سلطان چاولہ چیئرمین پی این ایس سی جاول کے برآمدکنندگان سے خطاب کر رہے ہیں

کراچی (کامرس رپورٹر)سلطان چاولہ چیئرمین PNSC نے REAP کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا اور 3.9 ارب ڈالر کے حصول پر REAPکی کوششوں کو سراہا ۔ انہوں نے عبدالرحیم جانو کی تجویز کی تائید کی کہ چاول کی برآمدی کارگو کے لیے ہماری نیشنل فلیگ شپنگ کمپنی کو استعمال کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ برآمدکنندگان کی طرف سے شپنگ کمپنیوں کو سالانہ تقریباََ 300 ملین ڈالر ادا کئے جاتے ہیں ۔ انہوں نے REAP کے ممبران کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔جاوید جیلانی سینئر وائس چیئرمین REAP نے بتایا کہ حال ہی میں بڑی مقدار میں چاول بنگلہ دیش کو برآمد کیے گئے ہیں اور امید ہے بنگلہ دیش آئندہ مہینوں میں پاکستان سے مزید چاول کی خریداری کرے گا جو کہ PNSC کے ذریعے ترسیل کیا جائے گا ۔ تقریب کے اختتام پر عبد الرحیم جانو، جاوید جیلانی ، مہیش کمار اور مینیجنگ کمیٹی کے ممبران نے چیئرمین PNSC کو REAP کی شیلڈ اور سووینئر پیش کیا۔عبدالرحیم جانو، گروپ چیئرمین کی دعوت پرسلطان احمد چاولہ چیئرمین پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (PNSC) نے اپنی کمرشل ٹیم کے ساتھ REAP ہاؤس کراچی کا دورہ کیا۔ اس موقع پر جاوید جیلانی سینیئر وائس چیئرمین REAP، ممبران مینیجنگ کمیٹی REAPمہیش کمار تلریجا، رفیق سلیمان، جیتندر کمار، محمد خرم کے علاوہ چاول کے برآمد کنندگان کی بڑی تعداد موجود تھی۔تقریب سے استقبالیہ خطاب کرتے ہوئے عبدالرحیم جانو نے چاول کے برآمدی شعبے کی کامیابیوں کومختصراً بیان کیا جو کہ 300 ملین ڈالر سے شروع ہو کر 2 ارب ڈالر اور گزشتہ سال 3.

9 ارب ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ حاصل کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی قیادت میں REAP نے مختلف اقدامات کیے، تجارتی وفود بھیجے اور دنیا کے کئی ممالک میں بریانی فیسٹیول کا انعقاد کیا۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انہوں نے

پڑھیں:

آدرشی بزرگوں کی آخری کڑی

آئی پی ایس سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وقت نہیں مل سکتا۔ یہ قابل فہم تھا کیوں کہ پروفیسر خورشید احمد نہ کسی عام عالم کی طرح عالم تھے، نہ عام سیاست دان کی طرح سیاست داں اورنہ وہ ہمارے دیکھے بھالے پارلیمنٹیرینز جیسے تھے۔ میں مایوس تو ہوا لیکن ہمت نہ ہاری، جماعت اسلامی کے اجتماع عام منعقدہ مینار پاکستان پہنچ گیا اور اس کے انٹرنیشنل سیشن کے بعد پروفیسر صاحب کا پیچھا کرتا ہوا رہائشی علاقے میں داخل ہو گیا۔ انھیں بھی شاید احساس ہو گیا تھا کہ کوئی ان کے ’نقش قدم‘پر چلتا آرہا ہے۔ بس، اس نادر موقع سے فایدہ اٹھا کر اپنی رفتار بڑھائی اور ان کے شانہ بہ شانہ چلتے ہوئے عرض کی:

’آپ کے چند منٹ درکار ہیں۔‘

’کس موضوع پر۔‘

جیسے جیسے ان کی عمر بڑھ رہی تھی، ان کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ کی تعداد اورگفتگو کی رفتار میں بھی اضافہ ہو رہا تھا، اس وجہ سے پہلی بار ملنے والوں کی سمجھ میں ان کی بات ذرا دیر سے آتی تھی۔ میرے پوچھے گئے سوال کی رفتار بھی اگرچہ تیز تھی لیکن خوش قسمتی سے نہ صرف الفاظ کم تھے بلکہ ان کا لہجہ بھی میرا دیکھا بھالا تھا، اس لیے مجھے بات سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی اور میں نے کہا کہ صلاح الدین صاحب کے بارے میں۔ فوراً رک گئے اور کہا:

’آؤ، یہاں بیٹھ جاتے ہیں۔‘

انھوں نے ایک خالی خیمے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ دو قدم بڑھا کر ہم اس میں داخل ہو گئے۔ ایک پر ہجوم اجتماع میں یہ پر سکون گوشہ تھا جس کے عین وسط میں جا کر وہ شخص بے تکلفی سے دری پر بیٹھ گیا، کچھ روز پہلے تک جس کے بارے میں مجھے خیال تھا کہ اس سے شاید کبھی وقت نہ مل سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاثر اور حقیقت ہمیشہ ایک سے نہیں ہوتے۔ میں نے خود اپنے آپ کو بتایا۔

’صلاح الدین‘

وہ آلتی مار کر بیٹھ گئے اور انھوں نے ’تکبیر‘کے شہید بانی کا نام لیا، لحظہ توقف کیا پھر کہا:

’محض صحافی نہ تھے۔‘

اپنی عادت کے برعکس انھوں نے پھر توقف کیا اور کہا کہ فی الاصل ایک استاد تھے، ان کی صحافت کو نہیں سمجھا جا سکتا اگر ان کی شخصیت کے اس پہلو کو پیش نظر نہ رکھا جائے۔یوں لگا جیسے ایک جھپاکا سا ہوا ہے اور مجھ پر کوئی نیا پہلو منکشف ہو گیا ہے۔ یہ کوئی راز تو نہیں تھا کہ صلاح الدین صاحب نے اپنے کیریئر کا آغاز اسکول ٹیچر کی حیثیت سے کیا تھا۔

یہ بات بتائی بھی جاتی تھی کہ صلاح الدین صاحب اصلاً تو ایک محنت کش تھے جو زینہ بہ زینہ آگے بڑھے لیکن ان کی صحافت کو سمجھنے کے لیے اس پس منظر پر توجہ دینا بھی ضروری ہے، یہ بات صرف خورشید صاحب نے کہی۔ یوں اس روز میں نے معاملات کو سمجھنے کا ایک نیا قرینہ سیکھا۔ اس روز میری سمجھ میں یہ بھی آیا کہ بڑا آدمی صرف وہ نہیں ہوتا جس سے ملنا مشکل ہو بلکہ وہ ہوتا ہے جس سے ملاقات ہو تو کچھ سیکھنے کو بھی ملے۔’ایسی خوبیاں کسی شخص میں کیسے پیدا ہو سکتی ہیں؟‘میں نے خود پروفیسر خورشید احمد کی میتھاڈولوجی کے تحت اس سوال پر غور کیا پھر میرے سامنے حیرت کا ایک جہاں کھلتا چلا گیا۔

نذیر احمد قریشی نے غیر منقسم ہندوستان کے چھوٹے سے شہر جالندھر کا ماحول اپنی تجارت کے لیے ناکافی پایا تو وہ دلی منتقل ہو گئے ۔ وہ بے چینی کا زمانہ تھا جیسے تحریک خلافت اور اس کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی جو بہ تدریج تحریک پاکستان میں منقلب ہوئی۔ نذیر احمد قریشی کے تعلقات ان تحریکوں کی صف اول کی قیادت کے ساتھ تھے جیسے حکیم اجمل خان مرحوم، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی۔ بعد کے برسوں میں ان کے دوستوں میں ایک اور دانش ور کا اِضافہ ہوا تھا جنھیں لوگ ابو الاعلیٰ کے نام سے جانتے تھے۔

بعد کے برسوں میں علامہ اقبالؒ کے مشورے سے انھوں نے پنجاب منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور پٹھان کوٹ میں دارالاسلام کے نام سے ایک ادارہ بنایا تو ان مراحل میں ابوالاعلیٰ کو قریشی صاحب کے مشورے اور تعاون بھی حاصل تھا۔ان ہی قریشی صاحب کے یہاں بیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں ان کے منجھلے بیٹے کی ولادت ہوئی جس کا نام انھوں نے خورشید احمد رکھا۔ ہند اسلامی تہذیب میں جیسا کہ ہوتا تھا، بچوں کی تربیت کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی نشست و برخاست پر بھی توجہ دی جاتی اور بزرگوں کی نشستوں کی پچھلی صفوں میں بچوں اور نوعمروں کو جگہ دی جاتی تاکہ نہ صرف یہ کہ اپنے ماحول اور تہذیب سے وابستہ رہیں بلکہ ان مقاصد کو بھی سمجھ سکیں، آئندہ زندگی میں جن کے لیے انھیں کام کرنا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد نذیر احمد قریشی کا خاندان کراچی منتقل ہوا تو اس زمانے میں معاشیات کے ہونہار طالب علم خورشید احمد کیوں نمایاں ہوئے اورکیسے ان کی شخصیت میں وسعت اور کشادگی پیدا ہوئی جیسے طلبہ سیاست میں دل چسپی، تصنیف و تالیف اور صحافت، اس کے ساتھ ساتھ ادارہ سازی۔ نذیر احمد قریشی صاحب کی تہذیبی، علمی اور سیاسی دل چسپیوں پر توجہ دی جائے تو پھر یہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ خورشید احمد جیسی شخصیت کیسے وجود میں آئی۔ ندا فاضلی مرحوم کا ایک شعر ہے :

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی

جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

یہ شعر پروفیسر خورشید احمد کی شخصیت پر پوری طرح صادق آتا ہے۔

پروفیسر خورشید احمد کی شخصیت کا مجموعی تاثر ایک عالم اور دانش ور کا ہے۔ ایسے لوگ سنجیدہ، نفیس اور لیے دیے سے ہوتے ہیں، اگر وہ اپنے لیے سیاست کی وادی پرخار کاانتخاب کریںبھی کریں تو ان کی سرگرمیوں میں بالائی طبقے کا رکھ رکھاؤ نمایاں دکھائی دیتا ہے لیکن پروفیسر خورشید احمد کی کتاب ’تذکرہ زنداں ‘بتاتی ہے کہ اس عالم اور دانش ور نے اپنے مقصد زندگی کو پانے کے لیے سیاست کو منتخب کیا تو اس نے اس راستے کی تمام سختیاں بھی ایک عام سیاسی کارکن کی طرح برداشت کیں۔ ایک متمول تاجر کے لخت جگر میں یہ صلاحیت کیسے پیدا ہوئی، علی برادران سے لے کر ابو الاعلی مودودیؒ تک نذیر احمد قریشی کے دوستوں کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ راز آسانی کے ساتھ کھل جاتا ہے۔

پروفیسر خورشید احمد جماعت اسلامی کا دست و بازو یقیناً اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے بنے ہوں جسے مسلم برصغیر کے زعما اور مفکرین دیکھتے آئے ہیں یعنی ایک ایسے آئیڈیل معاشرے کا قیام جس میں استحصال کو دخل نہ ہو لہٰذا پروفیسر خورشید احمد کی علمی سرگرمیوں کے بیش تر حصے پر یہی پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ اپنے طویل علمی سفر کے دوران میں انھوں نے یقیناً محسوس کیا ہو گا کہ یہ ایک آدمی کا کام نہیں لہٰذا انھوں نے ادارہ سازی پر توجہ دی۔ ممتاز تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)کے قیام کے پس پشت بھی ابتدا میں یہی مقصد کار فرما تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی دل چسپی کے دائرے میں وسعت آتی چلی گئی۔

جامعیت کی یہی کیفیت خود پروفیسر خورشید احمد کی شخصیت میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس کا ایک سبب ہو سکتا ہے۔ جماعت اسلامی میں نمایاں حیثیت رکھنے کے باوصف عالمی سطح پر اسلام کا فروغ اور مسلم دنیا کے سیاسی مسائل انھیں یقینا متوجہ کرتے ہوں گے یا جماعت اسلامی ان سے توقع رکھتی ہوگی لہٰذا ان کی پہلی علمی دل چسپی یعنی معاشیات سے جنم لینے والی علمی سرگرمیوں کا دائرہ بہ تدریج وسیع ہوتا چلا گیا یوں ان کی شناخت مسلم دنیا کے اور نمایاں اور وژنری دانش ور کے طور پر مضبوط ہوتی چلی گئی۔

ایسی کیفیات حالات کے جبر سے پیدا ہوتی ہیں۔ حالات کے اس جبر نے پروفیسر خورشید احمد کی بنیادی دل چسپی یعنی اسلامی معاشیات کے موضوع کو متاثر کیا یا نہیں، اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی لیکن اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ پروفیسر خورشید احمدبرصغیر کے آدرشی بزرگوں کی وہ آخری کڑی تھے جس کی چکا چوند نے ہماری آنکھیں خیرہ کیں اور اس بزرگ نے ایک بامقصد اور خوب صورت زندگی بسر کر کے آنے والی نسلوں کے لیے کام کرنے کے راستے کا تعین کردیا۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اربوں ڈالر موٹروے منصوبوں کا آغاز رواں سال ہوگا
  • وفاقی حکومت نے پاکستان کے نوجوانوں کی سماجی و معاشی خودمختاری کے لیے درجنوں پروگرامز شروع کیے ہیں،چیئرمین یوتھ پروگرام رانا مشہود
  • ٹیکسٹائل برآمدات 13.613 بلین ڈالر کی بلند ترین سطح پر، وزیراعظم کا 9.38 فیصد اضافے کا خیر مقدم
  • آدرشی بزرگوں کی آخری کڑی
  • دبئی میں پراپرٹی کی تاریخی فروخت و فروخت، 3 ماہ میں 38 ارب ڈالر کے سودے
  • محسن نقوی کی سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید احمد المالکی سے ملاقات
  • مودی حکومت کو ہٹ دھرمی چھوڑ کر مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنا چاہیئے، سرفراز احمد صدیقی
  • آئی پی پیز ہر سال اربوں ڈالر کا چونا حکومت کو لگا رہے ہیں، خواجہ آصف
  • چین بنگلہ دیش میں 2.1 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے پرعزم
  • گڈز ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال سے چاول کی برآمدات بھی متاثر، 2 کروڑ ڈالر کا نقصان