Express News:
2025-04-22@07:27:45 GMT

(ن) لیگی حکومت میں پیپلز پارٹی کی اہمیت

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

پیپلز پارٹی کی ترجمان شازیہ مری نے حکومتی فیصلوں پر اعتماد میں نہ لینے پر پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومتی حمایت ختم کرنے کی بات کی ہے ، ان کے بقول گیارہ ماہ میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا اور پاکستان میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی کے قیام پر بھی پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، پی پی نے اگر حمایت ختم کر دی تو موجودہ حکومت ختم ہو جائے گی۔

اس سے قبل پی پی چیئرمین بلاول بھٹو اور دیگر رہنما بھی ایسی شکایات کر رہے ہیں مگر لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) جان بوجھ کر کوئی جواب دیا نہیں دے رہی ہے بلکہ (ن) لیگ کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال پی پی رہنماؤں کے بیانات کو ہلکی پھلکی موسیقی قرار دے چکے ہیں جب کہ پی پی ترجمان کا حالیہ بیان ایسا ظاہر نہیں کر رہا مگر حکومت مطمئن ہے اور وزیر اعظم نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ کراچی میں یہ ضرور دیکھا گیا کہ گورنر سندھ کراچی میں وزیر اعظم کی گاڑی چلاتے رہے اور وزیر اعظم گزشتہ سال منتخب ہونے کے بعد پہلی بار سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن کے گھر گئے اور انھیں پوتے کی مبارک باد پیش کی۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ الیکشن کے بعد لاہور میں چوہدری شجاعت حسین کے گھر منعقدہ اجلاس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے حکومت سازی کا متفقہ فیصلہ کیا تھا اور پی پی قیادت نے میاں شہباز شریف کو دوسری بار وزیراعظم منتخب کرانے کا فیصلہ اس جواز پرکیا تھا کہ قومی اسمبلی میں (ن) لیگ کی نشستیں زیادہ ہیں اور 2022 میں بھی پیپلز پارٹی نے اسی بنیاد پر شہباز شریف کو پہلی بار وزیر اعظم بنوایا تھا بلکہ ان کی حکومت میں شامل بھی ہوئی تھی اور حکومت میں شامل پی پی کے وزیروں میں پی پی چیئرمین بلاول بھٹو بھی بطور وزیر خارجہ شامل ہوئے تھے اور اس حکومت نے قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک 16 ماہ حکومت کی تھی جس میں پی ٹی آئی کے عارف علوی صدر مملکت تھے اور انھوں نے بھی قومی اسمبلی کی طرح اپنی مدت مکمل کی تھی۔

فروری کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کی دوسری حکومت میں اپنے وزرا شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر مسلم لیگ (ن) متفق نہ تھی مگر آصف زرداری کو ستمبر میں عارف علوی کی جگہ صدر مملکت منتخب کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور پی پی کی خواہش پر سینیٹ کی چیئرمین شپ، قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ، پنجاب و کے پی کی گورنری اور بلوچستان میں پی پی کے وزیر اعلیٰ کی مخلوط حکومت بنانے کے فیصلے ہوئے تھے۔

پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی بھی اسی طرح واضح اکثریت تھی جیسی پیپلز پارٹی کی سندھ میں اور پی ٹی آئی کی کے پی میں تھی مگر بلوچستان میں ماضی کی طرح کسی کو اکثریت حاصل نہ تھی اس لیے وہاں مسلم لیگ (ن) نے پی پی کا وزیر اعلیٰ منتخب کرایا تھا۔

پنجاب میں اگرچہ مسلم لیگ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی مگر پی پی اور (ن) لیگ کی قیادت نے پنجاب میں حکومت سازی کا ایک فارمولا طے کر لیا تھا اور جنوبی پنجاب جہاں پی پی کے زیادہ ارکان اسمبلی منتخب ہوئے تھے وہاں پیپلز پارٹی کو حکومت سازی میں ترجیح دینے کا فیصلہ شامل تھا۔ پیپلز پارٹی شمالی اور وسطی پنجاب علاوہ جنوبی پنجاب میں بھی برائے نام رہ گئی ہے اور پنجاب میں دو بڑی پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی ہیں جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی پنجاب کو اہمیت دینے پر مجبور ہے کیونکہ پنجاب سے معقول نشستیں جیت کر ہی آیندہ پی پی اپنا وزیر اعظم لا سکتی ہے مگر موجودہ صورت حال میں ایسا ممکن نہیں ہے اور پیپلز پارٹی سندھ سے واضح اکثریت اور بلوچستان اور جنوبی پنجاب سے کچھ نشستیں جیت کر اپنا وزیر اعظم نہیں لاسکتی۔

 اس لیے وہ پنجاب میں پی پی اپنا اثر بڑھانے کے لیے (ن) لیگ پر دباؤ رکھے ہوئے ہے اور پی پی کے گورنر پنجاب جو غیر معروف شخصیت ہیں اور پنجاب میں اہم عہدہ لے کر مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر تنقید کا کوئی موقعہ جانے نہیں دیتے مگر وہاں حکومت بھی انھیں سیاسی اہمیت نہیں دے رہی اور مریم نواز پنجاب میں اپنی حکومت کی کارکردگی پر پوری توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں کیونکہ پنجاب میں (ن) لیگ کا مقابلہ پی پی سے نہیں پی ٹی آئی سے ہے اور پیپلز پارٹی کو وفاق سے زیادہ شکایات پنجاب حکومت سے ہے جو پی پی کو پنجاب میں جگہ نہیں دے رہی جب کہ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کو من پسند جگہ ملی ہوئی ہے اور گیلانی خاندان کی وہاں ٹھیک ٹھاک اہمیت اور سرکاری اثر و رسوخ ہے۔

وفاق میں اقتدار کے لیے پی پی کی حمایت (ن) لیگ کی واقعی مجبوری ہے مگر (ن) لیگ کی یہ مجبوری پنجاب میں نہیں پھر بھی پیپلز پارٹی وہاں پاور شیئرنگ میں معقول حصہ چاہتی ہے جو وزیر اعلیٰ دینے کو تیار نہیں اور نہ وہ پنجاب میں پی پی کو وہ اہمیت دے رہے ہیں جو وفاق میں پی پی کو حاصل ہے۔وفاق سے پی پی کی بعض شکایات جائز ہیں مگر وزیر اعظم کو نہ جانے کیا مسئلہ ہے کہ وہ آئین کے مطابق ہر تین ماہ بعد مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلاتے اور اہم معاملات میں پی پی کو اعتماد میں نہیں لیتے۔ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت میں وزارتیں نہ لے کر سمجھ رہی ہے کہ وہ پنجاب میں جگہ بنا لے گی۔

وہ پنجاب میں وزارتیں چاہتی ہے مگر وفاق میں وزارتوں کے بجائے تمام آئینی عہدوں پر ہے اور مزے لے رہی ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف بطور وزیر اعظم قوم کو جواب دہ ہیں مگر پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ وہ عوام کو جوابدہ نہیں اور اس کے اہم آئینی عہدیدار محفوظ بھی ہیں اور پی پی کی وجہ سے وزیر اعظم غیر محفوظ ہیں مگر پھر بھی پی پی کو اس کی خواہش کے مطابق اہمیت نہیں دے رہی جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پی پی کی دھمکیاں محض دھمکیاں ہیں اور دونوں کو اقتدار دلانے والے پی پی کو حکومت کو خطرے میں نہیں ڈالنے دیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں پیپلز پارٹی پیپلز پارٹی کو پیپلز پارٹی کی وہ پنجاب میں قومی اسمبلی نہیں دے رہی حکومت سازی شہباز شریف حکومت میں میں پی پی پی ٹی آئی اور پی پی کا فیصلہ میں نہیں مسلم لیگ پی پی کو پی پی کے پی پی کی ہیں مگر ہیں اور ہے اور لیگ کی بھی پی

پڑھیں:

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں کوئی اختلاف نہیں، دونوں اسی تنخواہ پر کام کرتیں رہیں گی، وزیر ریلوے

وفاقی وزیر ریلوے  حنیف عباسی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں کوئی اختلاف نہیں، دونوں اسی تنخواہ پر کام کرتیں رہیں گی، افغانستان سے مذاکرات  وزیراعلی کے پی کے کہنے پر نہیں بلکہ حکومت پاکستان کا فیصلہ ہے۔

راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں مریضوں کے لیے سہولیاتی سینٹر نئے او پی ڈی بلاک اور اضافی انتظار گاہ کے تعمیراتی منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ آر آئی سی 13  سال پہلے بنا تھا، یہاں سے بیشمار لوگ مستفید ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب او پی ڈی میں روز تین ہزار مریض اور تین ہزار انکے ساتھ آنے آرہے تھے، آر آئی سی میں 40 کروڈ کی لاگت سے نیا او پی ڈی بلاک بن رہا ہے، اس پراجیکٹ کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نے فنڈز دئیے ہیں، پچیس کروڑ جاری ہوگے پندرہ کروڑ ابھی جاری ہونے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ او پی ڈی کا پہلا مرحلہ اس سال جون میں مکمل کرلیں گے، یہاں ہم ایک ویٹنگ ایریا بھی بنا رہے ہیں۔

حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے دن رات ملک کی خدمت کرکے قوم کا اعتماد بحال کیا ہے، بین الاقوامی اشاریے بہتری کی نوید دے رہے ہیں، جو کہتے تھے پاکستان پیسے نہ بھیجیں، ان کی بات کسی نے نہیں بنی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارے لئے پاکستان سب چیزوں سے مقدم ہےحکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا فائدہ بلوچستان کو دینے کا فیصلہ کیا ہے، وزیر اعلی پنجاب دن رات صوبے کی عوام کیلئے کام کررہی ہے۔سندھ میں بھی کام ہورہا ہےراولپنڈی میں تجاوزات کا ہم نے خاتمہ کیا۔پنجاب میں صحت پر ریکارڈ کام ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی سترہ سال سے حکومت ہے، راولپنڈی اسلام آباد میں سب سے زیادہ مریض کے پی سے آتے ہیں، کے پی میں صفائی کا نظام دیکھیں۔

حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے نام پر کسی کو سیاست نہیں کرنے دینگے، فیڈریشن کو کسی کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دینگے،  مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں کوئی اختلاف نہیں، دونوں اسی تنخواہ پر کام کرتیں رہیں گی۔

افغانستان سے بات چیت وزیر اعلی کے پی کے کہنے پر شروع نہیں کی، حکومت کا فیصلہ ہے کہ بات چیت ہونی چاہیئے، ڈپٹی وزیر اعظم وہاں گے ہیں وہاں سے کہا گیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، افغانستان کے ساتھ جو بھی مسائل ہیں، ان کو وفاقی سطح پر دیکھا جارہا ہے۔

حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ ریلوے کے آٹھ ڈی ایس ہیں سب کو کہا ہے کہ سرکار کی ایک انچ زمین پر کسی کا قبضہ نہیں رہنا چاہیے، صاف پانی صفائی اور بہتر کھانا ریلوے میں ہونے کو یقینی بنانے کے لیے فوڈ اتھارٹی والے اب چھاپے ماریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ راولپنڈی میں ہمارے بہت سے خواب ہیں جن کی تکمیل چاہتے ہیں جب پی کے ایل آئی راولپنڈی کی کڈنی ٹرانسپلانٹ شروع کرے گا تو ہمارا ایک اور خواب پورا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کے درمیان خونی سڑک کو اب بڑے پراجیکٹ میں تبدیل کرنے جارہے ہیں جس کے لیے پٹرولیم پرائس کی بچت وہاں منتقل کی جارہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں کوئی اختلاف نہیں، دونوں اسی تنخواہ پر کام کرتیں رہیں گی، وزیر ریلوے
  • پانی معاملہ صرف سندھ نہیں پنجاب کا بھی مسئلہ ہے، نیئر بخاری
  • کوئی منصوبہ چاروں بھائیوں کو اعتماد میں لئے بغیر مکمل نہیں ہونا چاہئے: پرویز اشرف
  • پیپلز پارٹی کھیل بگاڑنا چاہتی ہے؟
  • لاہور بیٹھک، ن لیگ اور پی پی کا ساتھ چلنے پر اتفاق
  • رانا ثنا کا شرجیل میمن سے رابطہ، دونوں رہنماؤں کا کینالز معاملہ بات چیت سے حل کرنے پر اتفاق
  • وفاقی حکومت کسی وقت بھی گرسکتی: پیپلز پارٹی رہنما شازیہ مری
  • کینالز تنازع پر ن لیگ پیپلزپارٹی آمنے سامنے، کیا پی ٹی آئی کا پی پی پی سے اتحاد ہو سکتا ہے؟
  • پی پی سے معاملات کا حل افہام و تفہیم سے چاہتے ہیں، عطا تارڑ
  • سمجھ نہیں آیا پیپلز پارٹی کینال کیخلاف کھڑی ہے یا ساتھ، مفتاح اسماعیل