اقتصادی ترقی کے لئے اہم اداروں کو با اختیار بنانا ضروری ہے
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
کراچی(کامرس رپورٹر)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، ایف پی سی سی ائی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین اورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ اقتصادی ترقی کی رفتاربڑھانے کے لئے اہم اداروں کومستحکم بنانا ضروری ہے۔ اداروں کوبا اختیار بنانے کے لئے ان میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ اور انتظامیہ کی میرٹ پرتعیناتی ضروری ہے۔ اداروں کی خود مختاری اورمیرٹ پرفیصلوں کے بغیرملکی وغیر ملکی سرمایہ کاری بڑھانا مشکل ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں زیادہ وقت ایسا گزرا ہے جب اداروں میں گورننس کا فقدان رہا ہے، فیصلے میرٹ پر نہیں کئے گئے اورسیاسی مداخلت عروج پررہی جس سے بہت سے ادارے تومفلوج ہوگئے جبکہ زیادہ ترکی کارکردگی مایوس کن حد تک گرگئی۔ جب اہم ادارے زوال پزیرہوں توترقی کی رفتارکیسے بڑھ سکتی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ اداروں کی فعالیت اورقوانین کے معاملہ میں پاکستان اپنے پڑوسی ممالک سے بہت پیچھے ہے جس کا اثرسرمایہ کاروں، عوام اورمعیشت پرپڑتا ہے۔ غیرضروری سیاسی مداخلت کی وجہ سے اہم سرکاری ادارے ملکی ترقی میں کردار ادا کرنے کے بجائے ایک بوجھ بن گئے ہیں جنھیں زندہ رکھنے کے لئے ہرسال کھربوں روپے ضائع کرنا پڑتے ہیں۔ قابل افسران کھڈے لائن لگا دئیے جاتے ہیں جبکہ ترقی کے لئے قابلیت محنت اورایمانداری کے بجائے سیاسی تعلقات زیادہ اہم تصور کئے جاتے ہیں ۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لئے
پڑھیں:
دریائے سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا
پانی کی شدید کمی کے باعث کوٹری بیراج پر پانی کی قلت 30 فیصد تک جا پہنچی
پانی کی قلت کے باعث زرعی مقاصد کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے، محکمۂ آبپاشی
دریائے سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے ،دریائے سندھ میں پانی کی شدید کمی کے باعث کوٹری بیراج پر پانی کی قلت 30 فیصد تک جا پہنچی۔محکمہ آبپاشی کے اعداد و شمار کے مطابق کوٹری بیراج کے اپ اسٹریم میں پانی کی آمد 4600کیوسک جبکہ ڈائون اسٹریم میں محض 190کیوسک اخراج کیا جا رہا ہے ۔ 2023ء کے اپریل میں کوٹری بیراج اپ اسٹریم میں پانی کی آمد 8900کیوسک اور 2024ء کے اپریل میں 5000کیوسک ریکارڈ کی گئی تھی، یہ اعداد و شمار ہر سال پانی کم سے کم ہونے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔محکمۂ آبپاشی کے مطابق پانی کی قلت کے باعث زرعی مقاصد کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے ، صرف پینے کا پانی دستیاب ہے ۔محکمہْ زراعت کے مطابق پانی کی کمی کے اثرات فصلوں پر بھی مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔خریف کے سیزن میں سندھ کے اندر گزشتہ 5 سال کے دوران پونے 5 سے سوا 6 لاکھ ہیکٹر پر کپاس کی فصل کاشت کی گئی ہے ۔ اسی طرح 2 لاکھ 79 ہزار سے 2 لاکھ 95 ہزار ہیکٹر پر گنے کی فصل کاشت کی گئی، 7 لاکھ 8 ہزار سے 8 لاکھ 11 ہزار ہیکٹر تک چاول کی فصل کاشت کی گئی ہے ۔ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سندھ میں پانی کی قلت جاری رہی تو سندھ کی زراعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔محکمہْ آبپاشی، زراعت اور آبادگاروں کو امید ہے کہ بارشیں ہونے کی صورت میں صورتِ حال بہتر ہو جائے گی۔