Islam Times:
2025-04-23@09:30:08 GMT

امریکیوں پر عذاب؟

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

امریکیوں پر عذاب؟

اسلام ٹائمز: ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ اس جلتے ہوئے کیلیفورنا کی عوام نے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں جس طرح کی آواز بلند کی تھی اس طرح کی صدائے احتجاج ہم نے کئی بڑے بڑے مسلم ممالک کے دارالحکومتوں میں بھی نہیں سنی۔ یہی کیلیفورنیا تھا جس کے طلباء نے فلسطینیوں کی حمایت میں وہ کردار ادا کیا جو پاکستان میں اقبال کے شاہین صفت نوجوانوں نے بھی ادا نہیں کیا۔ تحریر: سید تنویر حیدر
                      
”کیلی فورنیا“ آج کل آگ کے طوفان کی لپیٹ میں ہے۔ آگ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ آگ کے ان شعلوں کو بھڑکانے میں ہوا نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس آگ کو ٹھنڈا کرنے میں پانی اپنا کردار ادا کر سکتا تھا لیکن آسمان سے بارش نہ برسنے اور زمین پر پانی کے ذخیرے میں کمی نے آگ کو آزاد چھوڑ دیا ہے اور اب آگ کے شعلے ہیں اور ہوا کے تھپیڑے ہیں جو امریکی عوام پر قہر برسا رہے ہیں اور جن کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ جیسی طاقت بے بس ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ میں آتش و آہن کی بارش برسانے میں اسرائیل اور امریکہ دونوں برابر کے شریک ہیں لیکن یہ کہنا کہ یہ آگ امریکی اور اسرائیلی جرائم کا حساب چکا رہی ہے تو یہ کہنا ہمارے اندازے کی غلطی ہے۔

اس آگ نے محض امریکیوں کے مکانوں کو راکھ کا ڈھیر بنایا ہے لیکن ان کی جانوں کو زیادہ نقصان نہیں پہنچایا۔ جب کہ اس کے مقابلے میں ہزار ہا فلسطینی اسرائیل کی بمباری کی وجہ سے اپنی جانوں سے محروم ہوئے ہیں۔ امریکہ کے شہروں میں لگنے والی اس آگ کو خدا کی طرف سے امریکیوں پر عذاب کہنے میں بھی ہمیں ذرا احتیاط کرنی چاہیئے۔ غزہ کے مسلمانوں پر جو ستم ڈھایا گیا اس میں کئی مسلم آمرانہ حکومتوں اور ان کے زیر اثر عوام کا کردار بعض حوالوں سے امریکی عوام  کے کردار سے زیادہ گھناؤنا ہے، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ اس جلتے ہوئے کیلیفورنا کی عوام نے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں جس طرح کی آواز بلند کی تھی اس طرح کی صدائے احتجاج ہم نے کئی بڑے بڑے مسلم ممالک کے دارالحکومتوں میں بھی نہیں سنی۔

یہی کیلیفورنیا تھا جس کے طلباء نے فلسطینیوں کی حمایت میں وہ کردار ادا کیا جو پاکستان میں اقبال کے شاہین صفت نوجوانوں نے بھی ادا نہیں کیا۔ کیا پاکستانی یونیورسٹیوں کے طلباء نے اپنی یونیورسٹیوں کے احاطوں میں اور پاکستان کی سڑکوں پر اسرائیل کے خلاف اس طرح کا احتجاج کیا جس طرح کا احتجاج کیلی فورنیا کے نوجوانوں نے کیا؟ کیا پاکستان کی یونیورسٹیوں میں اسرائیل پر لرزہ طاری کرنے والی اور اسرائیل کے غرور کو خاک میں ملانے والی اس عظیم ہستی ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کے بینر اس طرح لگ سکتے ہیں جس طرح کیلیفورنیا کی یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباء نے لگائے؟۔

لہذاء اس زمینی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے امریکی عوام پر جو آج آفت نازل ہوئی ہے اسے ایک انسانی المیہ سمجھتے ہوئے اس پر خوشی کا اظہار نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ان کی امداد کے لیے حتی المقدور کوششیں کرنیں چاہیئے جس طرح کی کوششیں انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت اسلامی جمہوری ایران کر رہا ہے۔ اس طرح کا المیہ 2005ء میں پاکستان کے کشمیری عوام بھی زلزلے کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ امریکہ کے کئی امدادی اداروں نے اس موقع پر زلزلہ زدگان کی مدد کی تھی۔ امریکہ میں لگنی والی یہ آگ یقیںاً خدا کی قدرت کا ایسا مظہر ہے اور اپنے اندر کئی ایسی نشانیاں لئے ہوئے ہے جن سے دنیا کی ان مستکبر قوتوں کو سبق حاصل کرنا چاہیئے جو خود کو قادر مطلق سمجھتیں ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: جس طرح کی طلباء نے کی عوام

پڑھیں:

بلوچستان کا بحران اور نواز شریف

بلوچستان کے حالات میں بہتر تبدیلی لانے کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہیں ۔ حکمت عملی کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمت عملی کا بھی بھرپور استعمال کیا جائے۔ بلوچستان کے حالات اسی صورت میں بہتر ہوں گے جب ہم سیاسی حکمت عملی کو بالادستی دیں گے ، یہ ہی حکمت عملی ریاستی رٹ کو بھی مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔

پچھلے دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کی اس تناظرمیں ہونے والی ملاقات ایک اہم پیش رفت سمجھی جا سکتی ہے۔بہت سے سیاسی افراد اور اہل دانش نے یہ تجویز دی تھی کہ اگر نواز شریف آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں تو حالات میں بہتری کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔خود نواز شریف نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ایک بڑی سیاسی شخصیت ہیں اور ان کو بلوچستان میں احترام کے طور پر دیکھا بھی جاتا ہے۔

 بلوچستان کے حالات میں خرابیاں چند دنوں یا ہفتوں میں نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ برسوں کی کہانی ہے۔ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں جو بڑا کردار بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو ادا کرنا چاہیے تھا ، اس کا فقدان دیکھنے کو ملا ہے۔اس وقت بھی بلوچستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی و مسلم لیگ ن کی مشترکہ حکومت ہے ۔اس مشترکہ حکومت کا بھی کوئی بڑا کردار ہمیں حالات کی بہتری میں دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔

 موجودہ حالات میں صوبائی حکومت کا کردار محدود نظر آتا ہے۔اصل میں بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں موجودہ حالات میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں سے بھی مایوس نظر آتی ہیں۔ان کے بقول بلوچستان کے حالات کی خرابی میں جہاں دیگر عوامل موجود ہیں وہیں بڑی سیاسی جماعتوں کا صوبے کے حوالے سے لاتعلقی کا پہلو بھی ہے۔

بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ بلوچستان کے صوبے میں حقیقی سیاسی لوگوں کی بجائے نمائشی سیاسی لوگوں کی بالادستی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے حالات کی درستگی میں کب عملی اقدامات اٹھائے ہیں اور ان کوعملی اقدامات کرنے سے کب روکا گیا ہے۔اصل میں ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے خود سے بھی بلوچستان کے حالات میں کچھ بھی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے اور اس کا عملی نتیجہ بلوچستان کے حالات کی خرابی کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔

 پاکستان میں جو پاپولر سیاست ہو رہی ہے، اس میں نواز شریف سرگرم نظر نہیں آرہے۔ قومی سیاست ایک طرف وہ مسلم لیگ ن ہی نہیں بلکہ پارلیمانی سیاست میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہے اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔اسی طرح پارٹی کے اجلاس ہوں یا پارلیمانی میٹنگز میں بھی ان کی غیر حاضری واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اہم افراد اور دانش وروں و تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف موجودہ حالات سے مطمئین نظر نہیں آتے ہیں۔

اسی بنیاد پر جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نواز شریف بلوچستان میں کوئی بڑا مفاہمانہ کردار ادا کرسکیں گے اس پر بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ نواز شریف 8فروری کے انتخابات کے بعد بڑے بہت زیادہ فعالیت یا متحرک ہونے کی بجائے بیک ڈور بیٹھ کرخاموشی کے کردار کو ہی اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں تاکہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو کسی بڑی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

 اس وقت وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی بلوچستان کے حالات کی بہتری میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کراسکے ہیں۔جس انداز سے قومی سیاست میں سیاست دانوں،سیاسی جماعتوں سمیت سیاست وجمہوریت کی جگہ محدود ہوئی ہے وہاں ایک بڑے مجموعی سیاسی کردار کی جنگ بھی محدود ہی نظر آتی ہے۔ماضی میں نواز شریف کئی بار بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اسی تناظر میں سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک نے نواز شریف سے ملاقات بھی کی ہے۔

اگر ان تمام تر حالات کے باوجود نواز شریف خود سے آگے بڑھ کر بلوچستان کے حالات کی درستگی میں عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی یقیناً سیاسی قدر کی جانی چاہیے۔اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کیا نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا کے بغیر بلوچستان کے حالات میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا ان کو اس تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔

کیونکہ مسلم لیگ ن اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر آگے بڑھ سکے ۔بلوچستان کی بیشتر قوم پرست سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت بلوچستان کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست پر تحفظات رکھتی ہیں۔ایسے میں نواز شریف کیا اسٹیبلشمنٹ اور بلوچستان کے قوم پرستوں کے درمیان غلط فہمیوں پر ایک بڑے پل کا کردار ادا کر سکیں گے۔ان حالات میںجب بلوچستان کی سنگینی کافی حساس نوعیت کی ہے تو نواز شریف نے بلوچستان جانے کی بجائے اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ بیلا روس اور لندن کے دورے پر جانے کو ترجیح دی اور اب وہ اپنے علاج کے سلسلے میں لندن میں موجود ہیں۔اس دورے سے ان کی ترجیحات کو سمجھا جاسکتا ہے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس وقت بلوچستان میں شرپسندوں کے خلاف طاقت کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اگر یہ درست ہے تو پھر سیاسی آپشن واقعی محدود ہو جاتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے بھی سیاسی آپشن محدود ہیں ۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں ،سیاسی قیادت اور اسٹیبلیشمنٹ کو مل کر سیاسی اور انتظامی حکمت عملی اختیارکرنا ہوگی تاکہ اس بحران کا حقیقی اور پائیدار حل سامنے آسکے۔بلوچستان کے مسائل کا بہتر حل قومی سیاست اور ایک بڑے سیاسی،معاشی اور سیکیورٹی استحکام کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے ۔

اس لیے ایک ایسے موقع پر جب خارجی یا علاقائی ممالک بالخصوص بھارت اور افغانستان کی مداخلت موجود ہے توایسے میں ہمیں داخلی سطح کے مسائل کا حل تلاش کرکے ایک بڑے سیاسی اتفاق رائے کو پیدا کرنا ہوگا اور اسی حکمت عملی کی بنیاد پر سیاسی حل تلاش کرکے ہمیں بلوچستان کا حل تلاش کرنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • عوام سے ناراض پرویز خٹک نے سیاسی سرگرمیاں کا آغاز کردیا، ’کسی کا کوئی کام نہیں کروں گا‘
  • ملک، عوام کو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے: عمران خان
  • عوام کو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے ، عمران خان
  • ملک، عوام کو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے، عمران خان
  • اپوزیشن اور قوم پرست جماعتیں عوام میں اضطراب نہ پھیلائیں‘چولستان کینال منصوبے پر کاپچھلے سال سے رکا ہوا ہے.مرادعلی شاہ
  • بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
  • سندھ کی عوام اپنے حقوق کا سودا کرنے والوں کو کسی قسم کے مذاکرات کا حق نہیں دیگی، سردار عبدالرحیم
  • عوام کا ریلیف حکومت کے خزانے میں
  • شہباز خدا کا خوف کرو، کلمہ پڑھتے ہو اور 25 کروڑ عوام کے حق پر ڈاکہ ڈال کر بیٹھے ہو، محمود اچکزئی
  • بلوچستان کو خیرات نہیں، بلکہ حقوق دیں، مولانا ہدایت الرحمان