Nai Baat:
2025-04-23@05:22:56 GMT

تین گنا ٹیکس دینے والی قوم

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

تین گنا ٹیکس دینے والی قوم

گذشتہ ہفتے گھر کے فرنیچر میں جزوی تبدیلیوں کے لئے لاہور کی اہم فرنیچر مارکیٹس کے کئی دورے کئے۔ایک سفید پوش انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ کم پیسوں میں معیاری چیز مل جائے تو مزا دوبالا ہو جائے گا۔ خیر اچھرہ کی فرنیچر مارکیٹ، بند روڈ پرٹمبر مارکیٹ اور سیون اپ کے پاس فرنیچر شورومز سے تھک کر گلبرگ اور ڈیفنس کے برانڈڈ فرنیچرسٹورز کا رخ کیا۔ ان میں سے کراچی کے ایک برانڈ سٹور کی لاہور برانچ پر سٹائل اور پرائس میں توازن دیکھ کر بیگم صاحبہ نے آرڈردیا کہ بس اب مزید تلاش فوری طور پر بند کی جائے۔ برانڈ سٹور پر خریداری کرتے ہوئے میں نے دو فرق محسوس کئے پہلا یہ کہ بہت ہی سلجھا ہوا سٹاف، مناسب پرائس کے ساتھ ویلیو ایڈڈ کوالٹی سروس اور دوسرا فرق ایف بی آر کے پوائنٹ آف سیل سے منسلک بل بنا تو فرنیچرآئٹمز کے ساتھ 18 پرسنٹ سیلز ٹیکس الگ درج تھا جو کہ اتنا تھا کہ نان پوائنٹ آف سیل سٹور سے خریداری کرتا تو ایک اور فرنیچر آئٹم خریدا جاسکتا تھا۔ روایتی فرنیچر مارکیٹس میں روزانہ کچی رسیدوں پر کروڑوں کا بزنس ہو رہا ہے۔ میں نے ایک ہفتہ گھوم کر ان مارکیٹس کے سروے سے اندازہ لگالیا کہ یہاں سیلز ٹیکس دینے کا رواج نہیں ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ریٹیل سیکٹر کا سالانہ ٹرن اوور 300 بلین ڈالر(8 ہزار ارب) کے لگ بھگ ہے۔ 35 لاکھ ریٹیلرز میں سے صرف 41 ہزار رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان سے 50 ارب کا ٹیکس اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ سب زیادہ ٹیکس پاکستان کا آرگنائزڈ ریٹیل سیکٹر ادا کر رہا ہے۔ اگر درست اور قابل اعتماد پالیسیز بنائی جائیں تو ریٹیل سیکٹر پر صرف 4 پرسنٹ سیلز ٹیکس اور ایک پرسنٹ انکم ٹیکس لگا کر 15 ارب ڈالر (400 ارب روپے) سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔عوام پرمہنگائی کابوجھ بھی کم ہو جائے گا۔ پاکستان میں تاجروں کے دو طبقے ہیں۔ ایک وہ جنھوں نے اپنا بزنس ٹیکس کمپلائنٹ رکھا ہوا ہے دوسرے وہ جو کہ اکثریتی تاجر ہیں نان ٹیکس کمپلائنٹ ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے جو تاجر ٹیکس کمپلائنٹ ہے اور پوائنٹ آف سیل پر رجسٹرڈ ہے۔ وہ اگر 100 روپے کی چیز بیچے گا تو اس میں سے 18 روپے حکومت کو ادا کرے گا۔ گو کہ یہ رقم وہ گاہک سے لے گالیکن وہ اسے لے کر جمع کرانے کا پابند ہے۔ جبکہ دوسری طرف وہ تاجر جو پوائنٹ آف سیل کے ساتھ منسلک نہیں ہے۔ اسی 100 روپے کی پراڈکٹ پر اس کا 18 روپے کا مارجن بڑھ جاتا ہے۔ اس میں سے وہ اگر چاہے تو گاہک کو رعایت دے سکتا ہے۔ اس طرح وہ تاجر جو ٹیکس دے رہا ہے اور جو نہیں دے رہا انکے درمیان مقابلے کی فضا بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ حکومتی خزانے کو نقصان الگ سے ہے۔ حکومت اور ایف بی آر نے دعویٰ کیا تھا کہ تاجر دوست سکیم کے ذریعے 50 ارب کا ریونیو اکٹھا کیا جائے گا۔ جو کہ بنیادی طور پر ایک چھوٹا اور کسی حقیقی سروے کے بغیر بنایا گیا ہدف تھا۔رواں برس دسمبر تک نئے ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لا کر 25 ارب کے ٹیکس ہدف کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور صرف چند لاکھ ٹیکس ہی جمع ہوسکا۔ اب اس کا بوجھ صارفین اور پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود تاجروں پرمنتقل کیاجا چکا ہے۔ حکومت نے سیلز ٹیکس 15 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کردیا ہے۔ انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکسز اس کے سوا ہیں۔ پاکستان میں ایک ٹیکس کمپلائنٹ بزنس 49 فیصد تک ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ جو کہ عوام کے ساتھ ان تاجروں کے ساتھ بھی زیادتی ہے جو کہ ٹیکس نیٹ میں آ کر ملکی خزانے کو فائدہ دینے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بجلی اور گیس کی بلوں میں خاموشی سے نئے ریٹ ڈال کر عوام سے مزید ٹیکس نچوڑا جا رہا ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ ایف بی آر پورا ٹیکس اکٹھا نہیںکر سکتا۔ حالانکہ میں اگر پچھلے پانچ برس کا ڈیٹا دیکھوں تو ایف بی آر نے ہرسال پہلے سے زیادہ ٹیکس جمع کیا ہے۔ مالی سال 2020-21 میں 4,963 ارب روپے کے ٹیکس ہدف کے مقابلے میں 4,745 ارب کا ٹیکس جمع کیا گیا۔ مالی سال 2020-21 میں5,829 ارب روپے کا ٹیکس ہدف مقرر کیا گیا جبکہ 6148ارب روپے ٹیکس حاصل کیا گیا۔کیونکہ اس سال کرونا کے باوجود ملکی گروتھ 6 فیصد پر تھی۔ مالی سال 2022-23 میں 7004 ارب روپے کی ٹیکس کولیکشن کا ہدف مقرر کیا گیا جبکہ 7163 ارب روپے ٹیکس وصول کیا گیا۔ مالی سال 2023-24 میں 9,415 ارب روپے کا ٹیکس ہدف مقرر کیا گیا جبکہ وصولی9,299 ارب روپے رہی۔ رواں مالی سال 12970ارب کے تعاقب میں پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) کے دوران 5624 ارب روپے جمع کیے جا چکے ہیں جو کہ 22-2021 کے سالانہ ٹیکس ہدف کے برابر ہیں۔ اب ایف بی آر اگلی ششماہی میں 6009 ارب روپے کے مطلوبہ ٹیکس وصولی ہدف کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ شاید کارکردگی بڑھانے اور ایف بی آر کے فیلڈ افسران کی حوصلہ افزائی کے لئے تقریباً 6 ارب روپے کی خطیررقم سے ایک ہزار دس نئی لگژری کاریں خرید کر دی جا رہی ہیں۔ ایک بات تو واضح ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان کے عوام سے ٹیکس نہیں دیتے۔ اس برس پاکستانی 21-2020 کے مقابلے میں تین گنا ٹیکس ادا کریں گے۔ یہاں مسئلہ ایف بی آر کی کارکردگی کا نہیں بلکہ ان کے ٹیکس اکٹھا کرنے کے طریقہ کار سے متعلق ہے۔ ایف بی آر کے رواں مالی سال میں ٹیکس اہداف پورے نہیں ہو رہے۔ جنوری تک کا ٹیکس شارٹ فال 386 ارب ہو چکا ہے۔لہٰذا ٹیکس نیٹ میں موجود تاجروں اور تنخواہ دار طبقہ پر سختی کے ذریعے مزید ٹیکس اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ حکومت نے ایف بی آرکی کپیسٹی بلڈنگ کے لئے 32.

5 ارب کی خطیر رقم رکھی ہے۔ نئی گاڑیاں، سال کے چار بونس اور بہترین دفاتر دیئے گئے ہیں۔ اب ایف بی آر کو چاہئے کہ آسان ا ہداف کو نچوڑنے کی بجائے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی جامع اور درست حکمت عملی بنائے۔ ٹیکس دینے والے تاجروں کے لئے ریٹس کم کئے جائیں۔ ٹیکس کی ادائیگی کے نظام میں پیچیدگیاں دور کر کے مجموعی ٹرن اوور پر فائلنگ کا طریقہ کار اپنایا جائے۔ خاص طور ہر ریٹیل سیکٹر میں ٹیکس دینے والوں کے لئے مراعات کا اعلان اور ٹیکس نہ دینے والوں کے لئے کاروباری عمل کو مشکل بنانے کے حکمت عملی کارگر ہوگی۔جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹیکس شفافیت، چوری کی روک تھام ضروری ہے۔ملک میں ایک متفقہ اور منصفانہ ٹیکس نظام کی ضرورت ہے جس سے کاروبارمیں مسابقت اور فروغ کا ماحول پیدا ہو نہ کہ ٹیکس نیٹ میں موجود لوگ اس سے نکلنے کے متمنی نظر آئیں۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ٹیکس نیٹ میں ٹیکس دینے سیلز ٹیکس ایف بی ا ر ارب روپے ٹیکس ہدف مالی سال کیا گیا کا ٹیکس کے ساتھ روپے کی رہا ہے کے لئے

پڑھیں:

پنجاب میں تنخواہ دار ملازمین پر ٹیکس شکنجہ کسنے کی تیاری، بل آج پیش کیا جائے گا

حکومت پنجاب تنخواہ دار ٹیکس چوروں پر شکنجہ کسنے کو تیار ہے جب کہ پنجاب فنانس ترمیمی بل 2025 منظوری کے لئے اسمبلی اجلاس میں آج پیش کیا جائے گاْ۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب فنانس ترمیمی بل 2025  کی منظوری قائمہ کمیٹی برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب اسمبلی نے دی تھی۔

ترمیمی بل پنجاب اسمبلی سے بذریعہ کثرت رائے یا متفقہ رائے سے منظور ہو گا، حتمی منظوری کے لئے بل گورنر پنجاب کو بھجوایا جائے گا۔

بزریعہ پنجاب فنانس ترمیمی بل 2025 دی پنجاب فنانس ایکٹ 1977 میں ترامیم ہو سکیں گی، ترامیم بعد از منظوری پنجاب فنانس ترمیمی بل 2025 کے نام سے جانی جائیں گی، حکومت پنجاب نے ملازمین کی ٹیکس کٹوتی کی نئی ترمیم متعارف کروائی تھی۔

بل کے متن کے مطابق ہر سرکاری یا پرائیوٹ ادارے کا اکؤنٹس افسر ٹیکس کٹوتی اور رقم خزانے میں جمع کروانے کا پابند ہوگا، اگر افسر غفلت برتے گا تو خود اس ٹیکس کی رقم ادا کرے گا، کمپنی کی جانب سے ملازم کی تنخواہوں کی تفصیل نہ ہونے کہ باعث ٹیکس چوری ہوتا تھا۔

ٹیکس خود جمع کروانے والے متعدد اشخاص کم تنخواہ ظاہر کیا کرتے تھے، کمیٹی کا کہنا تھا کہ کمپنی کو ٹیکس کٹوتی کا پابند کرنے کی کوئی واضح شق بھی موجود نہ تھی۔

ترمیم کے ذریعہ ٹیکس وصولی کو مزید مؤثر بنایا جا سکے گا، ٹیکس جمع نا کروانے کی صورت میں محکمہ ایکسائز  حرکت میں آئےگا۔

قائمہ کمیٹی نے کہا کہ جو کمپنیاں ملازمین کی تنخواہ سے ٹیکس کٹوتی نہیں کرتیں، ان کو بعد از ترامیم خط لکھیں گے۔

بل کے متن کے مطابق محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن قصوروار کے خلاف وصولی کا حکم جاری کرے گا، بل کا مقصد ٹیکس چوری روکنا اور سرکاری خزانے میں آمدنی بڑھانا ہے، بل پنجاب اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی کے حوالے کیا گیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • سوزوکی آلٹو کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ کر دیا گیا
  • پنجاب حکومت نے ملازمین کی ٹیکس کٹوتی سے  متعلق نئی ترمیم متعارف کرادی
  • ہفتہ کی چھٹی ختم کر دی گئی
  • بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا صارفین کو بلوں میں اربوں روپے کاریلیف دینے کافیصلہ 
  • کراچی، ڈکیتی کی جھوٹی اطلاع دینے پر شہری گرفتار
  • خیبرپختونخوا حکومت نے آئندہ مالی سال کیلیے بجٹ کی تیاری شروع کر دی
  • تنخواہ دار اب ٹیکس سے نہیں بچ سکے گا، پنجاب حکومت نے شکنجہ تیار کرلیا
  • عدالت نے نجی کمپنی کو خود سوزی کرنے والے شہری کی بیوا کو 75 لاکھ روپے دینے کی ہدایت کردی 
  • پنجاب میں تنخواہ دار ملازمین پر ٹیکس شکنجہ کسنے کی تیاری، بل آج پیش کیا جائے گا
  • ایف بی آر کا بڑا قدم، ہفتے کی چھٹی ختم کردی