سیاست میں انتقام نہیں ہونا چاہئے، خواہش ہے مسائل مذاکرات سے حل ہوں: فضل الرحمان
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
لاہور ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ سیاست میں انتقام کا تاثر نہیں ہونا چاہئے، میری خواہش ہے کہ مسائل مذاکرات کے ذریعے حل ہوں۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سیاسی آدمی ہوں مذاکرات کا قائل ہوں، سیاست دانوں کو جیلوں میں نہیں ہونا چاہئے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوا اس کے بھی خلاف تھے، ملک میں دھاندلی سے پاک انتخابات کی ضرورت ہے، سیاست دانوں کے منفی رویئے سے آج پارلیمان بے معنی ہوگیا، سیاستدانوں کا کردار بھی اس حوالے سے اطمینان بخش نہیں ریا۔
انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں نے جمہوریت، اصولوں پر کمپرومائز کیا ہے، ہم وہ لوگ ہیں جو نظریئے کی سیاست کرتے ہیں۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ٹرمپ کو کیوں اتنا دماغوں پر سوار کیا ہوا ہے، اس خطے سے امریکا شکست کھا کر بھاگا ہے، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں حکومتی رٹ ختم ہوچکی ہے۔
نویں جماعت کیلئے 7 کتابوں کا نیا سلیبس تیار
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: فضل الرحمان نے کہا کہ
پڑھیں:
کیا پاکستان میں نئے صوبے بنانا ضروری ہے؟
سجاد حسین لکھتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں وسائل کی منصفانہ تقسیم اور انتظامی خود مختاری بہت اہم ہے۔ اگر نئے صوبے بنانے سے عوام کے مسائل حل ہو سکتے ہیں تو اس پر غور کرنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ موجودہ پاکستان میں معاشی عدم استحکام، روزگار کے مسائل اور بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر انتظامی ڈھانچوں میں تبدیلی بے حد ضروری لگتی ہے۔ مثال کے طور پر، پنجاب کی آبادی تقریباً 12 کروڑ اور سندھ کی تقریباً 7 کروڑ ہے، لیکن صرف ایک سیکرٹریٹ، ایک ہائی کورٹ اور ایک وزیراعلیٰ کے ذریعے مسائل حل کرنا عملی طور پر ممکن نہیں۔
دنیا کے دیگر ممالک میں صوبوں یا ریاستوں کی تعداد پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ یورپی ممالک، بھارت، ایران اور انڈونیشیا کی مثالیں واضح کرتی ہیں کہ زیادہ صوبے انتظامی اور وسائل کی تقسیم کو بہتر بناتے ہیں۔ نئے صوبے بنانے سے نہ صرف عدالتی فیصلے جلد ہوں گے بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور اختیارات مقامی سطح پر منتقل ہوں گے۔
چند روز قبل وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان نے بھی نئے صوبوں کی تشکیل کی حمایت کی، جبکہ دیگر سیاستدان اور تجزیہ کار بھی اس پر بات کر رہے ہیں۔ البتہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں اس پر اتفاق کر پائیں گی یا نہیں۔
نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کی رائے سے متفق ہونا لازمی نہیں۔