پی ٹی آئی اپنے لیڈر کی کرپشن پر احتجاج اور سیرت کا نام استعمال کررہی ہے،وفاقی وزراء
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) حکومتی ارکان نے شبلی فراز کی جانب سے پاکستان کیلیے نامناسب لفظ استعمال کرنے پر سینیٹ میں احتجاج کیا اور چیئرمین سینیٹ سے وہ لفظ حذف کرنے کا مطالبہ کیا۔ سینیٹ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر احسن اقبال اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ اپنی چوری کو چھپانے کیلیے سیرت کا نام لے رہے ہیں، پی ٹی آئی کے لوگ اپنے لیڈر کی کرپشن کو بچانے کیلیے احتجاج کررہے ہیں، ہمیں عدالتی معاملات میں سیرت النبیؐ کو سامنے نہیں لانا چاہیے۔ آپ ہم سے رسیدیں مانگتے تھے اور آپ کی اپنی ساری رسیدیں جعلی نکلیں، بتایا جائے 64 ارب روپے پاکستان کے خزانے میں کیوں نہیں آئے؟ اگر چوری کے پیسے سے مسجد بنالی جائے تو چوری ہی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ چوری سے بننے والے ادارے کو نہیں چلنا چاہیے، برطانیہ نے 64 ارب روپے پاکستان کی ریاست کو دیے تھے، بانی پی ٹی آئی نے وہ رقم اپنے دوست کے اکاؤنٹ میں ڈال دی۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ ریفرنس ایک آزاد ادارے نیب نے بنایا، اس وقت کے ایڈوائزر شہزاد اکبر نے برطانوی کرائم ایجنسی کو درخواست دے کر یہ انکوائری کروائی، حسن نواز رسیدیں دے کر بری ہوگئے اور یہ خود اس میں پھنس گئے۔ یہ رقم پاکستان کے اکاؤنٹ میں جمع ہونی چاہیے تھی اس کے بجائے ایک شخص کو جرمانے میں کاٹ لی گئی، پی ڈی ایم حکومت کی درخواست پر یہ رقم عدالت عظمیٰ کے اکاؤنٹ سے نکال کر قومی خزانے میں جمع کرائی گئی۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
2025-26 وفاقی بجٹ خسارہ 7222 ہزار ارب رہنے کا امکان
اسلام آباد:ذرائع وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ اگلے مالی سال کے وفاقی بجٹ کا خسارہ 7222 ہزار ارب روپے رہنے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال وفاقی حکومت کی آمدنی کا تخمینہ 19111 ہزار ارب روپے ہے جس میں ٹیکس آمدنی کا تخمینہ 15270 ارب، نان ٹیکس آمدنی کا 3841 ہزارارب روپے لگایا گیا ہے۔
این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 8780 ارب روپے منتقل ہونے کے بعد وفاق کی خالص آمدنی10331 ارب رہ جائیگی۔
مزید پڑھیں: حکومت کا آئندہ مالی سال کا بجٹ عید الاضحیٰ سے قبل پیش کرنے کا فیصلہ
وفاقی اخراجات کا تخمینہ17553ہزار ارب روپے ہے، اس میں 8106 ارب روپے سود کی ادائیگی کیلیے ہیں جس کے بعد وفاق کے پاس دیگر اخراجات کیلئے2225 ہزار ارب روپے بچیں گے۔
ان میں دفاع، پنشن، تنخواہیں، ترقیاتی پروگرام ، سبسڈیز، گرانٹس ودیگر خرچے شامل ہیں، انہیں پورا کرنے کیلیے قرضوں پر انحصار کرنا پڑسکتا ہے ۔