کوئٹہ، متعدد ہسپتالوں کی غیر تسلی بخش کارکردگی، محکمہ صحت کی کارروائی
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
ترجمان حکومت بلوچستان نے بتایا کہ سپرنٹنڈنٹ سول ہسپتال کوئٹہ کو فوری طور پر معطل، جبکہ سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ژوب، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ اور چمن سے بھی جواب طلبی کی گئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ محکمہ صحت بلوچستان نے متعدد ہسپتالوں میں طبی خدمات کی بندش اور غیر تسلی بخش کارکردگی پر کارروائی کرتے ہوئے زمہ دار افسران کو معطل کر دیا ہے، جبکہ جواب طلبی کے نوٹسز جاری کرتے ہوئے دو روز کے اندر وضاحت طلب کرلی گئی ہے۔ ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند کے مطابق متعدد میڈیکل افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی شروع کی گئی ہے۔ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سول سنڈیمن پروانشل ہسپتال کوئٹہ ڈاکٹر نور اللہ موسیٰ خیل کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے اور ان کو مرک بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل کی ذمہ داریوں سے بھی فارغ کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت نے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ژوب، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ اور چمن سے بھی جواب طلبی کی گئی ہے۔ ان افسران کو دو دن کے اندر اپنی پوزیشن واضح کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ترجمان حکومت بلوچستان کے مطابق اگر غیر تسلی بخش جواب موصول ہوا یا ان کی وضاحت قابل قبول نہ ہوئی، تو ان کے خلاف بیڈا ایکٹ کے تحت سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر قلعہ عبداللہ عبدالہادی کا تبادلہ کرکے انہیں ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سول سنڈیمن اسپتال کوئٹہ تعینات کر دیا گیا ہے۔ یہ تمام احکامات فوری طور پر نافذ العمل ہوں گے۔
اس حوالے سے صوبائی وزیر صحت بخت محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ عوامی مشکلات کا بخوبی احساس ہے۔ طبی شعبے میں لاپرواہی کسی صورت قابل برداشت نہیں ہے۔ غریب آدمی علاج کے لئے پریشان ہے، تو دوسری جانب ذاتی مفادات کے لئے او پی ڈیز بند کی جا رہی ہیں۔ او پی ڈیز کی بندش ایک قابل تعزیر جرم ہے۔ طبی خدمات کی معطلی سے انسانی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس ضمن میں عدالت عالیہ بلوچستان کے واضح احکامات بھی موجود ہیں، جن پر عملدرآمد ہماری آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی جانوں سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں ہے۔ اگر افسران تنخواہ لیتے ہیں تو انہیں اپنی ڈیوٹی بھی کرنی ہوگی۔ وزیر صحت نے کہا کہ محکمہ صحت کو مافیاز کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔ حکومت اچھے افسران کی حوصلہ افزائی کرے گی، جبکہ عوامی خدمت سے راہ فرار اختیار کرنے والے افسران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
نئی دلی، عدالت نے لال قلعہ دھماکہ کیس میں گرفتار 3 ڈاکٹروں کو 12روزہ عدالتی تحویل میں دے دیا
گرفتار کیے گئے افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے۔ ڈاکٹر بلال نصیر ملا مقبوضہ وادی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے رہائشی ہیں۔ یہ اب تک گرفتار ہونے والے آٹھویں ملزم ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ نئی دہلی کی ایک عدالت نے 10 نومبر کے لال قلعہ دھماکہ کیس میں گرفتار تین ڈاکٹروں اور ایک واعظ کو بے بنیاد الزامات کے باوجود 12 دن کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا۔ ایک اور ملزم ڈاکٹر بلال نصیر ملا کو بھی پرنسپل اور سیشنز جج کے سامنے پیش کیا گیا تاکہ اس کے وائس سیمپل کی تصدیق کی جا سکے۔ ذرائع کے مطابق چارروں ملزمان ڈاکٹر مزمل گنائی، ڈاکٹر عدیل راتھر، ڈاکٹر شاہینہ سعید اور مولودی عرفان احمد وگے کو 8دسمبر کو دی گئی چار روزہ این آئی اے حراست کی مدت ختم ہونے سے قبل عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالتی کارروائی کی میڈیا کوریج پر پابندی تھی اور دلی کی پٹیالہ ہاﺅس ڈسٹرکٹ کورٹ کے احاطے کے اندر اور باہر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ بدنام زمانہ بھارتی تحقیقاتی ادارے ”این آئی اے“ نے اب تک مذکورہ کیس میں 8 گرفتاریاں کی ہیں۔ گرفتار کیے گئے افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے۔ ڈاکٹر بلال نصیر ملا مقبوضہ وادی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے رہائشی ہیں۔ یہ اب تک گرفتار ہونے والے آٹھویں ملزم ہیں۔ انہیں 9دسمبر کو دلی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کے گروپوں اور قانونی مبصرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ بھارتی حکام کشمیری ڈاکٹروں، انجینئروں اور دیگر تعلیم یافتہ افراد کو نشانہ بنانے کیلئے انہیں جھوٹے مقدمات میں ملوث کر رہے ہیں۔