اکتیس جنوری کی تلوار لٹکائی ہے اس سے قبل جواب دیدیں گے، عرفان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
اکتیس جنوری کی تلوار لٹکائی ہے اس سے قبل جواب دیدیں گے، عرفان صدیقی WhatsAppFacebookTwitter 0 14 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس )حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ 23 دسمبر کو مطالبات تحریری شکل میں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔31 جنوری کی تلوار لٹکائی ہے اس سے قبل جواب دیدیں گے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ 23 دسمبر سے آج 22 دن ہوگئے، اس دوران تحریری طور پر مطالبات نہیں دیئے جا سکے۔ اگر یہ مطالبات کو اتنے عرصے میں تحریری شکل نہیں دے سکے تو اس میں ہمارا قصور نہیں، 5 دسمبر کو کمیٹی قائم ہوئی، مگر اب تک تحریری مطالبات نہیں آئے، 2مطالبات سپیکر کو دیں جو کہ نہیں دیئے گئے۔جب نکات ہمارے سامنے آتے ہیں تو 7اتحادی جماعتوں سے مشاورت ہوگی، تمام اتحادی جماعتیں پھر اپنی قیادت سے مطالبات پر مشاورت کریں گی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: عرفان صدیقی
پڑھیں:
مودی حکومت کو ہٹ دھرمی چھوڑ کر مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنا چاہیئے، سرفراز احمد صدیقی
دہلی پردیش کانگریس کمیٹی کے سکریٹری نے کہا کہ یہ قانون کئی بنیادی حقوق کے خلاف ہے اور اقلیتوں کو متعدد دفعات میں دئے گئے حقوق و اختیارات سے متصادم ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وقف ترمیمی قانون پر جاری سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف انڈیا کے کئی شقوں پر عارضی روک کا خیرمقدم کرتے ہوئے دہلی پردیش کانگریس کمیٹی کے سکریٹری اور سپریم کورٹ کے معروف وکیل سرفراز احمد صدیقی نے کہا کہ مودی حکومت کو ہٹ دھری چھوڑ کر مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے وقف ترمیمی قانون کو واپس لے لینا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس نے نہ صرف حکومت کو آئینہ دکھایا ہے بلکہ اس کے منصوبے کو ناکام کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کا ایک ادنی سا طالب علم بھی ایسا غیر آئینی بل پیش کرنے اور نہ ہی اسے پاس کرانے کی حماقت کرے گا۔
ایڈووکیٹ سرفراز احمد صدیقی نے کہا کہ یہ قانون کئی بنیادی حقوق کے خلاف ہے اور اقلیتوں کو متعدد دفعات میں دئے گئے حقوق و اختیارات سے متصادم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود بھی حکومت کا پارلیمنٹ سے پاس کرانا مسلمانوں کے جذبات سے کھیلواڑ کرنے کے علاوہ اور کیا کہا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلے دن کی سماعت کے دوران جس طرح کے سوالات اٹھائے اور وقف ترمیمی قانون کے شقوں پر سوالیہ نشان لگایا اس سے ظاہر ہوگیا تھا کہ یہ قانون سپریم کورٹ میں ٹھہر نہیں پائے گا۔