WE News:
2025-04-22@14:24:46 GMT

امام غزالی، دینی تعلیم اور مُلا

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

امام غزالی رحمۃ اللہ 21 برس کی عمر میں جامعہ نظامیہ کے ڈین(نگران اعلی) بنا دیئے گئے تھے اور یہ کوئی صدقہ و خیرات پر چلنے والا مدرسہ نہ تھا۔ بلکہ اس وقت کے وزیراعظم نظام الدین طوسی کا قائم کردہ بے مثل ادارہ تھا، وہی نظام الدین طوسی جن کا یہ قول معروف ہے

’اپنا قلمدان الٹ دوں تو بادشاہ کے تاج و تخت الٹ جائیں‘

ڈین بننے کے کچھ ہی عرصہ بعد امام غزالی اس باطنی طلاطم سے دوچار ہوئے جو ہر بڑے آدمی کے باطن میں برپا ہوتا ہے اور یہ اس کے پورے تصور حیات کو ایک بڑی تبدیلی سے گزارنے کے کام آتا ہے۔ امام غزالی جب اس طلاطم کا شکار ہوئے تو اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جامعہ نظامیہ سے مستعفی ہوگئے۔ وہ وہاں سے حیبرون گئے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مرقد پر کھڑے ہوکر ایک بڑا اعتراف جرم کیا۔

وہ جرم جو غزالی کا نہ تھا بلکہ اس وقت کے مسلم سماج اور اس کے اصحاب وعلم و دانش کا تھا۔ غزالی تو صرف 21 برس کے تھے، ان کا اس میں کوئی حصہ کہاں سے ہوتا ؟ انہوں نے تو بس اس کا ادراک کیا تھا اور خود کو بھی ازراہ انکسار شریک جرم تسلیم کرلیا تھا۔

وہ اعتراف یہ تھا کہ انہوں نے فرمایا ’ہم سے ایک بہت بڑی خطا ہوگئی ہے۔ اور وہ خطا یہ ہے کہ ہم نے دینی نظام تعلیم سے دین کو ہی باہر کردیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دین محض ذہنی ہوکر رہ گیا ہے، وجودی نہیں رہا۔‘

ذہنی اور وجودی کا فرق یہ ہے کہ اگر دین دل و دماغ میں تو موجود ہے،اس کا علم اور شعور دونوں میسر ہیں مگر عمل میں دین نظر نہیں آتا تو یہ ذہنی دین ہے۔ لیکن اگر دین 6 فٹ کے قد میں روبعمل بھی ہے تو یہ وجودی دین ہے۔

چنانچہ غزالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مرقد پر یہ عہد کیا کہ وہ اس صورتحال کو تبدیل کریں گے اور اپنی باقی ماندہ زندگی اسی کام میں لگائیں گے، یہ عہد کرکے امام غزالی اپنے گاؤں طوس چلے گئے۔

یہ بھی پڑھیں:ہم، وجاہت مسعود اور ٹرک کی بتی

طوس میں انہوں نے دو کام کیے۔ پہلا کام یہ کہ اپنے گاؤں کے بچوں کو ناظرہ قرآن مجید پڑھانے لگے۔ اگر آپ کو غزالی کے اس عمل کی اہمیت سمجھ نہیں آرہی تو آپ کسی بھی چھوٹے بڑے شیخ الحدیث کو ناظرہ کا استاد بنا کر دکھا دیجیے۔ وہ اسے اپنی توہین قرار دے کر مدرسہ نہ چھوڑ جائے تو ہمارا گریبان حاضر ہے۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ نظامیہ جیسی عظیم الشان درسگاہ کے اس بے مثل ڈین نے یہ اقدام اس سوچ کے تحت اختیار کیا تھا کہ ’شعبہ تعلیم‘ کی نفسیات کو اس کی بنیاد سے سمجھنا چاہیے اور دینی تعلیم کے شعبے میں ناظرہ قرآن کی کلاس گویا ’نرسری لیول‘ ہے۔ سو غزالی اسی کے معلم بن گئے۔

طوس میں غزالی نے دوسرا کام یہ کیا کہ اپنے چھوٹے بھائی احمد غزالی کے ہاتھ پر بیعت کرکے ان کے مرید ہوگئے۔ آپ ان دونوں کاموں میں قدر مشترک نوٹ کیجیے،استاد وہ بالکل چھوٹے بچوں کے بنے اور بیعت اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر کر گئے۔ کسی بڑے بھائی کی چھوٹے بھائی کے ہاتھ بیعت چھوڑیے، بڑے سے چھوٹے بھائی کے ساتھ سیدھے منہ بات کروا کر دکھا دیجیے۔ تب اندازہ ہوگا کہ غزالی اپنی انا کو کس مہارت سے لگام ڈال رہے تھے۔

3 سال بعد غزالی ایک بار پھر بغداد آئے اور پورے اختیار کے ساتھ مدرسہ نظامیہ کا نظم ایک بار پھر سنبھال لیا۔ نظام سنبھالتے ہی غزالی نے پورا نظام تعلیم بدل ڈالا۔

اس کی بہت لمبی تفصیل ہے مگر یہاں بس ایک نکتہ سمجھ لیجیے جو ہمارے موضوع سے مناسبت رکھتا ہے، اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اس کالم کا موضوع امام غزالی ہیں تو غلط سوچ رہے ہیں۔ غزالی کی حیات کا یہ گوشہ ہمارے اس موضوع کی تفہیمی ضرورت ہے جو آگے آرہا ہے۔ وہ ایک نکتہ یہ تھا کہ غزالی نے کہا، سپیشلائزیشن کی کلاسز میں پروموٹ ہونے کے لیے میرٹ یہ نہیں ہوگا کہ طالب علم نصابی کتب کی بہترین تفہیم حاصل کرگیا ہے اور یہ 100 میں 100 نمبر لے رہا ہے، بلکہ میرٹ یہ ہوگا کہ طالب علم نے دین کا اب تک جوعلم حاصل کیا ہے اس پر اس کا عمل کتنا ہے؟ اگرعمل کمزور ہے تو کتب کی تفہیم کتنی ہی اعلی کیوں نہ ہو پروموشن نہیں ملے گی،آپ اس کا مطلب سمجھے ؟

اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم نے معاشرے کو ملا نہیں باعمل عالم فراہم کرنا ہے،عالم اور ملا کا فرق کیا ہے؟ یہی کہ ملا دین کو اپنے تابع رکھتا ہے۔ جبکہ عالم خود کو دین کے تابع بناتا ہے۔ ملا تو جب چاہتا ہے جیسا چاہتا ہے احکام دین کو ان علمائے یہود کی طرح ردوبدل سے گزارتا ہے۔ جن کا ذکر قرآن مجید میں اللہ سبحانہ تعالی تفصیل سے فرما چکے ہیں۔ان کے جرائم میں سنگین ترین جرم قرآن یہ بیان کرتا ہے کہ وہ دنیوی مفاد کے لیے احکام الہی میں ردوبدل کردیا کرتے تھے۔ حیلے بنانے کے ماسٹرز تھے۔

سو غزالی نے دینی نظام تعلیم کا وہ دروازہ ہی اکھاڑ کر پھینک دیا جس سے عالم اور ملا دونوں ہی آؤٹ پٹ کی شکل میں نکلتے تھے۔  آپ غزالی کا یہ ایک ہی نکتہ وفاق المدارس سے منوا لیجیے اور ہم سے منہ مانگا انعام حاصل کر لیجیے۔

حد یہ نہیں کہ اپنی پست درجے کی خدمات پر اترانے والے ارباب دین کی درسگاہ کا لگ بھگ پورا بیج ہی نئے ملاؤں پر مشتمل نکل رہا ہے۔ بلکہ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ کتب کی تفہیم میں بھی سی گریڈ والے کو سند عطا کرکے کہتے ہیں جاہئیے اور معاشرے کی دینی رہنمائی کیجیے۔ اور ہم اسے اس کے باوجود ظلم عظیم قرار دے رہے ہیں کہ خود ہم بھی پورے درس نظامی کے دوران سی گریڈ میں رہے۔ اور اخلاقی حالت ہماری یہ تھی کہ ہمیں لفنگا قرار دینا کسی صورت بھی کوئی مبالغہ نہ ہوتا۔

درس نظامی سے کی سند تو ہم نے ایک سی گریڈ لفنگے کی حیثیت میں ہی حاصل کی تھی۔ اگر کوئی تبدیلی ہم میں رونما ہوئی تو وہ بعد کی زندگی میں ذاتی احساس سے پیدا ہوئی اور ہمیں دن رات لگا کر اپنے لفنگے پن اور سی گریڈ کی سرکوبی کرنی پڑی۔ سو خدائے بزرگ و برتر کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر وفاق المدارس ہماری سند منسوخ کردے تو یہ عین برحق اور درست اقدام ہوگا۔ ہمیں وہ سند فراہم کرنا ایک سنگین جرم تھا، وہ جرم جو اس لمحہ موجود میں بھی دھڑلے سے جاری ہے۔

چونکہ فارغ التحصیل ہونے والوں کی غالب اکثریت ان کی ہے جو امام غزالی کے اصول کے مطابق ’ذہنی دین‘رکھتے ہیں، وجودی نہیں۔ تو نتیجہ یہ ہے کہ ہر نئے فارغ التحصیل بیج میں عالم ایک آدھ ہی نکل رہا ہے، ملاؤں کی فوج کی فوج تیار ہورہی ہے۔ وہ ملا جو کہتا ہے کہ لاس اینجلس کی آگ پر خوش ہونا کار ثواب ہے۔ کیونکہ مسلمان کو صرف مسلمان کو پہنچنے والے نقصان پر رنجیدہ ہونا چاہیے۔ اس کا یہ موقف قرآن سنت سے کس قدر متصادم ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگا لیجیے کہ قرآن مجید کی تیسویں سورہ کا نام سورۃ الروم ہے۔ اور یہ نام اسے اس نسبت سے ملا ہے کہ اس سورہ کی ابتدا ہی اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہؓ کو دی گئی اس خوشخبری سے ہورہی ہے کہ آپ پرشین ایمپائر کے ہاتھوں رومن ایمپائر کی شکست پر رنجیدہ نہ ہوں، اگلے چند سالوں میں رومن ایمپائر اللہ کی مدد سے فتحیاب ہوجائے گی اور یہیں سے اس سورہ کا نام ہی سورہ روم ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ اللہ تعالی نے 3 اور معاملات میں بھی واضح ہدایات دے رکھی ہیں۔ مثلا ملاقات کے موقع پر دنیا کے ہر کلچر میں تہنیتی جملوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ ہم سلام کے دعائیہ کلمات استعمال کرتے ہیں، ہندو نمستے کہتے ہیں، اور مغربی اقوام گڈ مارننگ وغیرہ۔ اس معاملے میں قرآن کہتا ہے کہ جب وہ تم سے کوئی تہنیتی کلمہ کہیں تو تم ان سے بہتر یا انہی جیسا جملہ کہہ دیا کرو۔  کھانے پینے کے معاملے میں ہدایت کردی گئی کہ اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے۔ یعنی ان سے کھاؤ بھی اور انہیں کھلاؤ بھی۔ شادی کے معاملے میں فرما دیا کہ اہل کتاب کی خواتین سے اسلام قبول نہ کرنے کے باوجود شادی کرسکتے ہو۔

اب ان ملاؤں سے یہ کون پوچھے کہ اگر غیر مسلم کے نقصان پر خوش ہونا کار ثواب ہے تو رومن ایمپائر کی شکست پر اللہ کے رسول ﷺ رنجیدہ کیوں ہوئے؟ اگر غیرمسلم کے نقصان پرخوش ہونا کار ثواب ہے تو قرآن یہ تعلیم کیوں دے رہا ہے کہ ان سے اچھے تہنیتی جملوں کا تبادلہ کیا کرو ؟ اگرغیر مسلم کے نقصان پر خوش ہونا کار ثواب ہے تو ان کے ساتھ شنواری پر دنبے اڑانے کی اجازت کیوں ہے؟ اگر ان کے نقصان پر خوش ہونا کار ثواب ہے تو ان کی خواتین سے نکاح کی اجازت کیوں ہے؟

جہالت کی حد دیکھیے کہ ایسا مواد آن لائن موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اہل کتاب عورت سے شادی تو جائز ہے مگر اس سے قلبی محبت رکھنا جائز نہیں کیونکہ وہ غیر مسلم ہے۔ اب ان سے یہ کون پوچھے کہ بھئی اگر محبت ہی نہیں ہے تو کوئی شادی کیوں کرے گا ؟ اور حق زوجیت ادا کرنے کے لیے کچھ اعضا میں جو تغیر درکار ہوتا ہے وہ محبت کے بغیر ممکن بھی ہے؟ اس شوہر سے بدتر بھی کوئی ہوسکتا ہے جسے اپنی شریک حیات سے محبت نہ ہو؟ آپ ذرا کسی برٹش اہل کتاب لڑکی سے کہہ کر دیکھ لیجیے کہ ڈارلنگ شادی تو تم سے کرنی ہے مگر دیکھو مجھ سے محبت مت مانگنا۔ میں مسلمان ہوں تمہیں محبت نہیں دے سکتا۔ اگر اس گوری کے پاس وقت ہوا تو انشا اللہ ملاجی کو خود ہی کسی پاگل خانے میں جمع کروا آئے گی۔

آخری بات تاریخ کے گوشے سے سمجھ لیجیے، جو ہے بھی فیصلہ کن۔ جب خلافت راشدہ کے دور میں مسلم سپاہ جزیرۃ العرب سے باہر نکلی اور فتوحات کا دور شروع ہوا تو بعض علاقے باقاعدہ جنگ سے فتح ہوئے اور کچھ علاقے بغیر کسی جنگ کے اس شرط کے ساتھ مسلمانوں کے کنٹرول میں آگئے کہ مقامی آبادی اپنے مذہب پر رہتے ہوئے جزیہ دے کر مسلم ریاست میں رہےگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہاں جنگ ہوئی وہ اپنے مذہب اور سرزمین کو بچانے کے لیے مسلمانوں سے لڑے، جو جزیے پر آمادہ ہوئے انہوں نے بھی یہ اقدام اپنے مذہب کو بچانے لیے کیا۔ اگر اسلام قبول کر لیتے تو جزیہ نہ دینا پڑتا۔  چنانچہ پہلی صدی میں ہی صورتحال یہ ہوگئی کہ مسلم سلطنت میں اکثریت غیر مسلموں کی تھی، مسلمان ایک اقلیت کے طور پر ان کے حکمران تھے۔

مگر بتدریج ایک عجیب خاموش انقلاب برپا ہوگیا۔ وہ یہ کہ جن لوگوں نے اکثر مقامات پر اپنے مذہب اور وطن کے دفاع کے لیے مسلمانوں کے خلاف جان کی بازی لگا دی تھی وہاں بھی اور وہاں بھی جہاں مقامی آبادی نے کہا تھا کہ جزیہ دیں گے مگر آپ کا مذہب قبول نہیں کریں گے، مقامی آبادی خود بخود مسلمان ہوتی چلی گئی۔ جانتے ہیں کیوں ؟ کیونکہ مسلم فاتحین کا ان سے رویہ اور سلوک اعلی ترین انسانی درجے کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے ’اسلام تلوار سے نہیں اخلاق سے پھیلا‘ تلوار سے تو انہوں نے تلوار ٹکرادی تھی۔ اور اسلام قبول نہ کرنے کے لیے تو انہوں نے جزیے کی شرط مان لی تھی۔

سو یہ معاملہ طے پاگیا تھا کہ یہ اپنے اپنے مذہب پر رہیں گے، پھر اسلام قبول کرنے والا مرحلہ کہاں سے آیا؟ اخلاق سے آیا۔ اعلی درجے کے سلوک اور رویے سے آیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ صرف رقبہ ہی اسلامی نہ رہا بلکہ آبادی بھی مسلمان ہوگئی۔ اور یوں مسلم سلطنت مسلم اکثریتی آبادی بھی بن گئی۔

ہمارا ملا ہمیں بس یہ سمجھا دے کہ قرون اولی کے وہ مسلمان جو اپنی غیر مسلم آبادی سے اعلی سلوک کرتے رہے۔ وہ اسلام کا حکم توڑتے رہے یا اسلام پر عمل کرتے رہے؟ یہ سوال ہم اس لیے پوچھ رہے ہیں کہ بقول ملا تو غیر مسلم کے نقصان پر بھی خوش ہونا کار ثواب ہے،  چہ جائیکہ ان سے اچھا سلوک کیا جائے یا رومن ایمپائر کی شکست پر رنجیدہ ہوا جائے۔ حد نہیں کہ جس اسلام کی مقدس کتاب کی ایک سورہ رومن ایمپائر کی تاریخی فتح کی خوشخبری پر مشتمل ہے، اس اسلام کا ملا کہتا ہے، لاس اینجلس کی آگ پر خوش ہونا کارثواب ہے ؟

ہمارے نزدیک یہ طے شدہ امر ہے کہ مسئلہ عالم دین نہیں، بلکہ ملا ہے۔ لہذا مسئلے کا حل یہ نہیں کہ وفاق المدارس کو کسی طرح سرکاری کنٹرول میں لایا جائے۔ سرکاری عصری تعلیمی ادارے جو تیر ماررہے ہیں وہ بھی ہم جانتے ہیں۔ سو دارالعلوم کراچی کو جامعہ کراچی بنانا مسئلے کا حل نہیں۔ مسئلے کا حل یہ ہے کہ وفاق المدارس کو پابند کیا جائے کہ وہ گھوڑے اور گدھے کو ایک ہی سند فراہم کرنا بند کرے۔ بلکہ گدھوں کا سرے سے داخلہ ہی بند کرے۔ معاشرے کو علماء فراہم کیے جائیں ملا نہیں۔ غزالی کے اصول کے مطابق عالم دین ہونے کی سند اسی کو فراہم کی جائے جس کا دین ذہنی نہیں وجودی ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

علما، امام غزالی، ملا، لاس اینجلس.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: علما امام غزالی ملا لاس اینجلس پر خوش ہونا کار ثواب ہے مسلم کے نقصان پر رومن ایمپائر کی وفاق المدارس اسلام قبول امام غزالی اپنے مذہب نتیجہ یہ انہوں نے غزالی نے غزالی کے کے ساتھ سی گریڈ رہے ہیں اور یہ ہیں کہ تھا کہ کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم، بنیادی رکاوٹیں کیا ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 25 ملین بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ اس صورتحال نے نہ صرف صنفی مساوات بلکہ ملک کی مجموعی ترقی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

اسلامی مؤقف اور عالمی آواز

رواں سال اسلام آباد میں منعقدہ ''مسلم ورلڈ لیگ کانفرنس برائے لڑکیوں کی تعلیم‘‘ نے اس موضوع کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔

نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے کہا، ''ہر لڑکی کا تعلیم حاصل کرنے کا حق ناقابلِ تنسیخ ہے۔‘‘

مسلم ورلڈ لیگ کے سکریٹری جنرل شیخ محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے واضح کیا کہ اسلام لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کی کوئی گنجائش نہیں دیتا۔

(جاری ہے)

کانفرنس کے اختتام پر جاری کردہ اسلام آباد اعلامیے میں صنفی حساس پالیسیوں، محروم طبقات کے لیے اسکالرشپس اور انتہا پسندانہ نظریات کی مذمت پر زور دیا گیا۔

حکومتی اقدامات اور تعلیمی وظائف

پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے حکومتی سطح پر کئی پروگرام جاری ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے تحت ''تعلیمی وظائف پروگرام‘‘ غریب خاندانوں کی لڑکیوں کو تعلیمی مواقع فراہم کر رہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت پرائمری سے گریجویشن تک لڑکیوں کو سہ ماہی وظائف دیے جاتے ہیں، جو 70 فیصد اسکول حاضری سے مشروط ہیں۔

سماعت سے محروم پاکستانی بچوں کے لیے اسکول زندگی ہے!

ایشیائی ترقیاتی بنک کے کنسلٹنٹ محمد نعمان علی کے مطابق، حکومت اس پروگرام کی توسیع پر غور کر رہی ہے تاکہ دور دراز علاقوں کی لڑکیوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جا سکے۔ انہوں نے کہا، ''یہ وظائف نہ صرف مالی مدد فراہم کرتے ہیں بلکہ والدین میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے شعور بھی اجاگر کرتے ہیں۔

‘‘

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ مالی امداد کے باوجود بنیادی ڈھانچے کی کمی، اسکولوں تک رسائی اور سماجی رویوں جیسے مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔

نجی شعبے کا کردار

نجی شعبے نے بھی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ملالہ فنڈ، پاکستان الائنس فار گرلز ایجوکیشن (پی اے جی ای)، دی سٹیزن فاؤنڈیشن (ٹی سی ایف) اور آغا خان ایجوکیشن سروسز جیسے اداروں نے ہزاروں لڑکیوں کو تعلیمی مواقع فراہم کیے ہیں۔

پی اے جی ای کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فجر رابعہ پاشا نے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) سے گفتگو میں بتایا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے سب سے بڑے مسائل میں اسکولوں کا فاصلہ، محفوظ ٹرانسپورٹ کی کمی اور خاندانی تعاون کی کمی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا، ''دیہی علاقوں میں اسکولوں کی تعداد اور معیار دونوں ناکافی ہیں۔ پالیسیوں کو زمینی حقائق کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔

‘‘

فجر نے مزید بتایا کہ ان کا ادارہ 'سٹار اسکولز‘ کے ذریعے پسماندہ علاقوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت اور روزگار سے متعلق تربیت بھی فراہم کر رہا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کمیونٹی اور مذہبی رہنماؤں کی شمولیت ناگزیر ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات

پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے اور اس کے اثرات لڑکیوں کی تعلیم پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے باعث اسکول تباہ ہو جاتے ہیں اور معاشی دباؤ کی وجہ سے والدین لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کو ترجیح دیتے ہیں۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'بیداری‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عنبرین عجائب نے بتایا، ''سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے کیونکہ خاندان 'بیٹی کے بوجھ‘ سے بچنے کے لیے اس کی جلد شادی کر دیتے ہیں۔

‘‘

انہوں نے تجویز دی کہ تباہ شدہ اسکولوں کی فوری بحالی، ہنگامی تعلیمی وظائف اور سماجی آگاہی مہمات کے ذریعے اس مسئلے سے نمٹا جا سکتا ہے۔

مسائل اور ان کا حل

ماہرین کے مطابق، لڑکیوں کی تعلیم کے لیے صرف مالی امداد یا پالیسیاں کافی نہیں۔ دیہی علاقوں میں اسکولوں کی تعداد اور معیار بڑھانے، محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کرنے اور سماجی رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

فجر رابعہ نے زور دیا، ''ماؤں اور مقامی کمیونٹی کی شمولیت کے بغیر کوئی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔‘‘

ماہرین کے مطابق پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے حکومتی اور نجی شعبے کی کوششیں قابلِ تحسین ہیں لیکن انہیں زمینی حقائق کے مطابق مزید جامع اور پائیدار بنانے کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں جیسے نئے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات اور سماجی شعور کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ملالہ یوسفزئی نے کہا، ''تعلیم صرف ایک حق نہیں بلکہ ہر لڑکی کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔‘‘

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • خیبرپختونخوا حکومت نے مدارس کیلیے گرانٹ 3 کروڑ سے بڑھا کر 10 کروڑ کردی
  • خیبر پختونخوا حکومت نے مدارس کی گرانٹ 3کروڑ سے بڑھا کر 10کروڑروپے کردی
  • کے پی حکومت نے دینی مدارس کیلئے گرانٹ بڑھا کر 10کروڑ روپےکر دی: بیرسٹرسیف
  • پختونخوا میں دینی مدارس کی گرانٹ 30 ملین سے بڑھا کر 100 ملین کر دی گئی
  • خیبر پختونخوا حکومت نے دینی مدارس کی گرانٹ 3 سے بڑھا کر 10 کروڑ روپے کر دی
  • کوفہ، گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی حضرت علی علیہ السلام کے گھر ’’دار امام علی‘‘ پر حاضری
  • نجف، گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی حضرت علی علیہ السلام کے گھر ’’دار امام علی‘‘ پر حاضری
  • پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم، بنیادی رکاوٹیں کیا ہیں؟
  • آٹزم کیا ہے؟
  • سندھ کے تعلیمی اداروں میں کیا ہورہا ہے؟