ڈونلڈ ٹرمپ کا ہمشکل انوکھا کھانا بیچنے والا منظر عام پر آگیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
ساہیوال: پنجاب کے ضلع ساہیوال میں عوام سے بھرے بازار میں امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ہمشکل انوکھا کھانا بیچنے والا منظر عام پر آگیا۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کھانا بیچنے والا سلیم بگا نامی شخص ڈونلڈ ٹرمپ سے غیر معمولی مشابہت رکھتا ہے، اور دوسروں کے مقابلے میں زیادہ توجہ حاصل کرکے پیسے کماتا ہے۔
شہری محمد یاسین کا کہنا ہے کہ ہمیں لگتا ہے جیسے ٹرمپ یہاں کھیربیچنے آئے ہیں، مقامی رہائشی سلیم بگا سے میٹھا خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں، جو گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے گانا بھی گاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے جب سلیم بگا اپنے ٹھیلے پر مختلف گانے گاتا ہے تو ہم اس کے پاس کھچے چلے آتے ہیں۔
سلیم بگا رنگین لکڑی کے ٹھیلے کو سڑک کے ساتھ دھکیلتے ہوئے دودھ کی کھیر فروخت کرتا ہے، اس نے سردی سے بچائو کے لیے شلوار قمیض کے ساتھ سیاہ جیکٹ پہنی ہوتی ہے۔
بگا کو دیکھتے ہی ایک ہجوم اکٹھا ہوتا ہے، وہ مخصوص سنہرے بالوں والی رنگت سے کھیلتا ہے، اور ایک پنجابی گانے کے بول گاتا ہے کہ ”اب تم میرے پاس آؤ میری محبت، دیر نہ کرو، میری آنکھیں انتظار کرتے تھک گئی ہیں۔“
مقامی رہائشی عمران اشرف نے بگا کے ساتھ سیلفی لیتے ہوئے کہا کہ ’’اس کی کھیر واقعی مزیدار ہوتی ہے، ہم اس سے بات کرتے اور سیلفیاں لیتے ہیں، ہم اپنے دوستوں کو بتاتے ہیں کہ ہم نے ٹرمپ کے ساتھ تصاویر لی ہیں۔
کھیر فروش سلیم بگا پوری مارکیٹ اور ساہیوال ضلع میں اپنے آبائی محلے میں بھی لوگوں کی توجہ اور موبائل کیمروں سے بے نیاز ہے۔
سلیم بگا کا کہنا ہے کہ میرا چہرہ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملتا جلتا ہے، لوگ میرے ساتھ سیلفی لیتے ہیں، مجھے یہ سب بہت اچھا لگتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اب امریکا کے صدارتی الیکشن جیت چکے ہیں، میں ان کو دعوت دیتا ہوں کہ اب یہاں آئیں اور میری کھیر کھائیں، آپ کو بہت مزہ آئے گا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ سلیم بگا کے ساتھ
پڑھیں:
امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف سینکڑوں مظاہرے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) صدر ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت میں ان کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ہزاروں افراد ملک بھر میں منعقدہ درجنوں تقریبات میں سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے ٹرمپ کی جارحانہ امیگریشن پالیسیوں، بجٹ میں کٹوتیوں، یونیورسٹیوں، نیوز میڈیا اور قانونی اداروں پر دباؤ سمیت یوکرین اور غزہ کے تنازعات سے نمٹنے کی پالیسی کی مذمت کی۔
اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے ڈونلڈ ٹرمپ نے ارب پتی ایلون مسک کے ساتھ مل کر حکومتی اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کی ہیں۔ انہوں نے دو لاکھ سے زیادہ وفاقی ملازمین کو فارغ کیا اور اہم وفاقی ایجنسیوں جیسے کہ USAID اور محکمہ تعلیم کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں پر تنقیدٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی ریلیاں گروپ 50501 کی قیادت میں منعقد کی جا رہی ہیں، جس کا مطلب پچاس ریاستوں میں پچاس مظاہرے اور ایک تحریک کی نمائندگی کرنے والوں کا اتحاد ہے۔
(جاری ہے)
یہ گروپ اپنی احتجاجی ریلیوں کو "ٹرمپ انتظامیہ اور اس کے ساتھیوں کے جمہوریت مخالف اور غیر قانونی اقدامات کا ایک ردعمل قرار دیتا ہے۔"ایک احتجاجی ریلی میں اپنی پوری فیملی کے ساتھ شریک اسی سالہ تھامس باسفورڈ نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل اس ملک کی اصلیت کے بارے میں جانیں۔ ان کے بقول، آزادی کے لیے امریکہ میں یہ ایک بہت خطرناک وقت ہے۔
"بعض اوقات ہمیں آزادی کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔" 'امریکہ میں کوئی بادشاہ نہیں'مظاہرین نے ٹرمپ کی ملک بدری کی پالیسیوں کا نشانہ بننے والے تارکین وطن کے لیے حمایت کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان وفاقی ملازمین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا جنہوں نے اپنی ملازمتیں کھو دی تھیں۔ انہوں نے ان یونیورسٹیوں کے حق میں بھی آواز بلند کی جن کے فنڈز میں کٹوتی کا خطرہ ہے۔
نیویارک میں مظاہرین نے "امریکہ میں کوئی بادشاہ نہیں" اور "ظالم کے خلاف مزاحمت" جیسے نعروں کے ساتھ مارچ کیا۔
دارالحکومت واشنگٹن میں لوگوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ ٹرمپ جمہوریت اور ملک کے اقدار کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ مظاہرین نے کیفیہ اسکارف کے ساتھ مارچ کیا اور "آزاد فلسطین" کے نعرے لگائے۔ چند لوگوں نے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے یوکرین کا پرچم اٹھا رکھا تھا۔
امریکی مغربی ساحل پر واقع شہر سان فرانسسکو میں کچھ مظاہرین نے امریکی پرچم الٹا اٹھا رکھا تھا، جو عام طور پر پریشانی کی علامت ہے۔
ادارت: رابعہ بگٹی