MUMBI:

بالی وڈ کے باصلاحیت اداکار وکرانت میسی کی کہانی کسی فلمی پلاٹ سے کم نہیں، جنہوں نے2007 میں ٹی وی شو دھوم مچاؤ دھوم سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور بالیکا ودھو جیسے مشہور شوز کے ذریعے بھارتی ٹیلی ویژن انڈسٹری میں اپنی پہچان بنائی۔ 

وکرانت میسی12-2011 تک ٹی وی کی دنیا میں ایک مقبول نام بن چکے تھے اور ماہانہ 35 لاکھ روپے کمانے لگے تھے۔

تاہم، وکرانت نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ لیا اور فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کے لیے ٹی وی کو خیرآباد کہا۔

ان کا کہنا تھا، "میرے والدین حیران رہ گئے جب میں نے انہیں بتایا کہ میں فلموں میں اپنی نئی شروعات کرنے جا رہا ہوں"۔

فلموں میں ان کے ابتدائی دنوں میں انہیں معمولی کردار ملے، جیسے لٹیرا (2013) اور دل دھڑکنے دو (2015) تاہم انہیں بڑی کامیابی 2017 میں فلم اے ڈیتھ ان دا گنج سے ملی، جس کے بعد ان کے لیے کامیابی کے دروازے کھل گئے۔ 

وکرانت نے چھپاک (2020)، حسین دلربا (2021) اور ویب سیریز مرزا پور میں اپنی اداکاری سے خوب داد وصول کی۔

انہوں نے 2023 میں  فلم 12ویں فیل میں شان دار پرفارمنس دی، جس نے باکس آفس پر 69 کروڑ سے زیادہ کمائی کی، 2024 میں بھی وہ سبرمتی رپورٹ اور پھر آئی حسین دلربا جیسی فلموں اور ویب شوز میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے نظر آئے۔

وکرانت کی ذاتی زندگی بھی کافی دلچسپ ہے، وہ ایک سیکولر خاندان میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد مسیحی، والدہ سکھ، بھائی مسلمان اور بیوی ہندو ہیں۔

انہوں نے 12 فروری 2022 کو اداکارہ شیتل ٹھاکر سے شادی کی اور فروری 2025 میں وہ ایک بیٹے کے والد بنے۔ 

وکرانت کا کہنا تھا کہ "میرے گھر کا ماحول بہت متنوع ہے اور ہم سب ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرتے ہیں"۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں

تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جسمیں تازہ ترین مسائل کے بارے نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کیجاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںتجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: مسئلہ فلسطین اور امت مسلمہ ذمہ داریاں
قرآن و سنت کی نگاہ میں
مہمان تجزیہ نگار:  پروفیسرڈاکٹر زاہد علی زاہدی (ڈین فکیلٹی آف اسلامک اسٹیڈیز جامعہ کراچی)
میزبان و پیشکش: سید انجم رضا
تاریخ: 20 اپریل 2024

ابتدائیہ
 وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْراً﴾
ترجمہ: تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں جہاد نہیں کرتے؟ جب کہ کمزور مرد، خواتین اور بچے  پُکار پُکار کر کہہ رہے ہیں:
 یا رب! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کسی کو حامی بنا دیجیے اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مدد گار کھڑا کر دیجیے۔(سورہ نساء: 75)
 
ماہ اکتوبر ۲۰۲۳ء کی ۷تاریخ سے تاحال فلسطین کے باشندوں خصوصاً اہالیانِ غزہ پر اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی جاری ہے۔
نہتے بچوں، بوڑھوں، خواتین حتیٰ کہ پناہ گزین کیمپوں میں موجود معصوم انسانوں اور ہسپتالوں میں موجود زخمیوں اور بیماروں پر بمباری کی جارہی ہے، جس سے  ہزار وںسے زائد مسلمان شہید ہوچکے ہیں غزہ کے چاروں طرف محاصرہ کی بنا پر اہلِ غزہ پر خوراک، پانی، ایندھن اور ضروریاتِ زندگی کو تنگ کردیا گیا ہے،
جس کی بنا پر نہ صرف عالمِ اسلام کی عوام بلکہ انصاف پسند مغربی اقوام بھی سراپا احتجاج ہیں،
 لیکن اقوامِ متحدہ سمیت مسلم حکمران مذمتی قراردادوں کے پاس کرانے کے سوا کہیں آگے نہیں بڑھ رہے۔ ان حالات میں عالمِ اسلام کی عوام اور حکمرانوں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے
خلاصہ گفتگو، اہم نکات:
اسرائیلی مظالم تو اس کے وجود میں آنے کے بعد ہی شروع ہوگئے تھے
غزہ اس صدی  کا ایک انسانی المیہ بنتا رہا ہے
 
گزشتہ چوہتر برس میں زمینوں پہ قبضے کے بعد اب  نسل کشی  شروع کردی گئی ہے
صابرہ اور شتیلہ  سے لے کر  آج غزہ تک صیہونی مظالم کی تاریخ دنیا کے سامنے عیاں  ہے
پاکستان کے علما کو اب اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتویٰ  یاد آیا ہے
لیکن کیا صیہونی مظالم کے خلاف کسی فتویٰ کی بھی ضرورت ہے
سورہ نسا کی آیة  75 واضح طور پہ مسلمانوں پہ ظلم کرنے والوں سے قتال کا حکم دے رہی ہے
مسلمان علما کو تو مولا علیؑ کا خطبہ جہاد سُنانے کی ضرورت ہے
نہج البلاغہ کا خطبہ جہاد مسلمانوں کی حمایت و حفاظت کے لئے جہاد کا حکم بیان کرتا ہے
سیکورٹی کونسل اور اقوامِ متحدہ  عضو معطل بن چکی ہے
مسلمان حکمران بھی  اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کرنے سے گریزاں ہیں
اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا تو مسلمان حکمران اور عرب حکومتیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کو تیار ہوچکی تھیں
رہبرِ معظم نے مقاومت اور مزاحمت کو ایک نظریے کانام دیا ہے
مکتبِ مقاومت و مزاحمت اپنی نظریے سے ہٹ نہیں سکتے
جب کہ "مکتبِ مفاہمت" آج بھی اسرائیل اور امریکہ کے خوف میں مُبتلا ہے
قرآنِ مجید تو قتال و جنگ کا حکم دیتا ہے، حماس نے اسی پہ عمل کیا۔
حق کے لئے جنگ کرنے کا انحصار تعداد اور وسائل  پر نہیں ہوسکتا
آبرو مندانہ اورعزت کی زندگی گزارنے  کے لئے قیمت ادا کرنی پڑتی ہے
 

متعلقہ مضامین

  • وہ بالی ووڈ اداکار جو اربوں روپوں کے ذاتی جیٹ کے مالک ہیں
  • نیئر اعجاز کا بیوی کے سامنے ماضی کی محبتوں کے ذکر پر دو ٹوک مؤقف
  • Rich Dad -- Poor Dad
  • عماد عرفانی کی گلوکار علی عظمت کو دلچسپ انداز میں سالگرہ کی مبارکباد
  • بھارتی فلمساز انوراگ کشیپ کیخلاف متنازع بیان پر مقدمہ درج
  • بھارتی فلمساز انوراگ کشیپ کیخلاف متنازع بیان پر مقدمہ درج
  • فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسیحی آج ایسٹر کا تہوار منا رہے ہیں
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسیحی برادری آج ایسٹر کا تہوار منا رہی ہے
  • 5 فلموں سے 2200 کروڑ بھارتی روپے کمانے والے اداکار کون ہیں؟