Jasarat News:
2025-04-22@06:59:53 GMT

صحت مند ماحول، صحت کی ضمانت

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

صحت مند ماحول، صحت کی ضمانت

ڈاکٹر صاحب نے نسخہ لکھتے ہوئے کہا کہ دوا تو میں لکھ رہا ہوں مگر آپ کو ضرور پینتیس 40 منٹ واک کرنی ہوگی تب ہی آپ کا مسئلہ حل ہوگا!! ڈاکٹر صاحب واک، مگر میں کہاں کروں گی میرے تصور میں ٹوٹی سڑکیں بہتے ہوئے گٹر کا پانی اور کوڑا کر کٹ سامنے آگیا، میں جو کراچی میں رہتے ہوئے اپنی طبیعت اور مزاج سے عاجز بھی ہوں یہ سن کر سوچ میں پڑ گئی کہ کیا کروں کراچی جو میرا محبوب شہر ہے مگر اس کی صورتحال میرے دل کو دکھانے کا سبب بھی ہے کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے ماحولیاتی آلودگی اور تباہ حال انفرا اسٹرکچر کی بدولت سنگین صورتحال سے دوچار ہے، ایک نہیں کئی کئی مسائل نے عروس البلاد کراچی کی رونقوں کو معدوم کر دیا ہے جہاں یہ مسائل ہیں وہاں امن و امان کا مسئلہ بھی شہریوں کو عدم تحفظ اور ذہنی پریشانی میں مبتلا کرتا جا رہا ہے۔ اگر ہم بات کریں ماحولیاتی آلودگی کی تو صنعتی آلودگی گاڑیوں کا دھواں فضلے کا صحیح جگہ ٹھکانے نہ لگانا فضا کو زہریلا بنا رہا ہے اس سے نہ صرف انسان بلکہ جانور اور پودے بھی متاثر ہو رہے ہیں اور سوچیں یہ پودے مرجھا جائیں درخت نہ بن سکیں تو آلودگی ہی حاوی ہوگی، بم بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے سبب مختلف امراض مثلاً سانس کی بیماریوں دل کی بیماریوں جلدی بیماریوں اور دیگر امراض میں مبتلا ہورہے ہیں، یہ آلودگی صرف عام آدمی کی صحت کو متاثر نہیں کرتی بلکہ اس ماحولیاتی آلودگی نے اقتصادی اور سیاحتی سرگرمیوں کو بھی متاثر کر دیا ہے کراچی وہ شہر تھا جسے دیکھنے لوگ دور دور سے آنا چاہتے تھے مگر آج انتہائی افسوسناک صورتحال سے دوچار ہے، اب یہاں صنعتوں کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے بنانا پڑتا ہے، سڑک، سیوریج اور لائٹس سب انہیں لگانی پڑتی ہیں، جبکہ پاکستانی دواسازی کی صنعت کو تو بین الاقوامی قوانین کی پابندی بھی لازماً کرنا پڑتی ہے، یہ سب کرنے کے بعد انہیں ٹیکس بھی پورا دینا پڑتا ہے۔ بات صرف ماحولیاتی آلودگی کی نہیں بلکہ سارا نظام ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، انفرا اسٹرکچر کی تباہی بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے، اگر 70 کی دہائی تک کی بات کی جائے تو یقین نہیں آتا کہ وہی سڑکیں ہیں اور شہری نظام ہے جبکہ جدید سے جدید ٹیکنالوجیاں آگئی ہیں جن سے بہت جلد اور بہت بہتر طریقے سے ہر چیز ٹھیک کی جا سکتی ہے بات صرف خلوص کی اور اپنی مٹی سے محبت کی ہے۔ کراچی جو کہ لگتا ہے کسی منصوبے کے تحت تباہ کر دیا گیا اس کی سڑکیں اُدھیڑ کر رکھ دی گئیں جن پر چلنا تو دور کی بات گاڑی چلانا بھی سر درد سے کم نہیں، خراب منصوبہ بندی اور ٹریفک کا بڑھتا ہوا دباؤ، زیر تعمیر سڑکیں، پل، فلائی اوور اور ریڈ اور مختلف لائن کی بسوں کے نظام کے قیام کی برسوں سے جاری نامکمل تعمیرات،جن کے اختتام کا پتا ہی نہیں، ان سب نے سڑکوں کو تنگ کر دیا ہے اس پر طرہ تجاوزات ہیں، پیسہ کھلاؤ اور جہاں چاہو عمارت بنالو، کوئی پوچھنے والا نہیں اگر ایک سڑک اللہ اللہ کر کے بن جائے تو کچھ دنوں بعد خیال آتا ہے یہاں زیر زمین گٹر یا کوئی اور پائپ لائن گزرنا ہے، اور یہ سڑک پھر اُدھیڑ دی جاتی ہے نامعلوم مدت تک کے لیے، پھر وہی اُڑتی ہوئی گردو غبار اور بہتا سیورج کا پانی، نکاسی کا بھی اس قدر ناقص انتظام ہے کہ تھوڑی سی بارش ان تعمیرات کا پول کھول دیتی ہے، یہ گٹر بہتا ہوا گلیوں اور سڑکوں سے جب گزرتا ہے تو تعفن اور گندگی ذہنی اذیت کا سبب بنتی جاتی ہے، کچرے کا ڈھیر جگہ جگہ خاص طور پر مساجد، اسکولوں اور پارکوں کے باہر تو لگتا ہے خاص اجازت لے کر کچرا کنڈی بنائی جاتی ہے اس کی سڑاند جس طرح فضا کو آلودہ کرتی ہے کسی سے پوشیدہ نہیں۔

یہ حال صرف کراچی کا نہیں باقی ملک بھی اسی مسئلے سے دوچار ہے، مگر افسوسناک بات یہ کہ پاکستان کے صنعتی مرکز منی پاکستان، کراچی کی مجموعی صورتحال پر بات کی جائے تو دل دکھانے کو بہت کچھ نظر آتا چلا جائے گا مگر ہمیں واقعی سنجیدگی کے ساتھ مل کر سوچنا ہوگا جہاں حکومتی اداروں کا فرض ہے وہاں ہم سب کا بھی ہے کہ ہم ماحول کی صفائی کے لیے آگاہی پروگرام کو پھیلائیں صفائی نصف ایمان کے سرکار دوعالم کے حکم کو سمجھنا ہوگا، اس حکم میں صرف لباس کی صفائی نہیں ہے بلکہ راستوں سے پتھرہٹانا، جگہ جگہ کچرا نہ پھینکنا، اور ایک خاص بات آج کل ہر شخص کے منہ میں گٹکا، پان چھالیہ ہے یہاں تک کہ بات کرنا مشکل ہے اور یہ لوگ ہرجگہ پیک تھوکتے پھرتے ہیں، جبکہ ہمارے نبی نے جگہ جگہ تھوکنے کی ممانعت کی ہے۔ یہ عادت تو ایک طرف کھانے والے کو بیمار کرتی ہے اور دوسری طرف بیماریاں پھیلانے کا سبب بھی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے بھرپور مہم چلانی ہوگی۔

اسی طرح صنعتوں کو آلودگی کم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا ہوگا۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر پابندی کے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا۔ عوامی ٹرانسپورٹ کو فروغ دینا ہوگا سالڈ ویسٹ کو ری سائیکل کرنے اور مناسب جگہ ٹھکانے لگانے کا انتظام کرنا ہوگا ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے سائنس دان و ماہرین کی مدد لینا ہوگی میڈیا کے ذریعے شعور بھی بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں حکومتی اداروں کو اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہیے وہیں ہر شہری اپنی ذمے داری محسوس کرے تو ماحول بہتر ہوسکتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کر دیا کے لیے

پڑھیں:

وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت

شیعہ علما کونسل گلگت کے جنرل سیکرٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا کہ کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل ضلع گلگت کے جنرل سکریٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مورخہ 19 اپریل 2025ء کو جاری ہونے والی مشیر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مولانا محمد دین کی پریس ریلیز محض ایک بیان نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی شناخت پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری اور اجتماعی شعور ہے۔ ایسے میں کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ہمارا سوال ہے کہ کیا مشیر موصوف کی یہ پریس ریلیز آپ کی منظوری سے جاری کی گئی؟ اگر ہاں، تو یہ طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اس انداز میں مخاطب ہو رہی ہے جو نفرت، تقسیم اور اشتعال کو ہوا دے رہا ہے۔ اور اگر یہ بیان آپ کی اجازت یا علم کے بغیر جاری کیا گیا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے غیر سنجیدہ اور نالائق مشیروں کو فوراً برطرف کریں تاکہ حکومت کی نیک نامی، شفافیت اور سنجیدگی پر عوام کا اعتماد قائم رہ سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ مشیر موصوف نے خطیب جامع مسجد امامیہ گلگت جناب آغا سید راحت حسین الحسینی جیسے محترم، سنجیدہ اور باوقار عالم دین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ گلگت بلتستان کے مہذب سیاسی و سماجی کلچر سے متصادم ہے۔ ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو ذاتی حملے سمجھتے ہیں اور سنجیدہ تنقید کا جواب اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور سوال اٹھانا ہر باشعور شہری، خصوصاً اہل علم کا آئینی، اخلاقی اور سماجی حق ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں واقعی عوامی مفاد پر مبنی ہیں تو دلیل و حکمت سے عوام کو مطمئن کیا جائے، نہ کہ ان پر الزام تراشی کر کے ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جائے۔ مشیر موصوف کا یہ کہنا کہ "دین کو سیاست سے الگ رکھا جائے" نہ صرف فکری گمراہی کی نشانی ہے بلکہ اس قوم کے نظریاتی اساس سے انحراف بھی ہے۔ پاکستان کا قیام ہی کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ“ کے نام پر ہوا تھا، اور اس ملک کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب دین اور سیاست کو ہم آہنگی سے مربوط کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ’ارتھ ڈے‘ منایا جا رہا ہے
  • World Earth Day ; ماحول اور زمین کی حفاظت ہم پر قرض، رویے بدلنا ہوںگے!!
  • کینال کا معاملہ صدرِ مملکت آصف علی زرداری سے ضرور ڈسکس ہوا ہوگا، مصطفیٰ کمال
  • تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد نہیں ہوگا، جے یو آئی
  • جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت آج ہوگی، پانچویں بار گواہان کی طلبی
  • وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
  • کینال منصوبوں سے سندھ اور پنجاب کے کسانوں کو نقصان ہوگا، سعید غنی
  • گاناہٹاؤ، ورنہ مقدمہ ہوگا،ٹک ٹاکرمناہل ملک کی دھمکی
  • اپنی سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے، امن وامان کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا، اسحاق ڈار
  •  سیاست میں دشمنی کا ماحول پی ٹی آئی نے پیدا کیا : طارق فضل چوہدری