Nai Baat:
2025-04-22@14:30:47 GMT

بوڑھے ماں باپ کہاں جائیں ؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

بوڑھے ماں باپ کہاں جائیں ؟

ہم جیسوں کے لیے بدلتے رویے تکلیف کا باعث بنتے ہیں ۔ دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور اسی تبدیلی کی زد میں ہمارا کلچر اور سماجی رویے بھی آ چکے ہیں ۔ جوائنٹ فیملی کلچر تیزی سے بدل رہا ہے ۔ اس میں نظریات کی تبدیلی اور عدم برداشت کے ساتھ ساتھ مہنگائی ، چھوٹے گھر اور دیگر وجوہات بھی ہیں ۔ پرائیویسی کے نام پر ہم اتنے تنہا ہوتے جا رہے ہیں کہ خوف آنے لگا ہے ۔ اب ہمارے گلی محلوں میں اجنبی کو آتا جاتا دیکھ کر کوئی الرٹ نہیں ہوتا ، جس کا نقصان بچوں کے اغوا اور زیادتی جیسے واقعات کی صورت سامنے آنے لگا ہے ۔اب محلے کی بہو بیٹی سانجھی نہیں رہی ، محلے کے بزرگ "چاچا جی ” نہیں رہے ، اب انہیں آتا دیکھ کر نہ تو محلے کی کوئی بیٹی سر پر دوپٹہ رکھتی ہے اور نہ ہی گلی کی نکڑ پر کھڑے لڑکے سگریٹ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جنریشن گیپ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گیا ہے ۔ گلی محلے کی کرکٹ اور تھڑے کی گپ شپ کو سوشل میڈیا ایپس کھا گئی ہیں ۔ شرم و حیا ہمارے اطوار سے نکل کر دیکھنے والے کی آنکھ تک محدود کر دی گئی ہے ۔ ہمارے جنازے مختصر ہونے لگے ہیں یہاں تک کہ میت کو قبرستان لیجانے کے لیے کندھے کم پڑ گئے ہیں لہذا میت بھی گاڑی میں لیجانا پڑتی ہے۔ تعزیت کے لیے ایک ایس ایم ایس یا فون کال کافی سمجھی جاتی ہے ، بیماری کے لیے تعزیت بھی موبائل فون کی اطلاع تک محدود ہو چکی ہے ۔ سچ کہوں تو آج کے دور میں ہم ہجوم کے درمیان بھی تنہا ہو چکے ہیں۔ مجھے لگنے لگا ہے کہ بہت جلد اولڈ ہومز کی تعداد بڑھنے لگے گی ۔ بچوں کی مصروفیت اور جوائنٹ فیملی سسٹم کی تباہی کی وجہ سے یہ ہماری سوشل مجبوری بن جائے گی ۔ ہمارے ملک میں بھی ایسے اولڈ ہائوس بن جائیں گے جہاں اخراجات ادا کر کے بڑھاپا گزارا جا سکے گا کیونکہ ہم جس سوشل تنہائی اور پرائیویسی کا شکار ہو رہے ہیں یہ جوانی میں اچھی لگتی ہے لیکن بڑھاپے میں عذاب بن جاتی ہے ۔ یہ تو ہمارے رویے اور کلچر ہیں جس پر ہم جیسے اپنا دل جلانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ بدلتی دنیا کے ساتھ یہ اسی بہائو میں بدلتا رہے گا ۔ دنیا کی تبدیلی ایک قدرتی عمل ہے۔ ہر نسل اپنی پچھلی نسل سے کچھ مختلف ہوتی ہے ۔ ہم اسی کا شکار ہیں ۔ ممکن ہے کسی دور میں احساس ہو تو لوگ واپس پہلی روایات کو اپنانے لگیں ۔ بہرحال اس سے بڑا دکھ یہ ہے کہ سرکاری و غیر سرکاری سطح پر بھی والدین کہیں نہیں ہیں ۔ اگلے روز عمر چودھری کے ساتھ بیٹھا تھا ۔ عمر چودھری موٹرسائیکل ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر رہے ہیں ۔ یہ سر پھرے نوجوان موٹر سائیکل پر پاکستان بھر کا سفر کر چکے ہیں اور ویڈیو تصاویر کے ذریعے دنیا بھر کو پاکستان کی خوبصورتی سے آگاہ کرتے ہیں ۔ ان کی بائیک اور ہیلمٹ پر لگے کیمرے سنگلاخ چٹانوں سے برف پوش پہاڑوں تک ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں ۔ عمر چودھری کے برادر نسبتی عدنان یعقوب ٹریفک پولیس میں وارڈن تھے۔ 2018 میں وہ ایک حادثہ میں فوت ہو گئے ۔ عدنان مرحوم کے بوڑھے والد ان کے ساتھ رہتے تھے ۔ جواں بیٹے کی موت نے بوڑھے باپ کی کمر توڑ دی ۔ آج وہی بوڑھا باپ کسمپرسی کی حالت میں ہے ۔ بیٹے کی وفات کے بعد سرکار کے پاس اس بوڑھے باپ کے لیے کچھ نہیں ہے ۔ یہ صرف ٹریفک پولیس کا معاملہ نہیں ہے ۔ یہ مجموعی طور پر ہمارا قانون ہے جو ہر محکمے میں لاگو ہوتا ہے ۔ ہمارے یہاں جب کوئی سرکاری ملازم فوت ہوتا ہے تو سب سے زیادہ کوریج اس کے بوڑھے والدین کی ہوتی ہے ۔ جذباتی مناظر دکھائے جاتے ہیں ۔ اگر بیٹا فورسز میں ہو تو بوڑھا باپ اس کی میت وصول کرتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بیٹے کی تدفین کے بعد بوڑھے ماں باپ کو کچھ نہیں ملتا ۔ سرکاری و غیر سرکاری طور پر آپ کی فیملی میں صرف بیوی اور بچے شامل ہیں۔ عموماً شوہر کی وفات کے بعد بیوہ اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ شوہر کی تنخواہ یا پنشن اسی کو ملتی ہے ۔ اگر دوسری شادی کر لے تو بچوں کی گارڈین کے طور پر بھی عموماً ہر ماہ ملنے والے پیسے بیوہ کے اکائونٹ میں جاتے ہیں۔ مجھے اس پر اعتراض نہیں ہے ۔ شریک حیات کے طور پر یہ سب بیوہ کا حق ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بوڑھے والدین کا حق کہاں ہے ؟ بڑھاپے میں وہ کمانے کی سکت نہیں رکھتے ۔ جس بیٹے کی تعلیم و تربیت پر انہوں نے سب کچھ لگا دیا وہ فوت ہو گیا ہے ۔ بڑھاپے کا سہارا تو چلا ہی جاتا ہے لیکن سرکار بھی انہیں بے سہارا چھوڑ دیتی ہے۔ پاکستان میں ایسے کئی بوڑھے ہیں جو جوان بیٹے کی وفات کے بعد بے سہارا ہو چکے ہیں ۔ کرایہ کا گھر، ادویات ، خوراک اور دیگر ضروریات زندگی کے لیے انہیں دوسروں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے ۔ عمر بھر کما کر کھانے اور کھلانے والے کے لیے یہ سب بہت تکلیف دہ ہے۔ اگر حکومت قوانین میں کچھ ترمیم کر لے اور سروس کے دوران وفات پانے والے ملازم کے والدین کا بھی کچھ شیئر رکھ لے تو شاید ان کے دکھ اور مسائل کا کچھ ازالہ ہو جائے گا۔ نجی اداروں کو بھی ایسی ہی کوئی پالیسی بنانی چاہیے ۔ پاکستان میں کئی عدنان یعقوب اپنے والدین کا سہارا تھے لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے بوڑھے والدین رل گئے ہیں ۔ہمارے ملک کی دستاویزات میں آپ کی فیملی میں والدین شامل نہیں ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ پھر بوڑھے ماں باپ کہاں جائیں ؟

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: بیٹے کی چکے ہیں کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

بجلی

ہمارے پاس کوئی ایسا قومی رہنما موجود نہیں ہے جو پہلے قوم کو بتا سکتا کہ ہماری اصل بدحالی کتنی گھمبیر ہے۔ ملک میں بجلی کے بحران‘ اس کا حد درجہ مہنگا علاج اور آئی پی پیز وہ استعارے ہیں جس کی آڑ میںبجلی کا بحران پیدا کیا گیا۔ آج بھی حکومتی پالیسی کی وجہ سے گردشی قرضے ادا کرنا مشکل سے مشکل بنا دیا گیا ہے۔

Ember‘ لندن میں موجود ایک ایسا تحقیقاتی ادارہ ہے جس میں دنیا کے ہر ملک کی بجلی بنانے کے ذرائع اور حکمت عملی پر غیر متعصب تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ادارہ کی رپورٹ کے مطابق‘ پوری دنیا میں کلین انرجی’’Clean Energy‘‘کا تناسب 41فیصد ہے۔ 2024ء میں سولرانرجی میں 29فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے رجحان میں (Wind energy) تقریباً آٹھ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سب سے کم ترین اضافہ‘ کوئلے اور ڈیزل (Fossil) سے حاصل کرنے والی توانائی کے ذرائع میں ہوا ہے۔ جو تقریباً 1.4 فیصد کے قریب ہے۔ یعنی پوری دنیا ‘ فوسل توانائی سے دور بھاگ رہی ہے اور کلین انرجی کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔

مگر ہمارے ملک کی داستان الگ ہے۔ پاکستان میں بجلی کے نام پر وہ کرپشن ہوئی ہے، جو ایک منفی مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ قیامت یہ بھی ہے کہ کمال عیاری سے ڈیم بنانے کے کام کی رفتار کو حد درجہ شکستہ کردیا گیا ہے۔ پھر لوڈشیڈنگ کو بطور ہتھیار استعمال کیاگیا، اس کی آڑمیں نجی بجلی گھر بنانے کے معاہدے شروع ہو گئے۔ جن سے ہمارے ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ گئی۔

کمال دیکھئے کہ پاکستان میں زیادہ تر بجلی ڈیزل یا کوئلے سے بنائی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی ہوا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سے‘ ایسے استعمال شدہ بجلی گھر درآمد کیے گئے جو متعلقہ ممالک میں متروک کیے جارہے تھے۔ یہ ملک سے انتقام لینے کی مونہہ بولتی تصاویر ہیں۔ کمال یہ بھی ہے کہ باخبر حلقے حقائق جانتے ہیں ۔ مگر ہمارے نیرو تو دہائیوں سے چین کی بانسری مسلسل بجاتے آرہے ہیں۔

ایک سابقہ بجلی اور پانی کے وزیر ملے، فرمانے لگے کہ جب میں وزیر بنا تو پیغام بھجوایا گیا کہ آپ اگر نجی شعبے کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کریں تو … وزیر موصوف کاریگر آدمی تھے، ہر چیز کو بھانپ گئے ، پھر سیاست میں آ گئے۔ اور آج بھی خیر سے میڈیا پرمیرٹ اور شفافیت پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال جانے دیجیے۔

اس طرح کے سرفروش کردار ‘ ہر سیاسی جماعت میں اور ہر دور میں موجود رہے ہیں ۔ کیا آپ کو یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ ہمارے سیاستدان اور حکمران کسی بھی بڑے آبی ڈیم کو مکمل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ واپڈا کو تو ویسے ہی کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جو چیئرمین بنائے جاتے ہیں اور ان کی ’’کہانیاں‘‘ آپ واپڈا ملازمین سے پوچھ سکتے ہیں۔ شاید انھیں بتا دیاجاتا ہے کہ برخوردار کسی ڈیم کو بروقت مکمل نہیں کرنا ۔ ہاں‘ ان کی طرف‘ ایک مصنوعی توجہ ضرور رکھنی ہے۔

 پاکستان کا نجی شعبہ ’’کلین انرجی‘‘ نہیں پیدا کر رہا۔ ہمارے ہاں تو ایسا بھی ہوا ہے کہ ہماری ایک حکومت میں تعینات ہونے والے مشیر نے اچھی خاصی کمائی کی ، ذرا سی بازپرس ہوئی تو بوریا بستر گول کر کے باہر چلے گئے۔ یہ اس حکومت کا کارنامہ ہے ‘ جو صرف ساڑھے تین سال حکومت کر پائی۔ جناب ‘ ہمارے تمام اکابرین ایک جیسے رویے کے حامل ہیں۔ شفاف حکومت‘ تبدیلی حکومت اور عوامی حکومت کے طرز عمل میں رتی برابر کا کوئی فرق نہیںہے۔

ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ بجلی کی چار گنا اور انواسنگ بھی ہوتی ہے۔ اور ہمارے سرکاری بابوؤں نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔کسی سرکاری بابو نے یہ معائنہ نہیں کیا‘ کہ اصل پیداواری صلاحیت کتنی ہے۔ آپ خود مجھے سمجھائیے کہ کیا ہماری معیشت کو ہندوستان نے تباہ کیا ہے؟ نہیں جناب! یہ کام ہم نے خود کیا ہے۔ اقتدار بھی اشرافیہ کا‘ میڈیا بھی ان کا‘ ریاستی ادارے بھی ان کے ۔Amber کی رپورٹ کے مطابق‘ پاکستان میں سولر انرجی کو لوگوں نے مجبوراً استعما ل کرنا شروع کیا ہے کیونکہ سرکاری بجلی ناقابل برداشت حد تک مہنگی کردی گئی ۔

لوگوں نے پیٹ کاٹ کر سولر پینل اور نیٹ میٹرنگ پر توجہ دی ہے۔ 2024 میں ہمارے ملک میں سترہ گیگا واٹ کے پینل امپورٹ کیے گئے ہیں۔ World Economic Forumنے بتایا ہے کہ چین نے سولر پینلزکی پیداوار حد سے زیادہ کر دی ہے۔ اور انھوں نے پاکستان کے عوام کی نفسیات سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ چین نے ڈبل منافع کمایا۔ ایک طرف تو چین نے بجلی گھر فراہم کیے ‘ دوسری طرف‘ ہمیں سولر پینل مہیا کرنے شروع کر د یئے۔

 بہرحال لوگوں میں سولر پینل کے بڑھتے ہوئے استعمال کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکاری بجلی کا استعمال کم ہونا شروع ہوا ، سرکاری بجلی کی فروخت میں کمی آنی شروع ہو گئی۔ اس پر حکومت نے وہ بجلی جو لوگ سولر پینل سے اپنے گھروں میں پیدا کر رہے تھے، اس کی قیمت خرید مبینہ طور پر صرف دس روپے کر دی۔ عوامی رد عمل کا خوف محسوس ہوا تو بجلی کی قیمت میں سات روپے کی کمی فرما دی۔ اس کی تشہیر ایسے کی گئی جیسے کہ ملک پر ایک ایسا احسان فرما دیا گیا ہے یا عوام کے تمام مسائل حل ہو گئے ہیں۔ اس پر کیا لکھوں۔ بلکہ کیوں لکھوں۔ہر ایک کو بجلی کے معاملات کی اصلیت معلوم ہے۔ لوگوں میں شعور کی سطح حد درجہ بلند ہے۔ وہ اپنے غم خواروں اوررقیبوں کو خوب پہچانتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بابراعظم دراصل کہاں غلطی کر رہے ہیں ؟ محمد عامرکا ناقص پرفارمنس پر مشورہ
  • تھیلیسیمیا مائنر والے والدین کی شادی پر پابندی نہیں لگوا رہے، ٹیسٹ کی بات کر رہے ہیں، شرمیلا فاروقی
  • شیخ رشید بزرگ آدمی ہیں، کہاں بھاگ کر جائیں گے: سپریم کورٹ
  • شیخ رشید بزرگ آدمی ہیں بھاگ کر کہاں جائیں گے، جسٹس ہاشم کاکڑ کے ریمارکس
  • پانی معاملہ صرف سندھ نہیں پنجاب کا بھی مسئلہ ہے، نیئر بخاری
  • واشنگٹن کے ساتھ تجارتی سودے ہمارے کھاتے میں نہ کیے جائیں … چین کا انتباہ
  • کینال کا معاملہ صدر زرداری سے ضرور ڈسکس ہوا ہو گا: مصطفیٰ کمال
  • بجلی
  • پی ٹی آئی حکومت میں 6 ارب 23 کروڑ کہاں گئے؟ محکمہ صحت کا حیران کن انکشاف
  • آٹزم کیا ہے؟