اسلام آبادسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے انٹیگریٹیڈ بارڈر مینیجمنٹ سسٹم کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سال 2024 میں 2کروڑ 11 لاکھ لوگوں کا ٹریول ریکارڈ رکھا، سال 2024 میں ایک کروڑ 3 لاکھ سے زائد غیر ملکی پاکستان آئے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا، اجلاس کی صدارت سینیٹر فیصل سلیم نے کی۔ڈی جی ایف آئی اے نے کمیٹی کو بتایا کہ چاروں صوبوں، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پولیس ہمیں اطلاع دیتے ہیں تو ہم کسی ملزم کو باہر جانے سے روک دیتے ہیں۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ کیا کوئی قانون ہے کہ کہیں بھی ایف آئی آر ہو اور ملزم کا نام آپ کے سسٹم میں آجائے، ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا کہ نہیں ایسا تو کوئی سسٹم نہیں ہے۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ مطلب یہ انویسٹی گیٹر کی مرضی ہے، وہ ایف آئی اے کو بتائے یا نہیں، کوئی ایسا قانون ہونا چاہئے کہ کوئی بھی جرم کرے تو آٹومیٹکلی اس کا نام بارڈر مینجمنٹ والوں کے پاس پہنچ جائے۔

سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ پولیس والے صفحہ چھوڑ دیتے ہیں اور ایف آئی آر وقت پر درج نہیں کرتے، معاملہ نیتوں کا ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری سہیل تاجک نے بتایا کہ پنجاب میں ہر ایف آئی آر میں تین چار معصوم افراد کو بھی ڈال دیا جاتا ہے، سینیٹر ڈاکٹر زرقا سہروردی نے کہا کہ آپ لوگوں کا نام پی این آئی ایل پر ڈال دیتے ہیں اور انہیں پتا بھی نہیں ہوتا کہ وجہ کیا ہے، جس کو بھی فون کریں وہ کہتا ہے مجھے پتا ہی نہیں، ایف آئی اے نے کہا کہ یہ لسٹ ہمیں متعلقہ ڈی پی اوز سے آتا ہے۔ اجلاس میں انٹیگریٹیڈ بارڈر مینیجمنٹ سسٹم کے بارے میں ایف آئی اے حکام نے بریفنگ دی اور بتایا کہ سال 2024 میں 2 کروڑ 11 لاکھ لوگوں کا ٹریول ریکارڈ رکھا، سال 2024 میں ایک کروڑ 3 لاکھ سے زائد غیر ملکی پاکستان آئے۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: سال 2024 میں ایف آئی اے نے کہا کہ دیتے ہیں

پڑھیں:

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا اقدام، ایک لاکھ ملازمین کی نوکریاں خطرے میں

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وفاقی کابینہ کی ریگولرائزیشن کمیٹی کے ذریعے مستقل کیے گئے ایک لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین، جن میں 34,000 سے زائد گریڈ 16 یا اس سے اوپر کے افسران شامل ہیں، کی ملازمتیں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس کے مطابق ان تمام کیسز کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن (FPSC) کو بھیجا جائے گا۔

سپریم کورٹ کے ایک مبینہ فیصلے کی بنیاد پر کیا گیا یہ اقدام مختلف وزارتوں اور اداروں میں طویل عرصے سے خدمات انجام دینے والے ملازمین میں شدید تشویش پیدا کر رہا ہے۔

جب وفاقی وزیر برائے اسٹیبلشمنٹ احد خان چیمہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں اس معاملے کی تفصیلات کا علم نہیں۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے 19 مارچ 2025 کو جاری کردہ اپنے دفتر کے یادداشت نمبر 1/29/20-Lit-III کے ذریعے ہدایت کی ہے کہ ریگولر ملازمین کے کیسز FPSC کو بھیجے جائیں۔ یہ وہ ملازمین ہیں جن کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے، اور جنہیں گزشتہ حکومت کی پالیسیوں کے تحت مستقل کیا گیا تھا اور اب وہ اپنی سروس کا ایک بڑا حصہ مکمل کر چکے ہیں۔

یہ ہدایت سپریم کورٹ کے فیصلے کی ایک تشریح کی بنیاد پر دی گئی ہے۔ پیر کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے اجلاس میں زیادہ تر اراکینِ قومی اسمبلی (MNAs) نے اس فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

ملازمین نے “دی نیوز” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جاری کردہ یادداشت میں ایک اہم قانونی سقم موجود ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ تمام اداروں پر ماضی کے اثرات کے ساتھ لاگو نہیں ہو سکتا، خصوصاً ان اداروں پر جو اس کیس میں فریق ہی نہیں تھے۔

مزید برآں، ہر ادارے کی نوعیت اور صورتحال مختلف ہے، اس لیے اس فیصلے کو “ان ریم” یعنی تمام پر یکساں لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ملازمین کا کہنا تھا، “ہمیں ابتدائی طور پر 1996 سے مختلف وزارتوں اور ان کے منسلک اداروں میں کنٹریکٹ پر رکھا گیا، جہاں باقاعدہ تحریری امتحانات، انٹرویوز اور وزارتوں کی سفارشات کے بعد ہمیں بھرتی کیا گیا۔

بعد ازاں وزیراعظم پاکستان کی منظوری سے کابینہ کمیٹی کے ذریعے ہمیں ریگولرائز کیا گیا۔”انہوں نے مزید کہا، “ہم میں سے بہت سے افراد دو دہائیوں سے زائد عرصہ قوم کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ ہماری ایک بڑی تعداد 45 سے 55 سال کی عمر کے درمیان ہے، جنہوں نے اپنی زندگی کے بہترین سال سرکاری ملازمت کے لیے وقف کر دیے۔

اب ہمیں FPSC کے نئے امتحانات اور انٹرویوز کے لیے بھیجنا عملی طور پر ہماری نوکری ختم کرنے کے مترادف ہے۔

ان ملازمین میں ہزاروں ماہر تکنیکی پیشہ ور شامل ہیں، جن میں کنسلٹنٹ ڈاکٹرز (جنرل سرجن، کارڈیک سرجن، پلاسٹک سرجن، ڈینٹل سرجن، پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ، میڈیکل اسپیشلسٹ/فزیشن، گائناکالوجسٹ، پیڈیاٹریشن) اور نرسز شامل ہیں، جنہوں نے کورونا وبا اور دہشتگردی جیسے قومی بحرانوں کے دوران خدمات انجام دیں۔

اس کے علاوہ پروفیسرز، لیکچررز، اساتذہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئرز اور دیگر افسران بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

ملازمین کا کہنا تھا کہ کابینہ کمیٹی نے ایک لاکھ سے زائد ملازمین کو ریگولرائز کیا تھا، جن میں 34,000 سے زائد گریڈ 16 اور اس سے اوپر کے افسران شامل ہیں۔

19 مارچ 2025 کی یادداشت کا اطلاق ان تمام ملازمین پر تباہ کن اثر ڈالے گا جنہوں نے نہ صرف مستقل ملازمت حاصل کی بلکہ اپنے سروس کے سال بھی مکمل کر لیے۔ انہوں نے وزیراعظم سے اس معاملے کا نوٹس لینے اور مناسب ہدایات جاری کرنے کی اپیل کی۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • سینیٹ اجلاس میں پی پی کا کینالز مںصوبے پر حکومت کے خلاف احتجاج، واک آؤٹ کرگئے
  • سینیٹ اجلاس: پوپ فرانسس کی وفات پر ایک منٹ کی خاموشی
  • کینالز کے معاملے پر پیپلز پارٹی منافقت کر رہی ہے، سینیٹر شبلی فراز
  • اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ
  • اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے: وزارت داخلہ
  • اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا اقدام، ایک لاکھ ملازمین کی نوکریاں خطرے میں
  • پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات بلند ترین سطح پر ،جولائی 2024 تامارچ 2025 ایک سال میں 9.38 فیصد اضافہ ہوا
  • شادی سے قبل دلہا دلہن کا تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی ہوگا؟ قائمہ کمیٹی اجلاس میں بحث
  • اناڑی ڈرائیور کو گاڑی دیتے نہیں، ایٹمی ملک حوالے کر دیا، احسن اقبال: قوم امیج بہتر بنائے، خواجہ آصف
  • جے یو آئی نے دریائے سندھ پر نئے کینالوں کیخلاف سینیٹ میں قرارداد جمع کرادی