خیبرپختونخوا میں احساس نوجوان پروگرام کے تحت بلاسود قرضوں کی فراہمی کا عمل شروع
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
خیبرپختونخوا میں احساس نوجوان پروگرام کے تحت بلاسود قرضوں کی فراہمی کا عمل شروع WhatsAppFacebookTwitter 0 15 January, 2025 سب نیوز
ڈیرہ اسماعیل خان (محمد ریحان ) نوجوانوں کو با روزگار اور خود مختار بنانے کے لئے بنانے کے لئے خیبر پختونخوا حکومت کا ایک سنگ میل عبور،احساس نوجوان پروگرام کے تحت بلاسود قرضوں کی فراہمی کا عمل شروع ،
پروگرام کے تحت صوبے کے نوجوانوں کو بلاسود قرضوں کے چیکس تقسیم کرنے کی تقریب کے مہمان خصوصی وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور تھے ،
تقریب میں وزیراعلی نے اپنے کاروبار شروع کرنے کے لئے نوجوانوں میں بلاسود قرضوں کے چیکس تقسیم کئے ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کا کہنا تھا کہ احساس نوجوان پروگرام نوجوانوں کو باروزگار اور با اختیار بنانے کا فلیگ شپ منصوبہ ہے، پروگرام کے تحت نوجوانوں کو اپنے کاروبار شروع کرنے کیلئے بلاسود قرضے فراہم کئے جارہے ہیں، یہ 3سالہ منصوبہ ہے جس پر 3ارب روپے کی لاگت سے عمل درآمد شروع کیا گیا ہے، علی امین خان گنڈاپور اس پروگرام پر عمل درآمد کیلئے رواں بجٹ میں 1ارب 10کروڑ روپے مختص کئے ہیں،
پروگرام کے پہلے حصے پر بینک آف خیبر کے اشتراک سے عمل درآمد کیا جارہا ہے، جس کے تحت 1ارب روپے کی لاگت سے نوجوانوں کو بلاسود قرضے فراہم کئے جارہے ہیں،پروگرام کے اسی حصے میں 18سے 35سال تک 3سے 5 نوجوانوں پر مشتمل کلسٹرز کو 10 سے 50 لاکھ روپے تک کے قرضے فراہم کئے جارہے ہیں، ان قرضوں کی واپسی کیلئے 8 سالوں پر مشتمل آسان شیڈول رکھا گیا ہے،
پہلے 20 ماہ گریس پیرئیڈ ہوگا جس کے دوران کوئی وصولی نہیں ہوگی،پروگرام کے دوسرے حصے پر اخوت مائیکرو فنانس بینک کے اشتراک سے عمل درآمد کیا جارہا ہے جس کی لاگت 2 ارب روپے ہے، پروگرام کے اس حصہ میں 18سے 40سال تک کے افراد کو چھوٹے پیمانے پر کاروبار شرو ع کرنے کیلئے 1 لاکھ سے 5 لاکھ روپے تک کے بلاسود قرضے فراہم کئے جارہے ہیں، پروگرام کے تحت نوجوان خواتین اور خصوصی افراد کے لئے کوٹہ مختص کیا گیا ہے،اس کے علاوہ 3 مختلف پروگرامز احساس اپنا گھر پروگرام ،احساس روزگار پروگرام اور احساس ہنر پروگرام بھی جلد شروع کئے جارہے ہیں، احساس پروگراموں کیلئے رواں بجٹ میں مجموعی طور پر 15 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: احساس نوجوان پروگرام پروگرام کے تحت بلاسود قرضوں قرضوں کی
پڑھیں:
ایران کا جوہری پروگرام(3)
اسلام ٹائمز: مسقط میں ہونیوالے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟ تحریر: سید نوازش رضا
مسقط مذاکرات سے قبل ایران نے دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود سائنسی و جوہری ترقی ممکن ہے اور وہ اس میدان میں خود کفیل ہوچکا ہے۔ اگرچہ جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم ساتھ ہی ایک خاموش مگر واضح پیغام بھی دیا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا جوہری پروگرام اب اُس سطح تک پہنچ چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ مزید برآں، ایران نے یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر اس کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کی گئی تو اس کا ردعمل نہایت سخت اور سنگین ہوگا، جس کے عالمی سطح پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔"
اسرائیل کے لیے پیغام:
"ہم ٹیکنالوجی میں اتنے قریب ہیں کہ اگر چاہیں تو جوہری ہتھیار بنا سکتے ہیں، اس لیے حملے کی غلطی نہ کرنا۔" اسرائیل کے لیے یہ اسٹریٹیجک ڈیٹرنس (Strategic Deterrent) ہے، تاکہ اسرائیل کو باز رکھا جا سکے۔
امریکہ کے لیے پیغام:
ایران نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ اگر امریکہ نے باعزت اور برابری کی سطح پر مذاکرات نہ کیے اور عائد پابندیاں ختم نہ کیں، تو وہ اپنے راستے پر بغیر رکے آگے بڑھتا رہے گا۔ ایران نے یہ بھی باور کرا دیا کہ وہ جوہری ٹیکنالوجی میں اُس مقام سے آگے نکل چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔"
اسرائیل اور امریکہ کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا؟
اسرائیل:
ممکنہ طور پر ایران کے سائنسدانوں، تنصیبات یا سپلائی چین کو ہدف بنا سکتا ہے، لیکن: امریکہ براہ راست فوجی کارروائی سے اس وقت گریز کرے گا، کیونکہ: یوکرین کا محاذ ابھی کھلا ہے۔ ایران کا جوابی حملہ مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونک سکتا ہے
اس تمام صورتحال میں امریکہ کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے
-امریکن صدر ٹرمپ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے صرف جارحانہ بیانات دے سکتا ہے، لیکن امریکہ فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔
-امریکی اسٹیبلشمنٹ (سی آئی اے، پینٹاگون) سفارتی حل کو ترجیح دے گی۔
یورپ اور امریکہ، خاص طور پر ان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں (جیسے CIA ،MI6) ایران کی جوہری پیش رفت پر مسلسل نظر رکھتی آئی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ: ایران یورینیم کو 60% تک افزودہ کر رہا ہے، جبکہ 90 فیصد بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایران نے جدید IR-6 اور IR-9 سینٹری فیوجز بنائے ہیں۔ ایران نے ریسرچ ری ایکٹرز اور بھاری پانی کی ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔
اس لیے مغربی انٹیلیجنس دائرے میں یہ بات اب ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ ایران جوہری ٹیکنالوجی میں ایک اہم مرحلہ عبور کرچکا ہے۔ البتہ وہ عوامی سطح پر اس کو تسلیم نہیں کرتے، تاکہ ایران پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے اور اپنے لاڈلے لونڈے اسرائیلی کے اس مطالبات سے بچا جاسکے کہ "فوری حملہ کرو۔" اب سوال یہ ہے کہ امریکہ مسقط مذاکرات میں کیا حاصل کرنا چاہتا تھا اور کیا حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔؟ کیا وہ سفارتی ذرائع کے ذریعے JCPOA جیسے معاہدے کی جانب واپسی کا راستہ اختیار کرے گا، یا پھر اپنی سپر پاور حیثیت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے مزید دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور خفیہ فوجی اقدامات کا سہارا لے گا؟"
ظاہراً امریکہ کے پاس سفارتی ذرائع کے ذریعے کسی معاہدے تک پہنچنے کے سوا کوئی مؤثر آپشن نظر نہیں آتا، کیونکہ ماضی میں اقتصادی پابندیوں نے ایران پر خاطر خواہ اثر نہیں ڈالا اور فوجی اقدام دنیا کو ایک ممکنہ عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ "ایران نے جس انداز سے اب تک اپنی فوجی اور جوہری طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے امریکہ کو یہ باور کرا دیا ہے کہ مذاکرات کی میز پر اب ایک طاقتور اور متوازن فریق موجود ہے۔ ٹرمپ چاہے زبان سے سخت لہجہ اختیار کریں، لیکن اندرونی طور پر انہیں لچک دکھانا پڑے گی، کیونکہ ایران اب "دباؤ" کے بجائے "ٹیکنالوجی" کی زبان میں بات کرے گا۔
مسقط میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟