Express News:
2025-12-13@23:21:26 GMT

’’ایک اچھی پیش رفت یہی ہے کہ مذاکرات ہو رہے ہیں‘‘

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

لاہور:

گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ کے پی کا ایک ٹرائیکا ہے جس میں تین لوگ آتے ہیں، مولانا فضل الرحمن، علی امین گنڈاپور ہیں اور وہاں کے گورنر فیصل کریم کنڈی ہیں، اتفاق سے یہ تینوں ایک ہی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان سے ہیں، جب ایک ہی علاقے کے سیاستدان ہوتے ہیں تو انھوں نے محاذ گرم رکھنا ہوتا ہے۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا مولانا فضل الرحمن سیاسی قیدیوں کی رہائی کا ٹھیک مطالبہ کر رہے ہیں۔ 

تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ بات یہ ہے کہ جو حالات ہو چکے ہیں اگر ہم دیوار پر لکھا ہوا نہیں پڑھ سکتے تو پھر کیا کہہ سکتے ہیں، نابینا ہیں یا جاہل ہیں، ان دوباتوں میں سے ایک ہے، دیوار پر اب واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ اس ملک کے اندر کیا چل رہا ہے، عمران خان اگر جیل سے باہر نہیں آ رہے تو آپ یقین کر لیں کہ وہ اپنی مرضی سے نہیں آ رہے، کوئی دوسرا ایشو نہیں ہے۔ 

تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے جس طرح کی تجویز دی ہے انھوں نے سیاسی بلوغیت کا مظاہرہ کیا ہے، اسی پروگرام میںمیں نے بارہا کہا ہے کہ اگر آپ نے اعتماد سازی کرنی ہے تو سب سے پہلا اس کا اسٹیپ یہی ہے کہ آپ سیاسی قیدیوں کو رہا کریں، یہاں یہ تجویز مولانا صاحب کی طرف سے آئی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ تجویز پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے آنی چاہیے تھی۔ 

تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ عمران خان ہمیشہ چوائس کرتے ہیں ہیرے، وہ کپتان ہیں اور ٹیم اپنی مرضی سے بہترین سیٹ کر کے کھلاتے ہیں، بہرحال بات تو مذاکرات کی ہے جب کل پی ٹی آئی لسٹ دے گی تو حکومت نے جو ان کے اراکین ہیں اور اتحادی جماعتیں وہ پھرسارے مل کر پرائم منسٹر کے آگے چلے جائیں گے کہ جی یہ لسٹ ہے، ایسے میں ایک اچھی پیش رفت بہر حال یہی ہے کہ وہ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ 

تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے، گورنمنٹ نے جو کہا ہے کہ فہرست دیں اس میں سے کس کس کو سیاسی قیدی تسلیم کرتی ہے اور کس کو تسلیم نہیں کرتی، اس میں9 مئی کا بھی واقعہ ہے،جو فہرست دی جاتی ہے اگر اس میں بانی پی ٹی آئی کا نام بھی آجائے تو کیا اس کو بھی تسلیم کریں گے اور انھیں رہا کرنے کی بات کریں گے،یہ ساری چیزیں دیکھنی پڑیں گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تجزیہ کار نے کہا کہ

پڑھیں:

سابق سر براہ آئی ایس آئی فیض حمید کو 14برس قید بامشقت کی سزا              

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251212-01-36

 

 

راولپنڈی/اسلام آباد/چنیوٹ (خبرایجنسیاں +مانیٹرنگ ڈیسک) سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ملزم پر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، ریاست کے تحفظ اور مفاد کے لیے نقصان دہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور لوگوں کو غلط طریقے سے نقصان پہنچانے سے متعلق  4الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔آئی ایس پی آر نے کہا کہ طویل قانونی کارروائی کے بعد ملزم کو تمام الزامات میں قصوروار پایا گیا، عدالت نے 14 سال قید کی سزا 11 دسمبر 2025ء کو سنائی گئی۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام قانونی دفعات کی تعمیل کی، ملزم کو اپنی پسند کی دفاعی ٹیم کے حقوق سمیت تمام قانونی حقوق فراہم کیے گئے تھے، مجرم کو متعلقہ فورم پر اپیل کا حق حاصل ہے۔ آئی ایس پی آر نے کہا کہ سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر سیاسی اشتعال انگیزی اور عدم استحکام کو ہوا دینے اور بعض دیگر معاملات میں مجرم کے ملوث ہونے سے الگ سے نمٹا جا رہا ہے،مجرم کے سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر انتشار اور عدم استحکام پھیلانے سمیت دیگر معاملات میں مداخلت کے پہلو الگ سے دیکھے جا رہے ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ 12 اگست 2024ء کو پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کیا گیا، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے فیض حمید کو 14سال قیدبامشقت سنائی۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت شروع ہوا جو 15 ماہ تک جاری رہا۔آئی ایس پی آر نے کہا کہ طویل اور مفصل قانونی کارروائی کے بعد عدالت نے ملزم کو تمام الزامات میں قصوروار قرار دیا۔ادھر وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ اور مختلف سیاسی تجزیہ کاروں کی ۱جانب سے اس سزا پر آنے والے ردِعمل میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔خواجہ آصف نے ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ ’قوم برسوں فیض حمید اور جنرل (ر)قمر جاویدباجوہ کے بوئے بیجوں کی فصل کاٹے گی۔ اللہ ہمیں معاف کرے، طاقت اور اقتدار کو اللہ کی عطا سمجھ کر اس کی مخلوق کے لیے استعمال کی توفیق عطا فرمائے، خوف خدا حکمرانوں کا شیوہ بنے۔وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ ریڈ لائن کراس کرنے والے پی ٹی آئی کے سیاسی مشیر فیض حمید کے خلاف فیصلہ حق کی فتح ہے،  ان کا کہنا تھا کہ فیض حمید نے اپنی اتھارٹی کو غلط استعمال کیا، سیاسی معاملات کی مزید تحقیقات ہوں گی، فیض حمید تمام الزامات کے مرتکب پائے گئے، ٹاپ سٹی کیس میں بھی سزا ہوئی۔علاوہ ازیں وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ فیض حمید کا سیاست میں عمل دخل ثابت ہو گیا، فیض حمید کا ساتھ دینے والوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیے،فیض حمید اپنی سرکاری اورعسکری حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے رہے، میرے خلاف مقدمے میں بھی فیض حمید براہ راست ملوث تھے، سزا پر خوشی کااظہار نہیں کررہا،فیض حمید سیاسی سرگرمیوں میں ملوث تھے تو وہ اکیلے یہ کام نہیں کرسکتے تھے، کوئی سیاستدان ساتھ تھا،پی ٹی آئی قیادت ساتھ دے رہی تھی، جو سیاستدان شامل تھے ان کے خلاف بھی کارروائی .ہونی چاہیے۔دوسری جانب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے فیض حمید کے حوالے سے فوجی عدالت کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آج کے فیصلے سے واضح پیغام ہے کہ فیض حمید غیرقانونی کام کر رہے تھے۔چینیوٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فیض حمید سے متعلق تاریخی فیصلہ ہے تاہم فیض حمید کے خلاف مزید ٹرائل ابھی جاری ہے۔بلاول نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں گورنرراج سے متعلق باقاعدہ ڈسکشن نہیں ہوئی، پی ٹی آئی اپنے طرزعمل سے وفاق کو مجبور کر رہی ہے اور پی ٹی آئی کی سیاست خود ایسے حالات پیدا کرنا چاہ رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی دور میں مریم نواز اور فریال تالپور کو ٹارگٹ کیا گیا، آج عمران خان خود جیل میں ہے، یہ مکافات عمل ہے، بانی پی ٹی آئی بطور وزیراعظم طاقت کے نشے میں دھمکیاں دیتے تھے۔ چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے سیاست میں غلط روایات ڈالیں، نفرت اور انتشار کی سیاست کو پروان چڑھایا۔علاوہ ازیں سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ یہ تو ابتدا ہے،9 مئی کے مقدمات باقی ہیں اور جس سیاسی پارٹی نے کیا اس کا فیصلہ دیوار پر نظر آرہا ہے، یہ انصاف کا لمبا سلسلہ ہے جو رکے گا نہیں،اس فیصلے سے واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان سے بڑا کسی کا بھی باپ نہیں، اب سزا اور جزا کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔وزیر مملکت داخلہ طلال چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان کے طاقتور اداروں میں احتساب ممکن ہو رہا ہے اور اب یہ محض ایک خواب نہیں رہا۔ انہوں نے فیض حمید کی سزا کو اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کے لیے واضح مثال قرار دیا۔انہوںنے مزید کہا کہ 9 مئی کے تمام کیسز میں فوج نے اپنے ہی افراد کے خلاف بھی کارروائی کی، جو احتساب کے عمل میں شفافیت اور برابری کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طاقتور افراد بھی قانون کے دائرے سے باہر نہیں ہیں، اور آئندہ بھی قانون کی بالا دستی برقرار رہے گی۔مزید برآں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ فیض حمید اس کے جرائم کی حقیقی سزا ابھی نہیں ملی، چائے کا کپ پکڑ کر کابل میں 40 ہزار دہشت گردوں کو منظم کرنے والا آج بھی احتساب سے بچا ہی ہوا ہے۔ فیض باجوہ عمران گٹھ جوڑ کے سارے “فیضیاب” آج بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ایمل ولی خان کے بقول فیض حمید کے جرائم اس کو ملنے والی سزا سے کہیں زیادہ بھیانک ہیں۔

خبر ایجنسی مانیٹرنگ ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • چہرہ کی شادابی
  • معاشی چیلنجز اور سیاسی پیچیدگیاں
  • سابق سر براہ آئی ایس آئی فیض حمید کو 14برس قید بامشقت کی سزا              
  • پاکستان اور افغانستان سفارت کاری سے مسائل حل کریں‘روسی سفیر
  • فیض حمید کو ان کے جرائم کی اصل سزا نہیں ملی: ایمل ولی خان
  • فیض حمید کو ان کے جرائم کی حقیقی سزا نہیں ملی، صدر اے این پی
  • عمران خان نے مذاکرات کا اختیار محمود اچکزئی اور علامہ راجہ ناصر عباس کو دیا ہے، سہیل آفریدی
  • بیانیوں کی جنگ: جب سیاست قومی سلامتی بن جائے
  • ٹکراؤ کی سیاست کے مضمرات
  • اپوزیشن حالات کو اس نہج پر لے گئی جہاں سے واپسی ممکن نہیں، ایاز صادق