بنگلہ دیش کے آئینی ریفارمز کمیشن نے آئین سے کون سے 3 اصول نکالنے کی تجویز دی؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
بنگلہ دیش کے آئینی ریفارمز کمیشن نے ملکی آئین سے سیکولرازم، نیشنلزم اور سوشلزم کو ختم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
بنگلہ دیش کے آئینی اصلاحاتی کمیشن نے ملک کے آئین سے 3 ضروری اصولوں قوم پرستی، سوشلزم اور سیکولرازم کو ہٹانے کی تجویز دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ملک میں جمہوریت ہی واحد اصول رہنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش کے ’نئے بانی‘ اور فہمیدہ ریاض کی ایک پرانی کتاب
اصلاحاتی کمیشن نے آئین میں 4 نئی اقدار مساوات، انسانی وقار، سماجی انصاف اور تکثیریت کو شامل کرنے کی تجویز دی ہے، ان تبدیلیوں کا مقصد بنگلہ دیش کی 1971 کی جنگ آزادی اور 2024 کے عوامی احتجاج کے جذبے کی عکاسی کرنا ہے۔
کمیشن نے یہ بھی تجویز کیا ہے کہ عوام قومی ریفرنڈم کے ذریعے آئینی تبدیلیوں کی منظوری دیں، کمیشن کے سربراہ پروفیسر علی ریاض نے یہ اصلاحاتی تجویز چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس کو ڈھاکہ میں ان کے دفتر میں پیش کی۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش کے اعلان آزادی کے حوالے سے نصاب میں تاریخی درستی کا فیصلہ
اس حوالے سے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اصلاحاتی کمیشن کی سفارشات کا سیاسی جماعتوں کے ساتھ جائزہ لیا جائے گا اور کثرت رائے سے تجاویز پرعمل درآمد کیا جائے گا۔
حکومتی عہدیداران کا خیال ہے کہ یہ تبدیلیاں ملک کو زیادہ جامع اور منصفانہ سیاسی نظام کے قریب لاسکتی ہیں، وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ آئین ماضی کی جدوجہد اور شہریوں کے موجودہ مطالبات دونوں کی عکاسی کرے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آئین بنگلہ دیش ریفارمز کمیشن سوشلزم سیکولرازم قوم پرستی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بنگلہ دیش قوم پرستی بنگلہ دیش کے
پڑھیں:
فیکٹ چیک: کیا سابق چینی وزیر اعظم نے واقعی سزائے موت کی تجویز دی؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) بیشتر لاطینی امریکی ممالک میں سزائے موت تو ختم کر دی گئی ہے لیکن آج بھی وہاں اس موضوع پر کبھی کبھی عوامی سطح پر بحث کی جاتی ہے۔ اور اکثر اس بحث میں غلط معلومات یا مس انفارمیشن کا عنصر بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
مثلاﹰ اس حوالے سے یہ دعویٰ سامنے آیا: ''چین نے ترقی کے حصول کے لیے پیرو اور لاطینی امریکی ممالک کو سزائے موت (نافذ کرنے) کی تجویز دی۔
‘‘لیکن کیا ایسا واقعی ہوا؟ یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو کی فیکٹ چیک ٹیم نے اس پر تحقیق کی۔
دعویٰ کہاں سامنے آیا؟یہ دعویٰ ایک فیس بک پوسٹ میں کیا گیا، جسے تقریباﹰ 35,000 صارفین نے شیئر کیا۔
اس پوسٹ میں کہا گیا تھا، ''سابق چینی وزیر اعظم ون جیاباؤ نے کولمبیا، وینیزویلا، ایکواڈور، پیرو اور بولیویا سمیت لاطینی امریکی اور وسطی امریکی ممالک کو وہاں سلامتی سے متعلق بحران کے حل اور اس سے بھی بڑھ کر ترقی کے حصول کے لیے سزائے موت کے نفاذ کی تجویز دی ہے۔
(جاری ہے)
‘‘اس پوسٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ون جیاباؤ نے بدعنوان سیاستدانوں کو سزائے موت دینے اور ان کی تنخواہوں میں کمی کی حمایت کی۔
فیس بک کے علاوہ یہ پوسٹس ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی گردش کرتی رہیں۔
فیکٹ چیک ٹیم کی تحقیق کا نتیجہڈی ڈبلیو کی فیکٹ چیک ٹیم کی جانب سے تحقیق کے بعد اس دعوے کے مستند ہونے کے کوئی ثبوت و شواہد نہیں ملے۔
تو اس طرح یہ دعویٰ غیر مصدقہ ہی رہا۔تحقیق کے دوران ایسے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوں کہ ون جیاباؤ نے کبھی بھی کوئی ایسا بیان دیا ہو جس میں انہوں نے سزائے موت کو ترقی سے منسلک کیا ہو۔ اس حوالے سے ہسپانوی اور چینی دونوں زبانوں میں متعلقہ کی ورڈز کی سرچ بھی کی گئی، لیکن اس دعوے کو ثابت کرتی کوئی مستند خبر یا سرکاری ریکارڈز نہیں ملے۔
اور چینی وزارت خارجہ کی آفیشل ویب سائٹ پر بھی یہ بیان موجود نہیں ہے۔چینی میڈیا کے مطابق ون جیاباؤ نے سزائے موت کے موضوع پر 14 مارچ 2005ء کو ایک پریس کانفرنس کے دوران بات کی تھی۔ ایک جرمن صحافی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا: ''موجودہ ملکی صورتحال کے پیش نظر چین سزائے موت ختم نہیں کر سکتا لیکن ایک نظام کے تحت یہ یقینی بنایا جائے گا کہ سزائے موت منصفانہ طریقے سے دی جائے اور اس میں احتیاط برتی جائے۔
‘‘اس موضوع پر ون جیاباؤ کا عوامی سطح پر دیا گیا یہ واحد بیان ہے جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس بیان میں وہ صرف چین کے حوالے سے بات کر رہے تھے اور انہوں نے لاطینی امریکی ممالک کا کوئی ذکر نہیں کیا، نہ ہی کسی اور ملک کو کوئی تجویز دی۔
پھر بھی دیگر ممالک کو سزائے موت کی تجویز دینے کا بیان ان سے کئی برسوں سے منسلک کیا جاتا رہا ہے۔
اسے 2015ء سے کئی ویب سائٹس نے شائع کیا ہے، تاہم قابل اعتبار ذرائع کا حوالہ دیے بغیر۔تو یہاں یہ بات بھی اہم ہو جاتی ہے کہ ون جیاباؤ صرف 2012ء تک ہی چین کے وزیر اعظم رہے تھے۔ ایسے میں اس بات کا امکان بہت کم ہے انہوں نے 2015ء یا اس کے بعد ایسا کوئی بیان دیا ہو گا۔
کیا تصویر میں واقعی ون جیاباؤ ہی ہیں؟اس پوسٹ میں مبینہ طور پر ون جیاباؤ کی تصویر بھی لگائی گئی ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی تصویر میں موجود شخص ون جیاباؤ ہی ہیں۔
اس تصویر میں وہ اپنی دیگر تصویروں سے کچھ مختلف نظر آ رہے ہیں۔ سال 2012 سے پہلے لی گئی تصویروں میں ون جیاباؤ کے بال کم تھے۔ یہ کمی بالخصوص ان کی پیشانی کے پاس یعنی ہیئر لائن میں واضح تھی۔ تاہم اس تصویر میں ان کی ہیئر لائن قدرے گھنی نظر آتی ہے۔
اسی طرح ان کی دیگر تصاویر کے مقابلے میں اس فوٹو میں ان کی ناک، کان اور ہونٹ بھی کچھ مختلف لگ رہے ہیں۔
علاوہ ازیں، کہا جاتا ہے کہ کئی تصاویر میں ون جیاباؤ کے چہرے پر کچھ داغ نمایاں رہے ہیں، لیکن اس تصویر میں ایسا نہیں ہے۔
چناچہ ڈی ڈبلیو کی فیکٹ چیک ٹیم نے اس فیس بک پوسٹ میں استعمال کی گئی تصویر کی ریروس امیج سرچ کی، لیکن اس میں موجود شخص کی شناخت کے حوالے سے کوئی حتمی ثبوت نہیں مل سکا۔
(مونیر قائدی، ہواوہ سمیلا محمد، ہوان ہو) م ا / ر ب