بھارتی پنڈت کا 4 بچوں کی پیدائش پر انعام کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
نئی دہلی ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بھارتی پنڈت اور ریاست مدھیہ پردیش کے پرشورام کلیان بورڈ کے چیئرمین وشنو راجوریا نے برہمن برادری کے جوڑوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے انعام دینے کا اعلان کردیا۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق وشنو راجوریا نے اندور میں نوجوانوں اور خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کے دوران اعلان کیا کہ’ دوسرے مذہبوں کے لوگوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے لہٰذا نوجوانوں کو اقدامات کرنے چاہئیں، مجھے نوجوانوں سے بہت امیدیں ہیں، نوجوانوں کو غور سے سننا چاہیے کہ آنے والی نسل کا تحفظ آپ کے ہاتھ میں ہے‘۔راجوریا نے شادی شدہ جوڑوں سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ’ہرجوڑا 4 بچے پیدا کرے جس پر پرشورام کلیان بورڈ کی جانب سے انہیں ایک لاکھ بھارتی روپے انعام دیا جائے گا، چاہے میں مستقبل میں بورڈ کا صدر رہوں یا نہ رہوں، جوڑوں کو انعام ملتا رہے گا‘۔راجوریا کے اعلان پر بھارت میں ایک تنازع کھڑا ہوگیا ہے، اس حوالے سے محکمہ سماجی بہبود سے منسلک ایک اہلکار نے راجوریا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ راجوریا کا بیان صرف ایک اعلان تھا جو ریاستی حکومت کی پالیسی کے خلاف ہے۔واضح رہے کہ مدھیہ پردیش سول سروسز کے قوانین کی رو سے سرکاری نوکری کے لیے صرف وہی افراد اہل ہیں جن کے دو یا اس سے بھی کم بچے ہوں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پشاور: آئس کے نشے نے نوجوان نسل کو جکڑ لیا، پولیس کی کارروائیاں بےاثر ثابت
پشاور میں آئس کے نشے نے نوجوان نسل کو جکڑ لیا. پولیس کی کارروائیاں بےاثر ثابت ہوگئیں۔ذرائع کے مطابق پشاور کی گلیوں سے لیکر تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کا آئس جیسی خطرناک نشہ آور اشیاء کا استعمال لمحہ فکریہ ہے۔ جس نے نوجوانوں کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بحالی مراکز میں مریضوں کے لگاتار اضافے نے ڈاکٹروں کو تشویش کا شکار کردیا ہے. مراکز میں وسائل محدود ہیں.علاج بھی طویل اور مہنگا ہے۔
دوسری جانب پولیس اور انسدادِ منشیات فورس کی آئس کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ مگر اسمگلنگ اور سپلائی چین اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ ایک گینگ کے پکڑے جانے کے بعد دوسرا فوراً متحرک ہو جاتا ہے.نشوں کے بڑھتے ہوئے رجحان سے سب سے زیادہ شہری پریشان ہیں، جن کا کہنا ہے کہ پولیس اگر اپنا کام ٹھیک سے کرتی تو حالات ایسے نہ ہوتے۔حل صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی نہیں. بلکہ معاشرتی بیداری، تعلیمی اداروں میں آگاہی اور والدین کی بروقت توجہ ہی نوجوانوں کو اس تباہ کن راستے سے بچا سکتی ہے۔