واشنگٹن (صباح نیوز) وائٹ ہائوس کے سینئر عہدیدار جان کربی نے واضح کیا ہے کہ پاکستان نے گزشتہ برسوں کے دوران انسداد دہشت گردی کی امریکی کوششوں میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن وہ کبھی بھی معاہدے کی ذمہ داریوں کا پابند باضابطہ اتحادی نہیں رہا۔ واشنگٹن میں ایک بریفنگ کے دوران وائٹ ہائوس کے قومی سلامتی کے مواصلاتی مشیر جان کربی نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی نوعیت پر کھل کر بات کی
اور کسی باضابطہ دفاعی معاہدے کی عدم موجودگی پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کبھی بھی امریکا کا تکنیکی اتحادی نہیں رہا، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرا مطلب ہے کہ پاکستان کے ساتھ اتحاد کا کوئی معاہدہ نہیں تھا‘ اس کے باوجود جان کربی نے خاص طور پر غیر مستحکم افغانستان-پاکستان سرحدی علاقے میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی طویل تاریخ پر زور دیا۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران ہم نے کئی سال دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مناسب طور پر پاکستان کے ساتھ شراکت داری کی ہے جو اب بھی افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی علاقوں میں موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی جان کربی نے پاکستان میں دہشت گردی کی انسانی قیمت کا بھی اعتراف کیا اور تسلیم کیا کہ اس کے شہری اب بھی سرحد پار تشدد کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان اور پاکستانی عوام اب بھی سرحد پار سے آنے والے دہشت گردانہ تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان مشترکہ خطرات اور مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور جب تک ہم یہاں رہیں گے، یہ تبدیل نہیں ہوگا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کہ پاکستان کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

تیزی سے پھیلنے والے سپر فلو وائرس کی پاکستان میں موجودگی کی باضابطہ تصدیق

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والے سپر فلو وائرس نے عالمی صحت کے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور اب اس وائرس کی پاکستان میں موجودگی کی بھی تصدیق ہو گئی ہے، جس کے بعد ملک میں احتیاطی اقدامات کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے، فلو کی یہ نئی قسم معمول کے موسمی انفلوئنزا سے مختلف ضرور ہے، مگر اس کا پھیلاؤ غیر معمولی رفتار اختیار کر چکا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق انفلوئنزا اے (A) کی نئی قسم H3N2 کے ذیلی گروپ ’سب کلاڈ K‘ کے باعث برطانیہ سمیت متعدد یورپی ممالک میں فلو کے کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ یورپی خطے میں موسمِ سرما کے آغاز سے پہلے ہی وائرس کے پھیلنے نے صحت کے نظام پر دباؤ بڑھا دیا ہے، جسے ماہرین غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔

محکمۂ صحت برطانیہ کے مطابق اسپتالوں میں روزانہ اوسطاً 2600 سے زائد مریض داخل ہو رہے ہیں، جو گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں تقریباً 50 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

برطانوی وزیر صحت کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کووڈ-19 کے بعد اسپتالوں پر پڑنے والا سب سے بڑا دباؤ ہے۔ تاہم عالمی ادارۂ صحت کا مؤقف ہے کہ اگرچہ یہ نئی قسم زیادہ مہلک نہیں، مگر اس کی قبل از وقت اور تیز رفتار منتقلی تشویش کا باعث ضرور ہے۔

رپورٹس کے مطابق سپر فلو سے بچوں اور بزرگ افراد سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، جس کے پیشِ نظر برطانیہ میں متعدد اسکولز کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے جبکہ کچھ تعلیمی اداروں میں اوقاتِ کار محدود کر دیے گئے ہیں تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بھی اس وائرس کی موجودگی سامنے آ چکی ہے، ملک میں لیے گئے نمونوں میں سے تقریباً 20 فیصد میں انفلوئنزا A(H3N2) کے ذیلی گروپ ’سب کلاڈ K‘ کی تصدیق ہوئی ہے، جس کے بعد طبی حلقوں میں تشویش پائی جا رہی ہے۔

اس حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے معروف ماہرِ وبائی امراض ڈاکٹر رانا جواد اصغر نے بتایا کہ سپر فلو کی علامات عام انفلوئنزا سے زیادہ مختلف نہیں ہوتیں، متاثرہ افراد میں سر درد، بخار، نزلہ، جسم میں درد اور نقاہت جیسی علامات سامنے آتی ہیں، تاہم کیسز کی تعداد معمول سے کہیں زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے سپر فلو کہا جا رہا ہے۔

ماہرِ وبائی امراض ڈاکٹر رانا جواد اصغر کا کہنا تھا کہ اس وائرس کو سپر فلو قرار دینے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں کچھ جینیاتی تبدیلیاں سامنے آئی ہیں، جس کے باعث اس کی منتقلی کی رفتار بڑھ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ احتیاطی تدابیر وہی ہیں جو عام فلو سے بچاؤ کے لیے اختیار کی جاتی ہیں، تاہم بچوں اور بڑی عمر کے افراد کے لیے فلو ویکسین خاص طور پر اہم ہے، کئی مغربی ممالک میں بچوں اور بزرگوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو بھی فلو کی ویکسین لگائی جا رہی ہے۔

ماہرین نے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ جن افراد میں فلو جیسی علامات ہوں وہ اسکول یا دفاتر جانے سے گریز کریں، متاثرہ افراد سے ہاتھ ملانے اور غیر ضروری میل جول سے پرہیز کیا جائے، تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ طبی ماہرین کے مطابق بروقت احتیاط اور آگاہی ہی اس تیزی سے پھیلنے والے سپر فلو کے اثرات کو محدود کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔

ویب ڈیسک دانیال عدنان

متعلقہ مضامین

  • تیزی سے پھیلنے والے سپر فلو وائرس کی پاکستان میں موجودگی کی باضابطہ تصدیق
  • لکس اسٹائل ایوارڈز: نامزد امیدواروں نے ایوارڈ کی شفافیت پر سوال اٹھادیا
  • اصلاحات اور استحکام کے بعد پاکستان امریکا کے لیے اسٹریٹجک شراکت دار کے طور پر ابھرنے لگا
  • امریکی کانگریس میں بھارت سے تعلقات میں جمود، پاکستان کو کلیدی شراکت دار قرار دینے پر بحث
  • امریکا چاہتا ہے کہ یوکرین ڈونباس سے مکمل دستبردار ہو جائے، زیلنسکی
  • پاک فوج، پیپلز لبریشن آرمی کی انسداد دہشت گردی مشق جاری: مضبوط دفاعی تعاون کی عکاس، آئی ایس پی آر
  • افغان سرزمین سے جنم لینے والی دہشت گردی سب سے بڑا خطرہ ہے‘ پاکستان
  • امریکا، آسٹریلیا اور برطانیہ نے سہ فریقی سلامتی شراکت داری کے عزم کی تجدید کی
  • افغان سرزمین سے دہشتگردی ’سب سے بڑا خطرہ‘ ہے، پاکستان
  • SICPAپاکستان کا ملک میں شاندار خدمات اور شراکت داری کا 30 سالہ جشن