آج بارہ جنوری ہے‘جب یہ کالم شائع ہوگا۔ اس وقت تقریباً پندرہ جنوری ہوجائے گی۔ تاریخ اور عمر ساتھ ساتھ بڑھتے ہیں۔ جو حالات پر اثرانداز ہوکر ا ن کو بدل دیتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت سیاسی استحکام نہیں ہے حالانکہ حکومت اور حزب اختلاف والوں کی یہ خواہش ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام پیداہوتاکہ گلشن کا کاروبار خوش اسلوبی سے چلتارہے۔ لیکن اس خواہش کو عملی جامعہ پہنانے کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے موجودہ حکومت کسی بھی لحاظ سے زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ یہ بڑے لوگوں کے سہارے پر اپناکام کررہی ہے جس سے ابھی تک عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاہے۔ حالانکہ اس حکومت کادعویٰ ہے کہ وہ عوام کی مدد اور تعاون سے اقتدار میں آئی ہے لیکن اسکی کارکردگی فی الحال عوام دوست نظرنہیں آرہی ہے۔ اس کو اس سلسلے میں مزید محنت کرنی ہوگی یعنی ، با الفاظ دیگر ایسی پالیسیاں تشکیل دینی ہونگی جس سے عوام مطمئن ہوسکیں نیز حکومت کو بھی یہ احساس جاگزیں ہوکہ اس کی کارکردگی عوام دوست ہے اور ملک ترقی کی جانب گامزن ہے۔
تاہم یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ جمہوریت کا سیاسی مقصد بھی عوام کی فلاح وبہبود سے وابستہ ہے۔ اگر حکومت اپنی پالیسی عوام دوست تشکیل دے رہی ہے تو سماجی حالات میں یقینا تبدیلی آئے گی لیکن فی الحال ایسا نظرنہیں آرہاہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے واضح طور پر ابھی تک اپنی معاشی پالیسی کا اعلان نہیں کیا ہے۔ جب تک حکومت تحریری طور پر اقتصادی پالیسی کا اعلان نہیں کرے گی اس وقت تک نہ تو عوام کا اعتماد حاصل کرسے گی اور نہ ہی اس کا اطلاق ہوسکے گا۔ پاکستان کے عوام صرف یہ چاہتے ہیں کہ حکومت وقت ایسی پالیسیاں بنائے جس کے سبب وہ اپنے جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔
حالانکہ موجودہ حکومت نے عوام سے یہ وعدہ کیاتھا کہ وہ مہنگائی کے عفریت کو بوتل میں بند کرکے عوام کے لئے سہولتیں پیدا کرے گی‘ لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔ مہنگائی اب بھی عوام کو ڈس رہی ہے حالانکہ ہرگزرتے دن کے ساتھ اس میں ہلکاپھلکا اضافہ ہی دیکھنے میں آرہاہے یہی وجہ ہے کہ عوام موجودہ حکومت کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں‘ وہ عملی طور پر مہنگائی کو کم ہوتے ہوئے دیکھناچاہتے ہیں۔ دوسری طرف مہنگائی کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کا مسئلہ انتہائی سنگین صورت اختیار کرتا جارہاہے۔ پڑھے لکھے نوجوان کے ساتھ ساتھ کم پڑھے لکھے نیم خواندہ افراد بھی مہنگائی اور حالات سے شدید متاثر ہورہے ہیں۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہورہی ہے اور نہ ہی نئے کارخانے لگ رہے ہیں۔بلکہ بیرونی سرمایہ کاری بھی نہیں آرہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کی آمد سے ملک میں ترقی کے نئے امکانات پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ چین میں انقلاب کے بعد بیرونی سرمایہ کار کو سرمایہ لگانے کی دعوت دی گئی جس کی وجہ سے چین نے نہ صرف ترقی کی بلکہ آج بھی چین کی ترقی میں بیرونی سرمائے کا ایک اہم رول ہے۔
پاکستان کے بعض مشہور ماہر معاشیات بھی ایسا ہی چاہتے ہیں لیکن بیورو کریسی کا رویہ کچھ ایسا ہے کہ بیرونی سرمایہ نہیں آتاہے جس کی وجہ سے ملک میں ترقی کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں۔ دراصل پاکستان کی بیورو کریسی کی اکثریت معاشی ترقی کے ضمن میں خاصی سست واقعی ہوئی ہے۔حالانکہ دنیا کے ترقی یافتہ ملک پاکستان میں سرمایہ لگانے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن ان کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنی ہوئی ہے۔ تاہم یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک غیر ملکی سرمایہ کاری کے سلسلے میں سخت محنت کررہے ہیں‘ جبکہ پاکستان میں حکومت کرنے والوں کا رویہ اس کے برعکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بیرونی سرمائے کا حجم دیگر ترقی پذیر ممالک کے پس منظر میں بہت کم ہے۔
اس وقت عالمی سطح پر کچھ ایسے ممالک ہیں جواپنا سرمایہ ایسے ممالک میں لگاناچاہتے یں جہاں انہیں معقول منافع حاصل ہوسکے ۔دوسروی طرف سرمایہ محفوظ بھی رہ سکے۔ حکومت پاکستان کو اس سلسلے میں سخت محنت کرنا ہوگی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو یہ یقین دلاناہوگا کہ ان کا سرمایہ نہ صرف محفوظ ہے بلکہ وہ اپنا منافع بھی با آسانی باہر لے جاسکتے ہیں۔ اس ضمن میں ماضی کی حکومتوں نے کچھ کوششیں کی تھیں لیکن نیت صاف نہیں تھی اس لئے سرمایہ نہیں آیا اور نہ ہی ملک میں پائیدار ترقی کے امکانات پیدا ہوسکے۔
لیکن اب2025 ء ایک نیا سال ہے جس کے ذریعے پاکستان بیرونی سرمایہ لاسکتاہے مزید برآں سرمایہ دار پاکستان میں سرمایہ لگانا چاہتے ہیں اس وقت پاکستان بیرونی سرمایہ لانے سے متعلق ماحول اچھاہے۔ موجودہ حکومت کی پالیسیاں بھی مناسب ہیں کہ بیرونی سرمایہ لایاجاسکتاہے اور انہیں یہ باور کرایاجاسکتاہے کہ پاکستان میں ان کا سرمایہ نہ صرف محفوظ ہے بلکہ ان کا منافع بھی وہ اپنے ملکوں کو بھیج سکتے ہیں۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ لانے کیلئے ماحول انتہائی خوشگوار ہے۔ اس لئے اس سرمائے کو پاکستان میں لانے کی بھرپور کوششیں کرنی چاہیے۔ یہ بات ناقابل فراموش ہے کہ جن ممالک نے گزشتہ پچاس سالوں میں معاشی ترقی کی ہے اس میں بیرونی سرمایہ کاکردار انتہائی اہم رہاہے ۔ ذراسوچیئے!
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بیرونی سرمایہ موجودہ حکومت پاکستان میں سرمایہ کاری سرمایہ نہ ملک میں کے ساتھ ترقی کے
پڑھیں:
جے یو آئی دیگر اپوزیشن اور پی ٹی آئی سے علیحدہ اپنا الگ احتجاج کرےگی، کامران مرتضیٰ
موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے ہی اپوزیشن جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں، پی ٹی آئی نے پہلے عام انتخابات میں مینڈیٹ چوری ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر موجودہ حکومت کو جعلی قرار دیتے ہوئے فوری طور پر حکومت کو ختم کرنے اور نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا، اس احتجاج میں پی ٹی آئی کے ساتھ محمود خان اچکزئی بھی ہم آواز نظر آئے، اپوزیشن کی بڑی جماعت جمیعت علما اسلام پی ٹی آئی کے ساتھ یک زبان نظر نہیں آئی، البتہ اپنا الگ احتجاج کرتی رہی۔
یہ بھی پڑھیں جے یو آئی کا پی ٹی آئی سمیت کسی سیاسی اتحاد میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ
پاکستان تحریک انصاف نے جے یو آئی کو عید کے بعد احتجاج میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ جمیعت علما اسلام نے پی ٹی آئی کے ساتھ احتجاج میں شامل ہونے کی مشروط حامی بھر لی ہے، جے یو آئی رہنما بھی کہتے تھے کہ اب پاکستان تحریک انصاف اور ہمارے فاصلے کم ہو گئے ہیں۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علما اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہاکہ جے یو آئی نے حتمی طور پر فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کےساتھ اتحاد نہیں کرےگی اور نہ ہی کسی ایسے اتحاد کا حصہ بنے گی جس کو تحریک انصاف لیڈ کر رہی ہو۔
انہوں نے کہاکہ جے یو آئی دیگر اپوزیشن اور پی ٹی آئی سے علیحدہ اپنا الگ احتجاج کرےگی۔ جمعیت علما اسلام نے لاہور میں ہونے والے شوریٰ کے اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ جے یو آئی کسی بھی اپوزیشن جماعت کے ساتھ مل کر احتجاج نہیں کرے گی، جے یو آئی کی اپنی الگ پہچان ہے، الگ سوچ اور نظریہ ہے، اسی کے تحت احتجاج کیا جائے گا۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہاکہ پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد میں شامل نہ ہونے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے، جے یو آئی اپنے طور پر اپنی سیاسی جدو جہد جاری رکھے گی اور بطور اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی کوشش کرےگی۔
سینیئر تجزیہ کار انصار عباسی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جے یو آئی کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں میں جو اپوزیشن جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ دے رہی ہیں ان کی اتنی وقعت نہیں ہے، جب تک جمیعت علما اسلام پی ٹی آئی کا ساتھ نہیں دے گی اپوزیشن جماعتیں حکومت پر کوئی زیادہ پریشر نہیں ڈال سکتیں۔
یہ بھی پڑھیں علی امین گنڈاپور پی ٹی آئی کے گوربا چوف، جے یو آئی نے فضل الرحمان کے خلاف بیان پر وضاحت مانگ لی
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں اپوزیشن کے احتجاج کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں کر سکے، 2014 میں اسٹیبلشمنٹ نے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا لیکن وہ احتجاج بھی اس وقت کامیاب نہیں ہوا تھا اور اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا البتہ حکومت کے لیے وہ احتجاج ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسٹیبلشمنٹ الگ احتجاج پی ٹی آئی جمعیت علما اسلام جے یو آئی سیاسی اتحاد سینیٹر کامران مرتضیٰ مولانا فضل الرحمان وی نیوز