UrduPoint:
2025-04-22@06:14:50 GMT

کھابوں کا شہر گوجرانوالہ: چور رائتہ اور سلاد بھی لے گئے

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

کھابوں کا شہر گوجرانوالہ: چور رائتہ اور سلاد بھی لے گئے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 جنوری 2025ء) مزے مزے کے روایتی کھانوں کے لیے ملک بھر میں مشہور گوجرانوالہ شہر میں ہونے والی اپنی نوعیت کی اس منفرد واردات کے بارے میں یہ سوال زبان زد عام ہے کہ چوروں نے کوئی دولت ، سونا یا قیمتی اشیا چرانے کی بجائے کھانوں کی دوکان سے کھانے پینے کی اشیا کیوں چرائیں۔ گوجرانوالہ کے سینئر سپرٹنڈنٹ پولیس رضوان طارق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے اپنے پولیس کیریئر میں اس طرح کی واردات پہلے کبھی نہیں دیکھی۔

ریسٹورنٹ کے مالک ملک زبیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب وہ مقدمہ درج کرانے تھانے پہنچے تو چرائی گئی چیزوں کی فہرست دیکھ کر پولیس اہلکار بھی حیران رہ گئے اس موقعے پر موجود کچھ لوگ اپنی ہنسی پر قابو نہ پا سکے۔

(جاری ہے)

پاکستانی بجٹ: عوام کو بہتری کی کوئی توقع نہیں؟

گوجرانوالہ کے تھانہ اروپ میں ملک وسیم کی طرف سے درج کروائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ چور ریسٹورنٹ کا دروازہ توڑ کر مبلغ ساٹھ ہزار روپے کی مالیت کا جو سامان چرا کر لے گئے ہیں اس میں ڈیڑھ من چکن پکوڑہ، پچیس کلو مچھلی، دو پیٹی گھی، دس کلو رائتہ اور چار کلو سلاد کے علاوہ پانچ بڑے برتن (پتیلے) بھی شامل تھے۔

اس واردات کے بعد تعزیرات پاکستان کی دفعہ تین سو اسی کے تحت مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔

تفصیلات کے مطابق کوٹ اسحاق کے رہائشی ملک وسیم نے حافظ آباد روڈ پر عکاشہ تکہ شاپ کے نام سے کھانے پینے کی ایک دوکان بنا رکھی ہے۔ چند روز پہلے جب رات کے پچھلے پہر کوئی تین بجے کے قریب وہ دوکان بند کر کے گھر گیا تو اس کے جانے کے بعد نامعلوم چور اس کی دکان پر آئے اور تالا توڑ کر کھانے پینے کا سامان چوری کرکے لے گئے۔

ملک وسیم اگلے روز وہاں پہنچا تو اس کو ٹوٹے ہوئے تالے اور خالی فریج دیکھ کر اس چوری کی واردات کا علم ہوا۔

گوجرانوالہ میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کسی بھوکے چوروں کی کارستانی ہو سکتی ہے لیکن ان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ چوروں کو اتنے زیادہ کھانے پتیلیوں سمیت لے جانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟

گوجرانوالہ کے سینئر سپرتنڈنٹ پولیس رضوان طارق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ چور کھانوں کی فروخت سے حاصل ہونے والے پیسوں کو چرانے کے لیے اس ریسٹورنٹ پر آئے لیکن تالے توڑنے پر انہیں معلوم ہوا کہ یہاں پیسے نہیں ہیں تو پھر وہ کھانے اور دیگر اشیا اٹھا کر لے گئے۔

پاکستانی کھانے کہاں غائب ہو رہے ہیں؟

ابتدائی تحقیقات کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا،'' پولیس کی ایک خصوصی ٹیم اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ بدقسمتی سے متاثرہ ریسٹورنٹ جو کہ ایک دوکان میں واقع ہے۔ اس پر یا اس کے آس پاس کوئی کیمرا موجود نہیں ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ چرایا جانے والا سامان کندھوں پر لے کر جانا مشکل ہے چور کسی گاڑی یا رکشے پر آئے ہوں گے۔

ہم اس دکان کے دونوں طرف جانے والے راستوں پر نصب کیمروں کی مدد سے واردات کے وقت آنے جانے والی ٹریفک کی فوٹیج کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ چور جلد قانون کی گرفت میں ہوں گے۔ ‘‘

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کھانے پینے کی اشیا لوٹنے کی واردات حالات کی سنگینی کی عکاسی بھی کرتی ہے، مقامی صحافی شفقت عمران کہتے ہیں کہ چند ہفتے پہلے گوجرانوالہ کے علاقے چاندی چوک کے قریب مسلح افراد گن پوائنٹ پر راہ چلتے شخص سے پانچ کلو مٹن کا پیکٹ چھین کر فرار ہو گئے تھے۔

ان کے مطابق لگتا ہے کہ چوروں ڈاکوؤں میں بھی پارٹی کرنے کا رجحان پیدا ہو رہا ہے۔ ان کے نزدیک بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے اسٹریٹ کرائم بڑھ رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اچھی بات یہ ہے کہ ملزم پکڑے بھی جا رہے ہیں۔

چکن تکہ مسالا کا موجد فوت

متاثرہ ریسٹورنٹ کے مالک تیس سالہ ملک وسیم اسی علاقے کے رہائشی ہیں اور وہ پچھلے پندرہ سال سے اس ریسٹورنٹ کو چلا رہے ہیں۔

یہاں صبح کے وقت ناشتہ پائے اور چنے وغیرہ کے ساتھ ملتا ہے شام کو مچھلی اور چکن کی ڈشز اور بار بی کیو فروخت ہوتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ملک وسیم نے بتایا کہ چور اس کی دکان سے گھی کے کنستروں سمیت سب کچھ اٹھا کر لے گئے ۔

ملک وسیم نے اس واردات کے فوراً بعد اپنی دوکان دوبارہ شروع کر دی تھی۔ اس نے بتایا کہ گوجرانوالہ میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے، اس واردات کے بعد ڈاکو گن پوائینٹ پر سب کے سامنے اسی علاقے میں پنجاب سینٹری اسٹور کو لوٹ کر لے گئے۔

ان کے مطابق اس علاقے میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر نہیں ہے۔ اس واقعے کے بعد تاجر برادری خوف و ہراس کا شکار ہے۔

ایس ایس پی رضوان طارق ملک وسیم کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ گنجان آبادی پر مشتمل ہے یہاں آبادی کے مطابق جرائم کی وارداتیں سامنے آتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ بات درست نہیں ہے کہ گوجرانوالہ میں سکیورٹی کے حالات بہت خراب ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد گوجرانوالہ میں حفاظتی گشت بڑھا دیا گیا ہے، مقامی چوکیداری نظام کو بھی سرگرم کیا گیا ہے اور عکاشہ ریسٹورنٹ کی رات پٹرولنگ پر مامور پولیس عملے کی بھی سرزنش کی گئی ہے۔

یاد رہے گوجرانوالہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا اہم شہر ہے۔ یہ سکھ سلطنت کے بانی رنجیت سنگھ کی جائے پیدائش بھی ہے۔ اسے پہلوانوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کے بار بی کیو اور چکن کڑاہی سے لطف لندوز ہونے کے لیے دور دور سے لوگ یہاں آتے ہیں۔ یونان کشتی الٹنے کے واقعے کی پہلی ایف آئی آر بھی ادھر درج ہوئی تھی۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی سمیت پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف مقدمات بھی اسی شہر میں درج کئے گئے تھے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کھانے پینے کی واردات واردات کے کر لے گئے کے مطابق ملک وسیم رہے ہیں نہیں ہے کے بعد

پڑھیں:

فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری

غزہ کی صورتحال، فلسطین کی صورتحال، دن بدن نہیں لمحہ بہ لمحہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی جا رہی ہے اور اسرائیل تمام اخلاقیات، تمام قوانین، تمام معاہدات کو پامال کرتے ہوئے اس درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس پر دنیا کی خاموشی بالخصوص عالمِ اسلام کے حکمرانوں پر سکوتِ مرگ طاری ہے۔ مجھے تو بغداد کی تباہی کا منظر نگاہوں کے سامنے آ گیا ہے، جب تاتاریوں کے ہاتھوں خلافتِ عباسیہ کا خاتمہ ہوا تھا، بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی، اور اس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی، آج پھر ’’بغداد‘‘ کی تباہی کا منظر ہمارے سامنے ہے، اسرائیل اور اس کے پشت پناہ، آج وہ چادر جو انہوں نے اوڑھ رکھی تھی، مغرب نے، امریکہ نے، یورپی یونین نے، عالمی طاقتوں نے، انسانی حقوق کی، بین الاقوامی معاہدات کی، انسانی اخلاقیات کی، وہ آج سب کی چادر اسرائیلی درندگی کے ہاتھوں تار تار ہو چکی ہے۔لیکن اس سے زیادہ صورتحال پریشان کن، اضطراب انگیز یہ ہے کہ مسلم حکمران بھی اسی مصلحت کا، مصلحت نہیں بے غیرتی کا شکار ہو گئے ہیں۔ آج او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کو، عرب لیگ کو، مسلم حکمرانوں کو، جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ اس کے لیے مل بیٹھ کر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اور امتِ مسلمہ، عالمِ اسلام سناٹے کے عالم میں اپنے حکمرانوں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ ہمارے ہی حکمران ہیں، کون ہیں یہ؟لے دے کے دینی حلقوں کی طرف سے دنیا بھر میں کچھ نہ کچھ آواز اٹھ رہی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ملتِ اسلامیہ بحیثیت ملتِ اسلامیہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ نہیں، اپنی دینی قیادتوں کے ساتھ ہے جو کسی نہ کسی انداز میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں، اس آواز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔میں اس موقع پر دنیا بھر کے دینی حلقوں سے، علماء کرام سے، یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ آج کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے تاتاریوں کی یلغار اور بغداد کی تباہی کا ایک دفعہ پھر مطالعہ کر لیں، کیا ہوا تھا؟ کس نے کیا کیا تھا؟ اور کون سے حلقے تھے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کی تباہی کی راہ ہموار کی تھی اور کون سے لوگ تھے جنہوں نے اس وقت ملتِ اسلامیہ کو سہارا دیا تھا؟ مجھے اس وقت کی دو بڑی شخصیتیں ذہن میں آ رہی ہیں (۱) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ اور (۲) شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلام رحمہ اللہ تعالیٰ، دینی قیادت تھی، سامنے آئے تھے، امت کو سنبھالا تھا، مقابلہ کر سکے یا نہ کر سکے، امت کو سنبھالنا، امت کا حوصلہ قائم رکھنا، اور اپنے مشن کے تسلسل کو قائم رکھنا، یہ تو بہرحال بہرحال دینی قیادتوں کی ذمہ داری ہے، علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ حمیت کو باقی رکھیں، غیرت کو باقی رکھیں۔تو میری پہلی درخواست تو علماء کرام سے ہے، کسی بھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی فقہی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، کہ آج شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلامؒ کے کردار کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ویسے تو فقہاء نے لکھا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمان مظلوم ہوں، ذبح ہو رہے ہوں، تو دنیا بھر کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے، ہماری فقہی صورتحال تو یہ ہے، درجہ بدرجہ ’’   علی الاقرب فالاقرب‘‘  ،   ’’الاول فالاول‘‘۔ لیکن بہرحال مجموعی طور پر ہم امتِ مسلمہ پر جہاد کی فرضیت کا اصول اس وقت لاگو نہیں ہو گا تو کب لاگو ہو گا۔
لیکن بہرحال ہمیں اپنے اپنے دائرے میں امتِ مسلمہ کا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے، بیدار رکھنے کے لیے، فکری تیاری کے لیے۔اور دو تین محاذ ہمارے ہیں: ایک تو یہ ہے کہ علماء کرام ہر علاقے میں ہر طبقے میں ہر دائرے میں اپنے کردار کو اپنے حوصلے کو قائم رکھتے ہوئے امت کا حوصلہ قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج ایک محاذ میڈیا وار کا بھی ہے، لابنگ کا بھی ہے، اس میں جو لوگ صلاحیت رکھتے ہیں ان کو کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور تیسرا محاذ بائیکاٹ کا ہے، اب تو یہ مرحلہ آ گیا ہے، اسرائیل نہیں، اس کے سرپرستوں کے معاشی بائیکاٹ کی بھی ضرورت پیش آ رہی ہے، اور یہ معاشی بائیکاٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں معاشی بائیکاٹ حضورؐ کا بھی ہوا ہے، حضورؐ نے بھی کیا ہے۔ شعبِ ابی طالب میں حضورؐ کا ہوا تھا، غزوہ خندق میں حضورؐ نے کیا تھا۔ اور اس کی مختلف مثالیں موجود ہیں۔تو لابنگ کی جنگ، میڈیا کی جنگ، حوصلہ قائم رکھنے کی جنگ، اور معاشی بائیکاٹ، اس میں جس قدر ہم زیادہ توجہ دے سکیں۔ کوئی لکھ سکتا ہے تو لکھے، بول سکتا ہے تو بولے، خرچ کر سکتا ہے تو خرچ کرے، کوئی لوگوں کے ساتھ رابطے کر سکتا ہے تو رابطے کرے۔ جو بھی کسی میں صلاحیت ہے، آج یہ وقت ہے، جو بھی کسی کے پاس موقع ہے، توفیق ہے، صلاحیت ہے، وہ اس کو اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے، فلسطین کی آزادی کے لیے، اسرائیلی درندگی کی مذمت کے لیے، اس میں رکاوٹ کے لیے، مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی آزادی کے لیے، جو بھی کر سکتا ہے وہ کرے۔ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ ایک مثال دیا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو ایک چڑیا چونچ میں پانی ڈالتی تھی، ایک پرندہ تھا، اس سے کسی نے پوچھا، تیرے پانی ڈالنے سے کیا ہو گا؟ اس نے کہا، ہو گا یا نہیں ہو گا، میری جتنی چونچ ہے اتنا پانی تو میں ڈالوں گی۔ یہ کم از کم کہ جو ہم کر سکتے ہیں وہ تو کریں، میں دیانت داری کے ساتھ (کہوں گا) کہ مجھے، سب کو اپنے اپنے ماحول کو دیکھنا چاہیے، اپنی اپنی توفیقات کو دیکھنا چاہیے اور جو کر سکتے ہیں اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے مظلوم فلسطینی بھائیوں پر رحم فرمائے، ہم پر رحم فرمائے۔ مولا کریم! فلسطین کی آزادی، غزہ کے مسلمانوں کی اسرائیلی درندگی سے گلوخلاصی، اور اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی بدمعاشی سے نجات دلانے کے لیے اللہ پاک ہمیں توفیق عطا فرمائیں اور خود مہربانی فرمائیں، فضل فرمائیں کہ اس مرحلے پر عالمِ اسلام کی، امتِ مسلمہ کی دستگیری فرمائیں، ان کو اس عذاب سے نجات دلائیں۔

متعلقہ مضامین

  • پی پی گوجرانوالہ کا اجلاس‘ حلقہ 52 کا ضمنی الیکشن ہر صورت لڑیں گے: گورنر
  • لاہور: ڈاکو اوورسیز پاکستانی خاتون پر تشدد کرنے کے بعد سونے کی چین چھین کر فرار
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • بجلی
  • گوجرانوالہ اور نارروال سے جعلی شناختی کارڈ بنوانے والا ایجنٹ اور انسانی اسمگلر گرفتار
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے
  • Forwarded As Received
  • ایف آئی آر کی کہانی
  • اور ماں چلی گئی