو سمری بھیجی ہے پنشن کو قومی بجٹ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ستر سال سے ریلوے کے انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری نہیں کی گئی ۔ریلوے کا زیادہ تر انفراسٹریکچر بوسیدہ اور پرانا ہوچکا ہے۔ گزشتہ سیلاب کی وجہ سے بھی ریلوے انفراسٹریکچر کو نقصان پہنچا ۔