Jasarat News:
2025-04-22@05:59:24 GMT

ایران کی فوجی صلاحیت میں اجافہ، ایک ہزار ڈرون شامل

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

ایران کی فوجی صلاحیت میں اجافہ، ایک ہزار ڈرون شامل

ایرانی پاسداران انقلاب کی جانب سے جاری کردہ تصویر میں ڈرون کی قطار دیکھی جاسکتی ہے

تہران (انٹرنیشنل ڈیسک) ایران نے اسرائیل اور امریکا کے ساتھ تنازعات کی تیاری کے سلسلے میں ایک ہزار نئے جدید ڈرونزکا اضافہ کرلیا۔ ایران کے نیم سرکاری خبررساں ادارے تسنیم کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دفاعی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے ایرانی فوج کو جدید ڈرونز فراہم کردیے گئے ہیں۔ ایران کے مختلف مقامات پر فوج کے حوالے کیے گئے ڈرون میں اعلیٰ اسٹیلتھ اور مضبوط قلعہ شکن صلاحیتیں موجود ہیں۔ ان نئے ڈرونز کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں خودکار پرواز کے ساتھ 2ہزار کلومیٹر سے زیادہ کی رینج اور زبردست تباہ کن صلاحیت موجود ہے۔ خاص ڈرونز میں دفاعی شیلڈز سے گزرنے اور نچلی سطح کا راڈار کراس سیکشن عبور کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ نئے ڈرون شامل ہونے سے ملکی سرحدوں کی بہتر نگرانی کے علاوہ دور دراز کے اہداف کے لیے ایرانی فضائیہ کے بیڑے کی جنگی صلاحیت بھی بڑھ گئی ہے۔ واضح رہے کہ ایران نے جنوری 2025 ء کے آغاز سے 2ماہ طویل فوجی مشقیں شروع کی ہیں جن میں نطنز کے مقام پر اہم جوہری تنصیبات پر میزائلوں اور ڈرونز کے فرضی حملوں کے خلاف سپاہ پاسداران انقلاب اور فوج کی دفاعی مشقیں شامل ہیں۔دوسری جانب روس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ صدر ولادیمیر پیوٹن رواں ہفتے ماسکو میں اپنے ایرانی ہم منصب کی میزبانی کریں گے۔ کریملن کے مطابق ایرانی صدر مسعود پیزشکیان جمعہ کے روز ماسکو جائیں گے۔ ان کے دورے کے موقع پر ایران اور روس کے درمیان اسٹریٹیجک شراکت کے ایک جامع معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے۔دونوں ملکوں کے رہنما بین الاقوامی اور علاقائی ایجنڈے پر موجود اہم معاملات کے ساتھ ساتھ، تجارت میں توسیع، مواصلات، سازوسامان اور انسانی ضرورت سے متعلق شعبوں میں تعاون کے بارے میں بھی گفتگو کریں گے۔ یوکرین اور مغربی ممالک تہران پر الزام عائد کرتے ہیں کہ اس نے ماسکو کویوکرین کی جنگ میں استعمال کے لیے دھماکا خیز ڈرونز فراہم کیے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار

تہران(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اپریل ۔2025 ) اعلیٰ ایرانی عہدیدار نے بتایا ہے کہ تہران امریکا کو واضح کرچکا ہے کہ یورینیم کی افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن اس کے لیے مضبوط ضمانتوں کی ضرورت ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نئے جوہری معاہدے سے دوبارہ دستبردار نہیں ہوں گے.

(جاری ہے)

عرب نشریاتی ادارے نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان روم میں ہونے والے مذکرات کے دوسرے دور کو دونوں فریقوں نے مثبت قرار دیا ہے صدر ٹرمپ نے فروری سے تہران پر”زیادہ سے زیادہ دباﺅ“ کی مہم دوبارہ نافذ کی ہے اپنی پہلی مدت کے دوران 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدے سے 2018 میں دستبردار ہو گئے تھے اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں.

ٹرمپ کی دو شرائط کے درمیان کے سالوں میں تہران نے 2015 کے معاہدے کے تحت اپنے ایٹمی پروگرام پر عائد پابندیوں سے مسلسل تجاوز کیا ان پابندیوں کا مقصد ایٹمی بم تیار کرنا مزید مشکل بنانا تھا سابق امریکی صدر جو بائیڈن، جن کی انتظامیہ نے 2015 کے معاہدے کو بحال کرنے کی ناکام کوشش کی تھی تاہم وہ تہران کی جانب سے اس ضمانت کے مطالبے کو پورا کرنے میں ناکام رہے کہ آئندہ کوئی امریکی انتظامیہ معاہدے سے دستبردار نہیں ہوگی.

تہران احتیاط کے ساتھ مذاکرات کے قریب پہنچ رہا ہے وہ کسی معاہدے تک پہنچنے کے امکان کے بارے میں شکوک اور ٹرمپ کے موقف پر شکوک و شبہات کا شکار ہے ٹرمپ نے بارہا دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے یورینیم کی افزودگی کے تیز رفتار پروگرام کو روکا نہیں تو ایران پر بمباری کی جائے گی ایران کا مسلسل کہنا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن ہے. تہران اور واشنگٹن کہہ چکے ہیں کہ وہ سفارت کاری کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں لیکن دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری تنازع پر ان کے موقف ایک دوسرے سے الگ ہیں ایرانی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ تہران کی ریڈ لائنز جو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے لگائی گئی ہیں کو مذاکرات میں عبور نہیں کیا جا سکتا.

ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ایران کی ریڈ لائنز کا مطلب ہے کہ وہ اپنے یورینیم کی افزودگی سینٹری فیوجز کو ختم کرنے، افزودگی کو مکمل طور پر روکنے یا افزودہ یورینیم کی مقدار کو اس سطح تک کم کرنے پر راضی نہیں ہوگا جو 2015 کے معاہدے میں طے پایا تھا انہوں نے کہا کہ وہ اپنے میزائل پروگرام پر بات چیت نہیں کرے گا جسے وہ کسی بھی ایٹمی معاہدے کے دائرہ کار سے باہر سمجھتا ہے ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ایران کو عمان میں بالواسطہ بات چیت میں معلوم ہوا کہ واشنگٹن نہیں چاہتا کہ وہ اپنی تمام ایٹمی سرگرمیوں کو روکے یہ ایران اور امریکہ کے لیے منصفانہ مذاکرات شروع کرنے کی بنیاد ہو سکتی ہے یہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ایران نے گزشتہ روز کہا کہ امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ ممکن ہے اگر وہ سنجیدہ ارادوں کا مظاہرہ کرے اور غیر حقیقی مطالبات نہ کرے.

امریکہ کے مذاکرات کار سٹیو وِٹکوف نے کو”ایکس“پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ ایران کو امریکہ کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی ایٹمی افزودگی روکنا اور قریب ترین ہتھیاروں کے درجے کے یورینیم کے ذخیرے کو ختم کرنا ہوگا . ایرانی عہدیدار نے بتایا کہ ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے ایران اس ادارے کو اس عمل میں واحد قابل قبول ادارہ سمجھتا ہے انہوں نے بتایا کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکیوں کو آگاہ کیا ہے کہ امریکہ کو اس تعاون کے بدلے ایران کے تیل اور مالیاتی شعبوں پر عائد پابندیاں فوری طور پر ہٹانی ہوں گی.

متعلقہ مضامین

  • سعودی عرب کیساتھ تعلقات کا جدید دور شروع ہو چکا ہے، ایرانی سفیر
  • تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار
  • امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ کو ایک بار پھر حساس فوجی معلومات کو غیر مجاز لوگوں سے شیئرکرنے کے الزمات کا سامنا
  • ایران امریکا مذاکرات
  • ایران میں اقتصادی بحران سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ
  • ایران کیساتھ مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، امریکی محکمہ خارجہ
  • امریکا-ایران مذاکرات؛ ماہرین جوہری معاہدے کا فریم ورک تیار کریں گے، ایرانی وزیرخارجہ
  • ٹرمپ کی تنبیہ کے باوجود اسرائیل کا ایرانی جوہری پروگرام پر حملے کا امکان
  • یمن کے ہاتھوں مہنگے امریکی ڈرونز کی تباہی، فاکس نیوز نے اہم انکشاف کر دیا
  • ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کا دوسرا دور آج روم میں ہوگا