لاہور کا 100 سال سے زائد پرانا ہربنس پورہ ریلوے اسٹیشن جو اپنی تاریخی اہمیت کی وجہ سے بہت مشہور تھا آج ریلوے کی روایتی نااہلی کے باعث کھنڈرات میں تبدل ہو چکا ہے.

ریلوے اسٹیشن کی عمارت بوسیدہ ہو چکی ہے اور جو تھوڑے بہت آثار بچے ہیں وہ کسی بھی وقت گر سکتے ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے یہاں پر کوئی ریلوے اسٹیشن کبھی تھا ہی نہیں، پاکستان ریلوے نے اس اسٹیشن کو حادثات کا شکار ریلوے بوگیوں کا قبرستان بنا دیا ہے۔

تقسیم ہند کے وقت بھارت سے مہاجرین کا پہلا قافلہ اسی ریلوے اسٹیشن پہنچا تھا، اس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں بھارت سے آنے والے مہاجرین یہیں آس پاس کے دیہاتوں اور شہروں میں آباد ہوتے رہے۔

ہربنس پورہ ریلوے اسٹیشن کی تاریخ 100 سال سے بھی پرانی ہے، قابض برطانوی فوج کی نقل و حمل بھی اسی ریلوے اسٹیشن سے ہوتی تھی، یہاں سے لائل پور، سیالکوٹ، دینہ، گجرات اور گجرانوالہ ٹرینیں چلا کرتی تھی، لاہور ریلوے اسٹیشن سے بھارت جانے والی ٹرین بھی اسی ریلوے ٹریک سے گزرا کرتی تھی۔

اب اس اسٹیشن کا کوئی پرسان حال نہیں، اس کے سامنے جو پٹڑیاں ہیں اس پر ریلوے نے اپنی جلی ہوئی اور حادثات کا شکار بوگیاں کھڑی کردی ہیں، بہت سی جگہوں پر لوگوں نے قبضہ کر کے مختلف کاروبار اور رہائش شروع کردی، اسی تاریخی ریلوے اسٹیشن کے ساتھ ایک الفلاح سینما بھی ہوتا تھا جہاں دن میں دو شو ہوتے تھے۔

یہاں کے رہائشی نصیر کے مطابق ان کی پیدائش یہیں پر ہوئی اور انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے بہت کچھ دیکھا، ریلوے اسٹیشن کے آس پاس 1947 میں 14 کے قریب دیہات آباد تھے، یہاں سے آنے جانے والے اسی ریلوے اسٹیشن کو استعمال کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ اخری ٹرین 13 مارچ 1991 کو یہاں پر آئی اس کے بعد سے ٹرینوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بند ہوگیا، ریلوے اسٹیشن کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاید اب یہاں سے کبھی ٹرین سروس کا اغاز نہ ہو سکے، یہاں سے روزانہ 48 کے قریب ٹرینیں روانہ ہوتی تھیں، تقسیم ہند کے وقت یہاں پر ایک چھوٹا سا شہر آباد تھا اس پاس 40 سے 50 دکانیں تھیں یہاں پر ٹرین رکتی اور ایک مجمع سا لگ جاتا تھا۔

ایک اور شہری عمران نے بتایا کہ ریلوے انتظامیہ نے اس تاریخی ریلوے اسٹیشن کو کھنڈرات کا ڈھیر بنا دیا ہے، ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے اس کی کھڑکیاں تک ختم ہو چکی ہیں، چھت اور جو باقی ماندہ عمارت ہے وہ کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتی ہے، یہ عمارت جو کبھی ایک شاندار ریلوے اسٹیشن ہوتا تھا مگر لاہور کے تاریخی ریلوے اسٹیشن کو نہیں بچایا جا سکا یہی وجہ ہے کہ آج اس کے اس پاس رہنے والوں کو بھی شاید معلوم نہیں کہ یہ ریلوے اسٹیشن کتنا تاریخی ہے، جب پاکستان بنا تو کتنے قافلے یہاں پر ٹھہرے اور پھر مختلف شہروں کو یہیں سے روانہ ہوئے۔

ریلوے انتظامیہ سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مکمل خاموشی اختیار کرتے ہوئے کوئی بات نہیں کی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسٹیشن کو اسی ریلوے یہاں پر یہاں سے

پڑھیں:

ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 100 دن 30 اپریل کو مکمل ہو رہے ہیں اور اب تک صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔

78 سالہ صدر ٹرمپ نے ایک ایونٹ میں کہا کہ میرا دوسرا دورِ حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں 'یہ کام کرو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی کا دفاع کیا اور سب سے پہلے امریکا کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

امریکی صدر نے اپنی سمت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کر رہے ہیں۔

البتہ ان کے ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔

سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے اور ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے خود کو ایک "ریئلٹی شو" کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

ٹرمپ کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ نئے صدر کے دوسرے دور میں وائٹ ہاؤس میں مخصوص اور من پسند نیوز اداروں کو رسائی دی جارہی ہے۔

علاوہ ازیں عدلیہ کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے جہاں انہوں نے ماضی کے مقدمات میں شریک کئی لاء فرمز کو سخت معاہدوں میں جکڑ دیا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کی تکمیل پر ان کی مقبولیت تمام جنگ عظیم دوم کے بعد صدور میں سب سے کم ہے۔ سوائے خود ان کے پہلے دور کے۔

ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاؤسکی نے کہا کہ ہم سب خوف زدہ ہیں جبکہ پروفیسر باربرا ٹرش کا کہنا تھا کہ صدر آئینی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔

ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تقلید میں گرین لینڈ، پاناما اور کینیڈا پر علاقائی دعوے کرتے ہوئے امریکی اثرورسوخ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔

ٹرمپ نے تعلیمی اداروں، جامعات اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو ایک اہم آرٹس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا اور ڈائیورسٹی پروگرامز کو ختم کر دیا ہے۔

اسی طرح تارکین کو پکڑ پکڑ کر دور دراز علاقے میں قائم خطرناک جیلوں میں زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔

یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اُٹھایا تھا اور اسی دن چند اہم لیکن متنازع اقدامات کی منظوری دی تھی۔ 

متعلقہ مضامین

  • لاہور، تاریخی مقامات پر تھوکنے، کوڑا پھینکنے اور توڑ پھوڑ پر جرمانہ ہوگا
  • کراچی سے راولپنڈی جانے والی ٹرین کے واش روم سے پھندا لگی لاش برآمد
  • ٹرین کے واش روم کی چھت سے لٹکی ہوئی لاش برآمد
  • ریلوے ٹریک بحال ہونے کے 9 ماہ بعد سبی سے ہرنائی پہلی ٹرین کی کامیاب آزمائش
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
  • سیاستدان کو الیکشن اور موت کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے، عمر ایوب
  • سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے : عمر ایوب
  • سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے ، عمر ایوب
  • تبدیل ہوتی دنیا
  • لاہور: قبضہ مافیا کیخلاف ریلوے کی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن، 50 ارب مالیت کی اراضی واگزار کروا لی