—فائل فوٹو

قومی ایئر لائن کی سعودی عرب سے لاہور کی پرواز میں فنی خرابی کے باعث دمام میں ہنگامی لینڈنگ کی گئی۔

ایوی ایشن ذرائع کے مطابق شیڈولڈ پرواز پی کے 244 دمام سے لاہور کے لیے روانہ ہوئی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ روانگی کے 20 منٹ بعد ایئر بس اے 320 طیارے میں فنی خرابی ہوئی تھی۔

قومی ایئرلائن کی نجکاری کا عمل آگے ضرور بڑھے گا، اسحاق ڈار

نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے وزیر کے بیان پر قومی ایئرلائن پروازوں پر یورپ اور امریکا میں پابندی لگی۔

ایوی ایشن ذرائع نے کہا ہے کہ اے ٹی سی دمام کو آگاہ کر کے پائلٹ واپس لینڈنگ اپروچ پر آ گیا۔

فنی خرابی پر پائلٹ نے 4 بج کر 22 منٹ پر ریڈار پر ہنگامی ایمرجنسی سگنل دیا۔

روانگی کے 1 گھنٹے بعد پرواز بحفاظت دمام ایئر پورٹ پر لینڈ کر گئی۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: قومی ایئر

پڑھیں:

سروس کی اگلی پرواز… پی آئی اے

(بیتے دنوں کی یادیں)

1997کے انتخابات کے نتیجے میں میاں نوازشریف وزیراعظم اور میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ اُس وقت جرائم کی روک تھام ان کی ترجیحِ اوّل تھی۔ اس کے لیے انھوں نے پولیس افسروں کی لسٹیں بنانی شروع کردیں۔ وزیرِ اعلیٰ نے آتے ہی جب ایس پی لاہور طارق سلیم ڈوگر کو ہٹادیا تو مجھ سے رابطہ کرکے مجھے ایس ایس پی لاہور کا چارج سنبھالنے کا کہا۔ میں نے معذرت کی مگر جب انھوں نے اور آئی جی صاحب دونوں نے زور دیا تو میں نے یہ ذمّے داری قبول کرلی۔

لاہور پولیس کے سربراہ کے طور پر بڑی معرکہ آرائیاں ہوئیں۔جرائم کی روک تھام کے علاوہ بھی کئی محاذوں پر لڑنا پڑا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دس گیارہ مہینے کے بعد مجھے ہٹادیا گیا۔ اس پر کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔ مجھے لاہور پولیس کی سربراہی سے ہٹوانے کے لیے کئی فورسز اکٹھی ہوگئی تھیں۔ دو ٹولے سب سے زیادہ سرگرم تھے، پہلا اُن سیاسی لوگوں کا تھا جن کی پولیس کے انتظامی معاملات میں مداخلت بند ہوئی تھی اور جن کے کہنے پر ایس ایچ او اور ڈی ایس پی لگنے بند ہوگئے تھے۔

دوسرا ٹولہ کچھ بیوروکریٹوں کا تھا جو اپنی میٹنگوں میں اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے تھے کہ موجودہ ایس ایس پی (راقم) کچھ دیر مزید رہا تو یہ لاہور میں پولیس کے پرانے اور فرسودہ نظام (جس کی وجہ سے ان کی چودھراہٹ قائم تھی) کی جگہ دہلی اور ڈھاکہ والا جدید میٹرو پولیٹن پولیسنگ سسٹم لے آئے گا، جس کی وجہ سے ہمارا ڈی سی آفس irrelevant یا کمزور ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے اُن کا نظرّیۂ حیات یہی ہے کہ صدیوں پرانے فرسودہ سسٹم کو تحفّظ دیا جائے تاکہ ہماری چوہدراہٹ قائم رہے۔ کچھ بدنام قسم کے صحافی (جو اپنی مرضی کے ایس ایچ او لگوانے اور پھر ان سے ماہانہ معاوضہ وصول کرنے کے عادی تھے) بھی اُن کے ساتھ شامل تھے۔

بہرحال لاہور کی ذمّے داری سے سبکدوش ہونے کے بعد میں گاؤں آگیا اور کتابوں اور کاشتکاری میں دل لگانے لگا۔ اس دوران گاؤں کی خالص خوراک اور صاف آب وہوا کی وجہ سے میری صحت بہت اچھی ہوگئی بلکہ وزن کچھ بڑھ گیا۔ دو ڈھائی مہینے کے بعد ایک روز مجھے پیغام ملا کہ ’’آپ کو وزیرِاعلیٰ شہباز شریف صاحب نے کل رائیونڈ میں ملاقات کے لیے بلایا ہے‘‘۔ دوسرے روز میں ملاقات کے لیے گیا تو مجھے دیکھتے ہی شہبازشریف صاحب نے کہا ’’آپ کافی ویٹ گین کرگئے ہیں‘‘۔

میں نے کہا ’’جی لاہور کی ذمّے داری سے فارغ تھا، کوئی ٹینشن بھی نہیں تھی اور پھر گاؤں کی خالص خوراک اور صاف آب وہوا میّسر آئی تو اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا‘‘۔ ملاقات کے دوران میں نے اُن کے فیصلے پر تنقید کی کہ ’’دنیا بھر میں یہ فارمولا کہیں نہیں ہے کہ کوئی واقعہ ہونے پر قصور نہ بھی ہو تب بھی پولیس افسروں کو ہٹادیا جائے۔ ہر جگہ سنگین ترین واقعے کے بعد بھی دیکھا جاتا ہے کہ کوتاہی یا قصور کس کا ہے؟ کوتاہی نہ ہونے کے باوجود پولیس چیف کے خلاف کارروائی کرنے سے فورس کے مورال پر بہت منفی اثر پڑتا ہے‘‘۔

ان کی باتوں سے اندازہ ہوگیا کہ انھیں اپنے غلط فیصلے کا احساس ہوچکا ہے کیونکہ ان کا رویّہ مدافعانہ رہا۔ کچھ دیر بعد چیف منسٹر صاحب مجھ سے پوچھنے لگے ’’اب آپ کہاں لگنا چاہیں گے؟ آپ کو فیصل آباد لگادیں‘‘؟ میں نے لاہور کے بعد پنجاب میں کوئی اور پوسٹنگ لینے سے معذرت کرلی۔ میں ان سے ملاقات کے بعد کمرے سے نکلا تو پرائم منسٹر نوازشریف صاحب نظر آگئے جو اُسی جانب آرہے تھے۔ اُن سے سلام دعا ہوئی تو کہنے لگے ’’میں نے آپ سے کہا تھا کہ پنجاب نہ جائیں وہ آپ کو خراب کریں گے۔ اب آپ اسلام آباد آکر پھر اپنی ذمّے داریاں سنبھال لیں‘‘ اتفاق سے ان کے اسٹاف آفیسر رؤف چوہدری بھی ان کے ساتھ تھے، انھیں ہدایات دے دی گئیں اور ایک دو روز بعد میری ایک بار پھر پرائم منسٹر آفس میں تعیّناتی ہوگئی۔

چند روز بعد پی ایم آفس کی نئی بلڈنگ میں پہنچا تو پورچ میں ہی پرانے اسٹاف نے ریسیو کیا، میرا پرانا پی اے/ اسٹینو مجھے اپنے آفس کی طرف لے جاتے ہوئے بتارہا تھا کہ ’’سر! یہ سیف الرحمٰن صاحب کے نیشنل اکاؤنٹیبلیٹی سیل (جنرل مشرّف کے دور میں اسے سیل کی بجائے بیورو بنادیا گیا) کے دفاتر ہیں، اچانک میری نظر ایک تختی پر رک گئی۔

لکھا تھا ’’ فلاں ڈائریکٹر جنرل‘‘ میں نے اپنے پی اے سے پوچھا کہ اس نام کا ایک افسر تو صوبہ سرحد کا وہ بیوروکریٹ تھا جسے پرائم منسٹر نے چند ماہ پہلے کرپشن کی بناء پر معطّل کیا تھا۔ پی اے کہنے لگا ’’جی سر یہ وہی صاحب ہیں‘‘ اتنے میں سامنے سے سیف الرّحمٰن آتے ہوئے نظر آئے، میں نے ان سے ملتے ہی حیرانی اور تشویش بھرے لہجے میں پوچھا ’’سیف صاحب! کل کے چور آج آپ کے ساتھی بن گئے ہیں؟ کرپشن میں معطّل ہونے والے شخص کو آپ نے ڈائریکٹر جنرل لگا لیا ہے لہٰذا اب تو خوب اکاؤنٹیبلیٹی ہوگی!!‘‘ اس پر وہ کوئی واضح جواب نہ دے سکا، مگر اُس نیم پلیٹ سے بڑا واضح پیغام مل گیا کہ اب احتساب کا سلسلہ بند ہی سمجھا جائے اور اب جو ہوگا وہ کچھ اور ہی ہوگا، احتساب نہیں ہوگا۔

اس کے بعد ہر روز میرے ان خدشات کو تقویّت ملتی گئی اور میں محسوس کرنے لگا کہ دو سالوں میں نیچے سے اوپر تک سب کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ اس دوران صرف ایک بار مجھے مانسہرہ میں عوامی احتجاج کے نتیجے میں تین افراد کی موت کے سانحے کی تحقیقات کے لیے بھیجا گیا، مگر میرے ساتھ ایک مشکوک شخص کو بھی نتھی کردیا گیا۔ میں اپنی عادت اور تربیّت کے مطابق بازار میں چل پھر کر لوگوں سے حقائق دریافت کرتا رہا مگر وہ صاحب دفتر سے ہی باہر نہ نکلا۔ واپس آکراس صاحب نے حقائق کے برعکس خوشامدانہ سی باتیں کیں، جب کہ میں نے پرائم منسٹر کو صاف صاف بتادیا کہ ’’وہاں کے لوگوں کا خیال ہے کہ ہزارہ کے معاملات، منجھے ہوئے، زیرک اور تجربہ کار وزیراعلیٰ سردار مہتاب عباسی کو سلجھانے دیے جائیں ، اور پارٹی کے دیگر اہم افراد کی مداخلت بند کرادی جائے‘‘۔

حالات دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ میری رپورٹ کا کوئی اثر نہیں ہوگا، جلد ہی مجھے دفتر کا ماحول اجنبی سا لگنے لگا اور میں محسوس کرنے لگا کہ میری اب وہاں کوئی ضرورت یا افادیّت نہیں رہی۔ ایک بار پرائم منسٹر صاحب سے آمنا سامنا ہوا توکہنے لگے ’’آپ ہر روز صبح آٹھ بجے مجھے ملا کریں اور میرے ساتھ ہی پرائم منسٹر آفس جایا کریں (ان دنوں وہ پرائم منسٹر آفس کی نئی اور پرشکوہ بلڈنگ میں بیٹھنے لگے تھے) تاکہ راستے میں کرائم اور لاء اینڈ آرڈر کے ایشوز discuss ہوجائیں‘‘ ایک دو بار میں ساتھ گیا مگر حکومت کی ترجیحات بدل چکی تھیں لہٰذا مجھے اب وہاں اپنی افادیّت نظر نہیں آتی تھی۔

ایک روز کوریڈور میں شاہد خاقان عباسی صاحب (جو ان دنوں پی آئی اے کے چیئرمین تھے) سے ملاقات ہوگئی، وہ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے ’’آپ کے لیے پی آئی اے میں آنے کی پیشکش برقرار ہے‘‘ دراصل چند ماہ پہلے وہ کسی کام کے سلسلے میں میرے پاس لاہور آئے تھے اور وہاں انھوں نے کہا تھا کہ ’’پی آئی اے میں بھی ’’صفائی‘‘کے لیے آپ کی ضرورت ہے، آپ کچھ دیر کے لیے آجائیں تو بڑا اچھا ہوگا‘‘۔ میں نے اُس وقت تو یہ کہہ کر معذرت کرلی تھی کہ ’’اِس وقت لاہور پولیس کو کمانڈ کررہا ہوں، امن وامان اور دہشت گردی کے بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔

ان حالات میں تو حکومت مجھے بالکل spare نہیں کرے گی‘‘ مگر اب میں پی آئی اے میں جانے کے لیے ذہنی طور پر تیّار تھا، میں نے فوراً حامی بھرلی۔ شام کو اُن سے ملاقات ہوئی، اور اگلے روز ان کی طرف سے پرائم منسٹر کو کو خط لکھ دیا گیا کہ آپ کے اسٹاف افسر کی خدمات پی آئی اے کے لیے درکار ہیں، کچھ عرصہ پہلے نوازشریف صاحب مجھے وزیرِاعلیٰ پنجاب کے کہنے کے باوجود ریلیو کرنے کے لیے تیار نہ تھے مگر اب انھوں نے مجھے روکے بغیر فوراً ریلیو کردیا۔  (جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • کراچی کے عمرہ مسافر کی طبیعت خراب، پرواز کی واپسی جدہ لینڈنگ
  • سروس کی اگلی پرواز… پی آئی اے
  • روس ،اسلحہ گودام میں آگ لگنے کے بعددھماکے، ہنگامی حالت کانافذ  
  • دوران پرواز جہاز کی چھت گر پڑی، مسافر ہاتھوں سے تھامنے پر مجبور
  • ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ ختم، نیشنل سائبر کرائم انوسٹیگیشن ایجنسی فعال
  • لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی جارحیت، شہریوں کی تشویش میں اضافہ
  • شہباز شریف کا قومی ایئرلائن کی باکو پرواز کے آغاز پر اظہار مسرت
  • سکردو کا فلائٹ آپریشن بحال، گلگت کی آج بھی 4 پروازیں منسوخ
  • ’آج پی آئی اے اپنے قدموں پر کھڑی ہے‘ قومی ایئرلائن کی لاہور سے باکو کے لئے پروازوں کا آغاز
  • ’آج پی آئی اے اپنے قدموں پر کھڑی ہے‘ قومی ایئرلائن کی لاہور سے باکو کے لئے پروازوں کا آغاز