WE News:
2025-04-22@14:27:05 GMT

بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط

بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان 2 طرفہ تجارتی تعلقات کو بڑھانے کے لیے مشترکہ بزنس کونسل کے قیام کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کے ساتھ ’بنگلہ دیش-پاکستان بزنس فورم‘ دارالحکومت ڈھاکہ میں اختتام پذیر ہوگیا ہے۔

بنگلہ دیش اور پاکستان کے کاروباری رہنماؤں نے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کو بڑھانے اور زراعت، ٹیکسٹائل اور فارماسیوٹیکل سمیت دیگر شعبوں میں نئے مواقع تلاش کرنے کے لیے مشترکہ اقدامات پر زور دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیبں: پاکستانی تجارتی وفد کا12 سال بعد دورہ بنگلہ دیش، تعلقات مزید گہرے کرنے پر اتفاق

فیڈریشن آف بنگلہ دیش چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایڈمنسٹریٹر حفیظ الرحمان کی زیر صدارت دارالحکومت ڈھاکہ میں ’بنگلہ دیش-پاکستان بزنس فورم‘ کے انعقاد کے بعد جاری اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک کے وفود نے علاقائی اور عالمی پلیٹ فارمز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باہمی تجارت کو مضبوط بنانے کی تجویز دی ہے۔

اپنے خطاب میں، حفیظ الرحمان نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں مسلسل ترقی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ زراعت، ٹیکسٹائل، فارماسیوٹیکل، اور انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی جیسے اہم شعبوں میں تعاون اور تجارت کی گنجائش موجود ہے۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش کا پاکستان کے لیے قوانین میں نرمی کا اعلان، اب ویزا آن لائن دستیاب ہوگا

انہوں نے مشترکہ کوششوں کے ذریعے دو طرفہ تجارت کو نمایاں طور پر فروغ دینے کی صلاحیت پر زور دیتے ہوئے ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن اور اسلامی تعاون تنظیم جیسے پلیٹ فارمز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تعلقات کو مضبوط بنانے کی تجویز بھی پیش کی۔

حفیط الرحمان نے چوتھے صنعتی انقلاب کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے توانائی، تعلیم، ٹیکنالوجی، انسانی وسائل اور اختراع جیسے شعبوں میں تعاون کے امکانات کی طرف بھی اشارہ کیا۔

انہوں نے باہمی تجارتی مفادات کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ ورکشاپس، سیمینارز، بزنس ٹو بزنس میٹنگز اور سنگل کنٹری تجارتی میلوں کے انعقاد کی تجاویز بھی پیش کیں۔

مزید پڑھیں:پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان میڈیا تعاون بڑھانے پر غور

اپنے ہم منصب سے اتفاق کرتے ہوئے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عاطف اکرام شیخ نے دونوں ملکوں کے مابین زراعت، فارماسیوٹیکل، چمڑے، مشینری، کیمیکلز اور آئی سی ٹی کے شعبوں میں وسیع تجارتی امکانات پر زور دیا۔

عاطف اکرام شیخ نے تجویز پیش کی کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو بڑھانے کے لیے علاقائی رابطوں کو بروئے کار لانا چاہیے۔ تاہم، انہوں نے ہموار تجارت کو آسان بنانے کے لیے انفرا اسٹرکچر، بندرگاہوں اور لاجسٹکس کی صلاحیت میں بہتری کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

مزید پڑھیں:پاکستانی وزیر خارجہ کا 12 سال بعد دورہ بنگلہ دیش، کیا توقعات وابستہ ہیں؟

ایف پی سی سی آئی کے سینیئر نائب صدر شکیب فیاض مگن نے اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے زرعی شعبے میں تعاون اور تکنیکی مہارت کے تبادلے کی اہمیت پر زور دیا۔

یہ فورم ایف بی سی سی آئی اور ایف پی سی سی آئی کے درمیان دو طرفہ تجارتی تعلقات کو بڑھانے کے لیے مشترکہ بزنس کونسل کے قیام کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

تقریب میں ڈھاکہ میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر محمد واصف، وزارت تجارت کی ایڈیشنل سیکرٹری نازنین کوثر چودھری، ایف بی سی سی آئی کے سابق ڈائریکٹرز اور دونوں ممالک کے دیگر ممتاز کاروباری رہنماؤں نے شرکت کی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

باہمی تجارت بنگلہ دیش پاکستان ٹیکسٹائل حفیط الرحمان ڈھاکہ زراعت.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: باہمی تجارت بنگلہ دیش پاکستان ٹیکسٹائل حفیط الرحمان ڈھاکہ دونوں ممالک کے باہمی تجارت پاکستان کے کے درمیان کو بڑھانے بنگلہ دیش زور دیا

پڑھیں:

پاکستان اور ایران کے تعلقات، چیلنجز اور تعاون کی راہ

اسلام ٹائمز: ضیاءالحق کے دور میں اقتدار کی سیاست نے ریاستی سطح پر فرقہ واریت کو فروغ دیا اور اس ماحول میں ایران مخالف بیانیے کو باقاعدہ پالیسی کا درجہ دے دیا گیا۔ انقلاب اسلامی کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر پیش کیا گیا، جسکے نتیجے میں پاکستان کی شیعہ آبادی پر دباؤ بڑھا اور فرقہ وارانہ گروہوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوئی۔ بیک وقت، ایران کے ساتھ رسمی تعلقات کا ظاہری تاثر بھی قائم رکھا گیا۔ یہ دوہری اور متضاد حکمت عملی نہ صرف داخلی ہم آہنگی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئی، بلکہ ایران کے ساتھ باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات بھی مجروح ہوئے۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی

پاکستان اور ایران کے بلوچستان و سیستان کے سرحدی علاقے طویل عرصے سے دہشتگردی اور بدامنی کی لپیٹ میں ہیں، جہاں دونوں ممالک کو یکساں نوعیت کے خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم، ان کے درمیان دہشتگردی کیخلاف مؤثر تعاون اور مشترکہ حکمت عملی کی واضح کمی ہے۔ باہمی اعتماد، معلومات کا تبادلہ اور عملی اشتراک جیسے بنیادی تقاضے اب تک مکمل طور پر قائم نہیں ہوسکے۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً اعلیٰ سطحی وفود کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے، لیکن ان ملاقاتوں کے نتائج دیرپا اور مؤثر ثابت نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں جانب وقتاً فوقتاً ناخوشگوار اور خونریز واقعات جنم لیتے ہیں، جنہیں رسمی بیانات سے نہیں بلکہ سنجیدہ، مربوط اور عملی اقدامات کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔

ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد پاکستان کیساتھ اس کے تعلقات میں بتدریج سرد مہری پیدا ہوئی۔ اس تبدیلی کی ایک بڑی وجہ ایران کا امریکہ مخالف مؤقف تھا، جبکہ پاکستان اُس وقت افغان جہاد کے تناظر میں امریکی بلاک کا فعال رکن بن چکا تھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس دور میں مکمل طور پر امریکی اثر و نفوذ کے تحت آچکی تھی، جبکہ ایران میں انقلاب کے بعد شدید امریکہ دشمنی غالب آچکی تھی۔ یہ نظریاتی تفاوت دونوں ممالک کے درمیان فاصلے کا باعث بنا۔ عرب ممالک نے بھی انقلاب اسلامی کو شک کی نظر سے دیکھا اور چونکہ پاکستان کے ان سے تاریخی طور پر نیازمندانہ تعلقات تھے، اس لیے ان کے تحفظات نے بھی ایران سے روابط پر منفی اثر ڈالا۔

ضیاءالحق کے دور میں اقتدار کی سیاست نے ریاستی سطح پر فرقہ واریت کو فروغ دیا اور اس ماحول میں ایران مخالف بیانیے کو باقاعدہ پالیسی کا درجہ دے دیا گیا۔ انقلاب اسلامی کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر پیش کیا گیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کی شیعہ آبادی پر دباؤ بڑھا اور فرقہ وارانہ گروہوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوئی۔ بیک وقت، ایران کے ساتھ رسمی تعلقات کا ظاہری تاثر بھی قائم رکھا گیا۔ یہ دوہری اور متضاد حکمت عملی نہ صرف داخلی ہم آہنگی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئی، بلکہ ایران کے ساتھ باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات بھی مجروح ہوئے۔ آج بھی ایران اور پاکستان کے تعلقات میں کئی داخلی و خارجی عوامل حساسیت اور پیچیدگی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

علاقائی سیاست، بین الاقوامی دباؤ اور بعض مذہبی گروہوں کا کردار ان رکاوٹوں کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔ اگرچہ دونوں طرف سے تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار ہوتا رہتا ہے، لیکن کبھی خارجی دباؤ، کبھی داخلی پالیسیاں اور کبھی سکیورٹی خدشات اس راہ میں حائل رہتے ہیں۔ ماضی کے داخلی و خارجی اسباب آج بھی مؤثر ہیں، تاہم چند نئی پیچیدگیاں بھی جنم لے چکی ہیں۔ عرب ممالک، امریکہ اور بعض عالمی معاہدات کی نوعیت پاکستان پر مستقل دباؤ ڈالتی ہے، جبکہ ایران پر عائد عالمی پابندیاں دونوں ممالک کے تعلقات کو محدود رکھتی ہیں۔ داخلی طور پر مذہبی فرقہ واریت ایک مستقل رکاوٹ ہے، جس کے باعث پاکستان کی شیعہ آبادی، خصوصاً پاراچنار جیسے علاقوں میں، غیر ضروری ریاستی حساسیت کا سامنا کرتی ہے۔

بعض مذہبی و سیاسی گروہ دانستہ طور پر ان علاقوں کے مقامی مسائل کو ایران سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے ریاستی اداروں میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ نتیجتاً مقامی آبادی محاصروں، نقل و حرکت کی بندش اور دیگر مشکلات کا شکار بنتی ہے، حالانکہ ان علاقوں میں بیشتر مسائل کی بنیاد زمینی تنازعات پر ہے اور وہاں شیعہ سنی ہم آہنگی کے باعث اکثر فرقہ وارانہ مسائل حل ہوچکے ہیں۔ ریاستی حساسیت کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پالیسی ساز زمینی حقائق اور مقامی مصالحتی کوششوں کو بنیاد بنائیں۔ ایران کے ساتھ تعلقات میں کوئی ناقابلِ عبور رکاوٹ موجود نہیں۔ اگر دونوں ممالک چاہیں تو دہشت گردی جیسے مشترکہ خطرات کے خلاف ایک ہم آہنگ، مربوط اور مؤثر پالیسی ترتیب دے سکتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں سرگرم شدت پسند گروہ دونوں جانب بدامنی پھیلانے کیلئے ایک دوسرے کی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔

ایرانی بلوچستان میں سکیورٹی کیلئے سب سے زیادہ وسائل صرف ہوتے ہیں، جبکہ پاکستان کا بلوچستان سیاسی اور ریاستی بحرانوں کا مرکز بن چکا ہے۔ ایک طرف بدامنی کا مطلب لازماً دوسری طرف اس کا اثر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایران اور پاکستان مشترکہ فورس، انٹیلی جنس نظام اور سکیورٹی معاہدات کے ذریعے سرحدی امن کیلئے مکمل اشتراکِ عمل کریں اور اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کے باشعور طبقات، پالیسی ساز ادارے اور سیاسی قیادت ان تلخ تجربات کو دشمنی کا ذریعہ بنانے کے بجائے مفاہمت اور تعاون کا نقطۂ آغاز بنائیں۔ دو طرفہ مفاہمت نہ صرف علاقائی امن کی بنیاد رکھ سکتی ہے، بلکہ اسلامی دنیا میں وحدت اور باہمی احترام کی ایک قابلِ تقلید مثال بھی قائم کرسکتی ہے۔ صحافی : تصور حسین شہزاد

متعلقہ مضامین

  • وزیر اعظم کل ترکیہ دورے پر روانہ ہوں گے
  • پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان 3 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط
  • پاکستان اور یو اے ای کے درمیان مفاہمت کی مختلف یادداشتوں پر دستخط
  • نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ یو اے ای کے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط
  • پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان مختلف مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط
  • پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان مختلف مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط
  • پاکستان اور یو اے ای کے درمیان مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط
  • یو اے ای کے نائب وزیراعظم شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان سے اسحاق ڈار کی ملاقات، مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط
  • پاکستان اور روانڈا تعلقات میں پیشرفت؛ سرمایہ کاری سمیت دیگر مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط
  • پاکستان اور ایران کے تعلقات، چیلنجز اور تعاون کی راہ