UrduPoint:
2025-04-22@07:28:37 GMT

درجنوں اسرائیلی فوجیوں کا غزہ میں لڑنے سے مشروط انکار

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

درجنوں اسرائیلی فوجیوں کا غزہ میں لڑنے سے مشروط انکار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 جنوری 2025ء) خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق غزہ کی جنگ میں مزید حصہ نہ لینے سے متعلق اسرائیلی فوجیوں کا یہ خط ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب اسرائیل اور حماس پر لڑائی ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ فائر بندی کے لیے بات چیت جاری ہے، اور امریکی صدر جو بائیڈن اور نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں نے 20 جنوری سے قبل کسی سیزفائر معاہدے تک پہنچنے پر زور دیا ہے۔

غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد ریکارڈ سے 40 فیصد زیادہ، لینسیٹ

جن اسرائیلی فوجیوں نے اس خط پر دستخط کیے ہیں، ان میں سے سات نے اپنے انکار کی وجوہات پر اے پی سے بات چیت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ فلسطینیوں کو ''بے دریغ مارنے اور ان کے مکانوں کو نذر آتش کرنے‘‘ کے حق میں نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

کئی فوجیوں نے بتایا کہ انہیں ایسے گھروں کو بھی، جن سے کوئی خطرہ نہیں تھا، جلانے یا گرانے کا حکم دیا گیا تھا اور انہوں نے ''فوجیوں کو لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کرتے‘‘ بھی دیکھا۔

لڑنے سے مشروط انکار کرنے والے فوجیوں کا کہنا ہے کہ خط پر اگرچہ 200 دستخط ہیں لیکن اور بھی بہت سے فوجی ان کے خیالات سے متفق ہیں۔

’قتل کا ناقابل فراموش منظر‘

غزہ پٹی میں لڑنے سے انکار کرنے والے ایک افسر 28 سالہ یوتم ولک کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ایک نہتے فلسطینی نوجوان کے 'قتل کا منظر‘ ان کے ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا ہے۔

غزہ کے ہیومینیٹیرین زون میں اسرائیلی حملہ، گیارہ ہلاکتیں

انہوں نے اے پی کو بتایا کہ غزہ میں اسرائیل کے زیرقبضہ بفر زون میں داخل ہونے والے کسی بھی غیر مجاز شخص کو گولی مار دینے کا حکم ہے۔ یوتم کا کہنا تھا کہ انہوں نے کم از کم 12 افراد کو بفر زون میں فائرنگ سے زخمی ہوتے دیکھا ہے۔

ولک ان اسرائیلی فوجیوں میں شامل ہیں، جو پندرہ ماہ سے جاری اس تنازعے کے خلاف ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس لڑائی کے دوران ایسی چیزیں دیکھیں یا کی ہیں، جو ان کی نظر میں 'غیر اخلاقی‘ تھیں۔

ولک کا کہنا تھا کہ جب وہ نومبر 2023 میں غزہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے سوچا تھا کہ طاقت کا ابتدائی استعمال دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے۔ لیکن جنگ طول پکڑ گئی۔ ولک نے مزید کہا کہ انہوں نے انسانی زندگی کی قدروں کو بکھرتے دیکھا ہے۔

اسرائیلی فوج کے طبی شعبے سے وابستہ 27 سالہ یووال گرین نے غزہ میں دو ماہ گزارنے کے بعد گزشتہ جنوری میں فوج کو چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے وہاں جو کچھ ہوتے ہوئے دیکھا، اس کے ساتھ وہ زندگی نہیں گزار سکتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ فوجیوں نے گھروں کی بے حرمتی کی۔ ہسپتالوں کو نقصان پہنچایا۔ لوٹ مار کی، ''حتٰی کہ وہ عبادت گاہوں تک سے چیزیں لوٹ کر لے گئے۔

‘‘ حماس بھی ہلاکتوں کی ذمہ دار

ولک کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ ہلاکتوں کی ذمہ دار حماس بھی ہے۔ ایک گرفتار فلسطینی نے بتایا تھا کہ حماس نے کچھ لوگوں کو بفر زون میں جانے کے لیے 25 ڈالر فی کس دیے تھے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اسرائیلی فوج کا ردعمل کیا ہو گا۔

حماس نے 34 یرغمالیوں کے بارے میں تفصیلات نہیں دیں، اسرائیل

ولک کہتے ہیں کہ بفر زون میں آنے والوں کو مارنے سے پہلے فوج نے انتباہی گولیاں بھی چلائی تھیں، لیکن ان کا خیال ہے کہ 'نہتے لوگوں‘ کو ہلاک کرنے میں جلدی کی گئی۔

کچھ فوجیوں نے اے پی کو بتایا کہ انہوں نے غزہ میں جو کچھ ہوتے ہوئے دیکھا، اسے ذہنی طور پر قبول کرنے میں وقت لگا۔ کئی دوسرے فوجیوں نے کہا کہ بعض واقعات ایسے تھے کہ ان کا فوری طور پر فوج کی نوکری چھوڑ دینے کو دل چاہا۔

لیکن فوج میں ایسے لوگ بھی ہیں جو جنگ سے انکار کی تحریک کی مخالفت کر رہے ہیں۔

اسرائیلی فوج کا ردعمل

اسرائیلی فوج نے اے پی کو بتایا کہ وہ فوجی خدمات انجام دینے سے انکار کرنے کی مذمت کرتی ہے۔

اپنے ایک بیان میں فوج نے کہا ہے کہ ایسے فوجیوں کو جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ تاہم ابھی تک کسی کو بھی حراست میں نہیں لیا گیا۔

اسرائیلی فوج نے بتایا کہ اس سلسلے میں ہر کیس کو انفرادی طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اسرائیل میں جنگ کے طول پکڑنے کے ساتھ اس پر تنقید بڑھ رہی ہے۔ لیکن ملک کے اندر زیادہ تر تنقید یرغمالیوں کو واپس لانے کے لیے فائر بندی پر مرکوز ہے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں اسرائیل پر غزہ میں جنگی جرائم اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا الزام لگا چکی ہیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف جنوبی افریقہ کی طرف سے عائد کردہ بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے، اور وہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کر رہی ہے۔

لیکن اسرائیل کاغیر معمولی تعداد میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ فوج کبھی بھی جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ نہیں بناتی اور فلسطینی شہری آبادی کے پہنچنے والے نقصانات کو کم سے کم رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جاتے ہیں۔

ج ا ⁄ ع ا، م م ( اے پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیلی فوجیوں کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج کہ انہوں نے فوجیوں نے نے بتایا کے لیے فوج نے

پڑھیں:

اسرائیل کی غزہ میں جنگ روکنے کے لیے ناقابلِ قبول شرائط

ایک اسرائیلی میڈیا آؤٹ لیٹ نے اتوار کو غزہ میں نسل کشی روکنے کے لیے چار ناقابل قبول اسرائیلی شرائط کا انکشاف کیا۔ اسلام ٹائمز۔ آج بروز اتوار، ایک اسرائیلی میڈیا چینل نے غزہ میں نسل کشی کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی چار ناقابلِ قبول شرائط کو بے نقاب کیا۔ فارس نیوز مطابق، اسرائیلی چینل i24NEWS نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں جنگ کا خاتمہ اسرائیل کی درج ذیل چار شرائط کی تکمیل پر منحصر ہے، تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، حماس کا مکمل طور پر اقتدار سے دستبردار ہونا، غزہ پٹی کا مکمل غیر مسلح ہونا اور حماس کے درجنوں رہنماؤں کو ملک بدر کرنا۔ یہ شرائط ایسے وقت میں پیش کی جا رہی ہیں جب حماس کئی بار واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی جنگ کے خاتمے سے مشروط ہے، اور وہ مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کرنے یا اپنے رہنماؤں کو وطن سے نکالنے کی شرائط کو قبول نہیں کرے گی۔

اس سے قبل، حماس کے ایک رہنما نے المیادین ٹی وی کو بتایا تھا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا اور اس کی غزہ میں واپسی کو روکنا اسرائیل کے پیش کردہ جنگ بندی کے منصوبے کا مرکزی نکتہ ہے، جبکہ اس میں مستقل جنگ بندی یا اسرائیلی افواج کی مکمل واپسی جیسے بنیادی مطالبات شامل نہیں ہیں۔ اسرائیل صرف حماس سے قیدیوں کا کارڈ چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔ حماس نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ وہ ایک جامع قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ جنگ مکمل طور پر بند کی جائے، اسرائیلی فوج غزہ سے نکل جائے، باریکے کی تعمیر نو کا آغاز ہو، اور محاصرہ ختم کیا جائے۔

دوسری جانب، اسرائیلی وزیراعظم نے گزشتہ شب مظاہروں اور طوماروں کے باوجود جن پر عام شہریوں، ریزرو فوجیوں اور ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں نے دستخط کیے تھے تاکہ قیدیوں کی واپسی کے لیے جنگ بندی کی جائے کہا کہ ہمارے پاس فتح تک جنگ جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم ایک نازک مرحلے میں ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ حماس نے زندہ قیدیوں میں سے نصف اور کئی ہلاک شدگان کی لاشوں کی رہائی کی پیشکش کو مسترد کر دیا اور جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا، جو ناقابلِ قبول ہے۔ یہ دعویٰ ایسی حالت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے جمعرات کی شب اعلان کیا کہ حماس اسرائیل کے ساتھ فوری طور پر ایک جامع پیکیج مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

اس پیکیج میں تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، متفقہ تعداد میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی، مکمل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی انخلاء، تعمیر نو کی بحالی اور محاصرہ ختم کرنا شامل ہیں۔ خلیل الحیہ، جو مذاکراتی ٹیم کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ غزہ سے متعلق جزوی معاہدے دراصل نیتن یاہو کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہیں، جو جنگ، نسل کشی اور بھوک کے تسلسل پر مبنی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں جنگ بندی کیلئے قطر اور مصر نے نئی تجویز پیش کردی
  • ڈیوڈ وارنر کا بچے سے ہاتھ ملانے سے انکار، آسٹریلوی کھلاڑی تنقید کی زد میں
  • وفاقی حکومت نے پاکستان کے نوجوانوں کی سماجی و معاشی خودمختاری کے لیے درجنوں پروگرامز شروع کیے ہیں،چیئرمین یوتھ پروگرام رانا مشہود
  • وزیراعظم نے بیوروکریسی کی کارکردگی جانچنے کا نیا نظام منظور کرلیا، FBR پر تجربہ کامیاب، تنخواہیں کامیابی سے مشروط
  • مولانا فضل الرحمن کا پاکستان تحریک انصاف کیساتھ سیاسی اتحاد کرنے سے انکار
  • اسرائیلی فوج کا غزہ میں پروفیشنل ناکامیوں کا اعتراف
  • اسرائیل کی غزہ میں جنگ روکنے کے لیے ناقابلِ قبول شرائط
  • نوبل انعام یافتہ اور درجنوں دیگر ماہرین اقتصادیات کا امریکی ٹیرف پالیسیوں کی مخالفت میں اعلامیہ
  • باجوڑ میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعے میں درجنوں بکریاں ہلاک
  • غزہ میں مزاحمت کاروں نے اسرائیلی ٹینک کو اڑا دیا، ایک افسر ہلاک، کئی زخمی