پاور ڈویژن کی جانب سے الیکٹرک وہیکلز کی پالیسی انتہائی خوش آئند ہے : وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت الیکٹرک وہیکلز کے فروغ کے حوالے سے اہم اجلاس پاور ڈویژن کی جانب سے الیکٹرک وہیکلز کی پالیسی انتہائی خوش آئند ہے : وزیراعظم پاور ڈویژن کی جانب سے الیکٹرک گاڑیوں کے لیے خصوصی 44 فیصد کم رعائیتی ٹیرف ایک تاریخ ساز پیکج ہے : وزیراعظم الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کی نئی پالیسی کے حوالےسے وزیراعظم کی وفاقی وزیر پاور اور ان کی ٹیم کی ستائش بجلی سے چلنے والی گاڑیوں سے پٹرول اور ڈیزل کی درآمد کی مد میں زر مبادلہ کی بچت ہو گی اور ماحول دوست سفری سہولیات دستیاب ہوں گی : وزیراعظم وزیراعظم کی الیکٹرک گاڑیوں کے حوالےسے نئی حکومتی پالیسی کی بھرپور تشہیر کرنے اور آگہی مہم کی ہدایت اجلاس کو الیکٹرک وہیکلز کے لئے نئی حکومتی پالیسی پر بریفنگ الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ اسٹیشنز کو موجودہ فی یونٹ 71روپے اب 39.
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: قوائد و ضوابط سرمایہ کاری وفاقی وزیر مدد ملے گی کی وجہ سے ضوابط کے کو یقینی اجلاس کو فی یونٹ کے فروغ
پڑھیں:
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا اقدام، ایک لاکھ ملازمین کی نوکریاں خطرے میں
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وفاقی کابینہ کی ریگولرائزیشن کمیٹی کے ذریعے مستقل کیے گئے ایک لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین، جن میں 34,000 سے زائد گریڈ 16 یا اس سے اوپر کے افسران شامل ہیں، کی ملازمتیں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس کے مطابق ان تمام کیسز کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن (FPSC) کو بھیجا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے ایک مبینہ فیصلے کی بنیاد پر کیا گیا یہ اقدام مختلف وزارتوں اور اداروں میں طویل عرصے سے خدمات انجام دینے والے ملازمین میں شدید تشویش پیدا کر رہا ہے۔
جب وفاقی وزیر برائے اسٹیبلشمنٹ احد خان چیمہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں اس معاملے کی تفصیلات کا علم نہیں۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے 19 مارچ 2025 کو جاری کردہ اپنے دفتر کے یادداشت نمبر 1/29/20-Lit-III کے ذریعے ہدایت کی ہے کہ ریگولر ملازمین کے کیسز FPSC کو بھیجے جائیں۔ یہ وہ ملازمین ہیں جن کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے، اور جنہیں گزشتہ حکومت کی پالیسیوں کے تحت مستقل کیا گیا تھا اور اب وہ اپنی سروس کا ایک بڑا حصہ مکمل کر چکے ہیں۔
یہ ہدایت سپریم کورٹ کے فیصلے کی ایک تشریح کی بنیاد پر دی گئی ہے۔ پیر کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے اجلاس میں زیادہ تر اراکینِ قومی اسمبلی (MNAs) نے اس فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
ملازمین نے “دی نیوز” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جاری کردہ یادداشت میں ایک اہم قانونی سقم موجود ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ تمام اداروں پر ماضی کے اثرات کے ساتھ لاگو نہیں ہو سکتا، خصوصاً ان اداروں پر جو اس کیس میں فریق ہی نہیں تھے۔
مزید برآں، ہر ادارے کی نوعیت اور صورتحال مختلف ہے، اس لیے اس فیصلے کو “ان ریم” یعنی تمام پر یکساں لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ملازمین کا کہنا تھا، “ہمیں ابتدائی طور پر 1996 سے مختلف وزارتوں اور ان کے منسلک اداروں میں کنٹریکٹ پر رکھا گیا، جہاں باقاعدہ تحریری امتحانات، انٹرویوز اور وزارتوں کی سفارشات کے بعد ہمیں بھرتی کیا گیا۔
بعد ازاں وزیراعظم پاکستان کی منظوری سے کابینہ کمیٹی کے ذریعے ہمیں ریگولرائز کیا گیا۔”انہوں نے مزید کہا، “ہم میں سے بہت سے افراد دو دہائیوں سے زائد عرصہ قوم کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ ہماری ایک بڑی تعداد 45 سے 55 سال کی عمر کے درمیان ہے، جنہوں نے اپنی زندگی کے بہترین سال سرکاری ملازمت کے لیے وقف کر دیے۔
اب ہمیں FPSC کے نئے امتحانات اور انٹرویوز کے لیے بھیجنا عملی طور پر ہماری نوکری ختم کرنے کے مترادف ہے۔
ان ملازمین میں ہزاروں ماہر تکنیکی پیشہ ور شامل ہیں، جن میں کنسلٹنٹ ڈاکٹرز (جنرل سرجن، کارڈیک سرجن، پلاسٹک سرجن، ڈینٹل سرجن، پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ، میڈیکل اسپیشلسٹ/فزیشن، گائناکالوجسٹ، پیڈیاٹریشن) اور نرسز شامل ہیں، جنہوں نے کورونا وبا اور دہشتگردی جیسے قومی بحرانوں کے دوران خدمات انجام دیں۔
اس کے علاوہ پروفیسرز، لیکچررز، اساتذہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئرز اور دیگر افسران بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
ملازمین کا کہنا تھا کہ کابینہ کمیٹی نے ایک لاکھ سے زائد ملازمین کو ریگولرائز کیا تھا، جن میں 34,000 سے زائد گریڈ 16 اور اس سے اوپر کے افسران شامل ہیں۔
19 مارچ 2025 کی یادداشت کا اطلاق ان تمام ملازمین پر تباہ کن اثر ڈالے گا جنہوں نے نہ صرف مستقل ملازمت حاصل کی بلکہ اپنے سروس کے سال بھی مکمل کر لیے۔ انہوں نے وزیراعظم سے اس معاملے کا نوٹس لینے اور مناسب ہدایات جاری کرنے کی اپیل کی۔
Post Views: 1