ہالی وڈ میں 2005ء میں ایک فلم بنی۔ اْس کا نام تھا میونخ۔ فلم کا موضوع یہ تھا کہ 1972ء کے میونخ اولمپکس میں گیارہ عرب دہشت گردوں نے گیارہ اِسرائیلی کھلاڑیوں کو نہایت بے دردی سے قتل کردیا۔ یہ فلم حقیقی واقعات کو ذہن میں رکھ کر بنائی گئی تھی۔ فلم میں یہ بتایا گیا کہ جب عرب دہشت گردوں نے اِسرائیلی کھلاڑیوں کو قتل کردیا تو موساد نے کس نے طرح اْن گیارہ دہشت گردوں کو چن چن کر مارا۔اِسرائیل کی اْس وقت کی وزیراعظم گولڈا میئر نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم بدلہ لیں گے اَور دْنیا کو بتائیں گے کہ ہم کتنے طاقت ور ہیں۔یہ فلم بے حد مقبول ہوئی اَور اِس نے ساری دْنیا میں 131ملین ڈالر کا بزنس کیا۔ اِس فلم کو اگر ایک مسلمان بھی دیکھے گا تو اِس کے اَندر گم ہوجائے گا اَور اْس کی تمام تر ہمدردیاں اِسرائیل کے ساتھ ہوجائیں گی۔ یہ اِس فلم کی خوبی ہے۔ گویا یہ فلم ایک بہت کامیاب پروپیگنڈا مشین ثابت ہوئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان اِس قسم کا پروپیگنڈا کیوں نہیں کرپاتے۔ کیا وجہ ہے کہ دْنیاوالے صرف ایک طرف کی آواز ہی سنتے ہیں اَور اْسی کے مطابق اَپنی رائے قائم کرلیتے ہیں؟
اِس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ مسلمان آج بھی اِس تذبذب کا شکار ہیں کہ تصویر، کیمرا، فلم وغیرہ حلال ہیں یا حرام۔ آج بھی کم از کم پچاس فی صد مسلمان اَیسے ہیں جو فلم کو حرام قرار دیتے ہیں۔ فلم میں کام کرنا اْن کے نزدِیک ایک گناہ کا کام ہے۔ چنانچہ ڈرامے، فلمیں، موسیقی وغیرہ سے یہ لوگ دْور بھاگتے ہیں اَور اْن لوگوں کوپسندنہیں کرتے جویہ کام کرتے ہیں۔ اِسی وجہ سے کوئی مسلمان ملک عمدہ فلمیں نہیں بنا پاتا۔ چند ایک مثالوں کو چھوڑ کر پوری اسلامی دْنیا میں اچھی فلمیں نہیں بنتیں۔ یہاں ایک کمال بات یہ ہے کہ آج سے چالیس سال پہلے تک پاکستان میں بہت اعلیٰ معیار کے ڈرامے پی ٹی وی پر نشر کیے جاتے تھے۔ اْس کے بعد اچانک کچھ اَیسا ہوا کہ ہماری یہ صنعت بھی زوال کا شکار ہوگئی۔
دْوسری وجہ یہ ہے کہ آج تک مسلمانوں نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ میڈیا ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ یہ ایٹم بم سے بھی زیادہ طاقت ور ہوچکی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اَب ایٹم بم بنایا تو جاسکتا ہے ا َور دْوسروں کو ڈرانے کے کام بھی آسکتا ہے لیکن اِسے چلانا شاید ممکن نہیں رہا۔ لیکن میڈیا ہر وقت، ہر جگہ لوگوں پراثر انداز ہوسکتا ہے اَور ہوتا ہے۔ آپ بھارت کی مثال لے لیں۔ اْس نے اَپنی فلموں کے ذریعے ہی ساری دْنیامیں اپنی بات، اپنا مؤقف پہنچایا ہے۔ ساری دْنیا یہ سمجھتی ہے کہ بھارت ایک محبت والا اَور امن پسند ملک ہے۔ دراصل یہ پاکستان ہے جس نے اِنہیں مصیبت میں مبتلا کررکھا ہے۔ کسی کو معلوم نہیں پاکستان میں کیا کیا مصیبتیں بھارت کی وجہ سے آئیں۔ پانی کے مسئلے پر ہم اقوام متحدہ میں چیختے چلاتے رہتے ہیں لیکن اب اقوام متحدہ کا زمانہ نہیں ہے۔ اب میڈیا کا دور ہے۔ وہاں اپنی بات پہنچانا ضروری ہے۔ چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ پانی کے مسئلے پر ہماری کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی اِس کام کو اِتنی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں کہ ہم دْنیا میں اپنا نقطہ نظر پھیلائیں۔ پاکستان میں آرمی پبلک اسکول، پشاور کا اِتنا بڑا سانحہ ہوا۔ یہ سانحہ میونخ اولمپکس یا بھارت میں تاج محل ہوٹل کے واقعے سے زیادہ بڑا اَور دردناک تھا۔ کیا ہم نے اِس پر ایک مؤثر فلم بنائی؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ ساری دْنیا کو بتائیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ کلبھوشن یادیو کے اْوپر ایک نہایت عمدہ فلم بن سکتی ہے۔ اْس نے جیسے جیسے پاکستان کو نقصان پہنچایا وہ ساری دْنیا کو بتانے کی ضرورت ہے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے سوا ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ہمارے دْشمن کون ہیں۔ کیا طالبان پاکستان کے دْشمن ہیں؟ کیا اسرائیل پاکستان کا دْشمن ہے؟ ہم کبھی طالبان کی محبت کا دم بھرنے لگتے ہیں اَور ہمارے منہ بولے دانش وریہ بتاتے ہیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مددکرنی ہے۔ پھر جب ہمیں بہت مار پڑی تو ہمیں سمجھ آئی کہ ہم غلط سمجھا کرتے تھے۔ لیکن اْس وقت تک بہت دیر ہوگئی تھی۔
اِس بات کی پاکستان کو بالخصوص اَور مسلمانوں کو بالعموم اشد ضرورت ہے کہ وہ یہ جانیں کہ ہمارے ساتھ وہی ہوگا جو ساری دْنیا ہمارے بارے میں سمجھے گی۔ صحیح یا غلط، حق یا ناحق وغیرہ پر کون ہے کون نہیں، اِس سے کسی کو واسطہ نہیں۔ اَب وہ زمانہ ہے کہ آپ سچ بولیں یا جھوٹ ، نہایت زوردار طریقے سے بولیں۔ ہمیں تو جھوٹ بولنے کی ضرورت بھی نہیں۔ ہمارے ساتھ اِتنی زیادتیاں ہوئی ہیں کہ اگر ہم صرف اْن کا تذکرہ ہی کردیں تو بہت فرق پڑے گا۔ صرف اپنی بات، اپنے مؤقف، اپنی طرف کی کہانی بہترین طریقے پر سنانی آنی چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم انگریزی میں فلمیں بنائیں اَور اْنہیں ساری دْنیا میں ریلیزکریں۔ Netflixیا اِسی قسم کے دْوسرے پلیٹ فارموں کا اِنتخاب کریں اَور وہاں اَپنی بات پہنچائیں۔ بھارت کتنی ہی ہندی فلمیں اِن پلیٹ فارموں پر ریلیزکرتا ہے۔ حال ہی میں اْس نے بمبئی حملوں پر ایک فلم بنائی ہے۔ آپ اْسے دیکھیں گے تو آپ کو لگے گا کہ بھارتی تو بہت اچھے ہیں۔ وہ تو اِسلام کی بہت عزت کرتے ہیں۔ آج جو ساری دْنیااسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے تو اِس کے پیچھے میڈیا کی صنعت کا بہت ہاتھ ہے۔ وہ یہودی جن کو ساری دْنیا میں کوئی منہ نہیں لگاتا تھا آج سب کی آنکھوں کا تارہ بنے ہوئے ہیں اَور دْنیا کے نزدیک اِن سے زیادہ مظلوم قوم اَور کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ سارے مسلمان ممالک غزہ میں ہونے والی زیادتیوں پر چیخ رہے ہیں لیکن کوئی نہیں سن رہا۔
یہ بھی جان لیں کہ اِسلام ہرگز کسی نئی چیز کو حرام قرار نہیں دیتا۔ اْس نے حلال اَور حرام کے چندایک قاعدے مقرر کردیئے ہیں۔ اْن کے اَندررہ کر ہر کام حلال ہے۔ آپ غور کریں کہ کوئی یہ نہیں کہتا کہ سیاسی پروگرام، خبرنامہ، مذہبی پروگرام کرنا حرام ہے۔ تب تصویر کی حرمت کہاں جاتی ہے؟ ہمیں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت میڈیا سے دْور رکھا گیا تاکہ ہماری آواز دْنیا میں نہ پھیل سکے۔ ہم اَیسے بے وقوف ہیں کہ اَیسی ہر سازش کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اپنی آواز دْنیا تک پہنچانا بیحد ضروری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اَیسے اسکرپٹ لکھوائیں جن پر اَیسی فلمیں بن سکیں جو ہماری بات کو زوردار اَنداز میں دْنیا میں پھیلاسکیں۔ اِس پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ فلم خواہ انگریزی میں ہو یا اْردو میں، اْسے اِتنا اچھا ہونا چاہیے کہ جو بھی دیکھے اْس میں گم ہوجائے۔ اْسے ساری دْنیا تک پہنچانے کا بندوبست کرنا ضروری ہے۔ یہ پیار محبت، شادی، ساس کے مظالم، عورتوں پر ہونے والی زیادتیوں کے موضوعات کو چھوڑ کر ہمیں اِس طرف آنا ہوگا تاکہ دْنیا کو معلوم ہوسکے کہ پاکستان اَور مسلمانوں کے کیا مسائل ہیں۔ دْنیا کو ہمارے اندرونی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہمیں اب بین الاقوامی سطح پر اپنا نقطہ نظر بتانا ہوگا۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ساری د نیا د نیا میں ہیں ا ور د نیا کو ہے کہ ا ہیں کہ
پڑھیں:
فصلوں کے لحاظ سے یہ بہت ہی خراب سال ہے، اسد عمر
لاہور:سابق وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ جب حکومت آئی اور شہباز شریف وزیراعظم بنے اس کے بعد انھوں نے اگلے ڈیڑھ سال پاکستان کے ساتھ وہ کیا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا، پاکستان کی تاریخ کی بد ترین معاشی پرفارمنس اس عرصے کے اندر گزری۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا 24-23 کا سال صنعتی پیداوار کے لحاظ سے بدترین سال تھا، فصلوں کا یہ بہت ہی خراب سال ہے، معیشت میں ترقی کے آثار کچھ کچھ ، تھوڑا تھوڑا نظر آنے شروع ہوئے تھے آج سے تین سے پانچ ماہ پہلے، وہ بھی اس وقت منفی ہو گئے ہیں۔
سابق سیکریٹری خارجہ جوہر سلیم نے کہا جے سی پی اواے ہوا تھا جو جوائنٹ کمپری ہنیسو پلان آف ایکشن کا مخفف ہے ہوا تھا تو کافی عرصہ تک تو لگا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے، لیکن اس کے بعد جب ٹرمپ آئے تو ٹرمپ نے آ کر کہ کہا کہ میں اس سے ودڈرا کرتا ہوں، اس وقت ایران کی پوزیشن بھی پہلے کی نسبت کچھ کمزور ہے، اتنے عرصے سے لگی پابندیوں نے اس کا بہت نقصان کیا ہے، وہ بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔
تجزیہ کار ڈاکٹر کامران بخاری نے کہا ایران کے پاس اب کوئی چوائس نہیں رہی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کی جو چھیالیس سالہ تاریخ ہے اتنا کمزور کبھی بھی نہیں تھا، غزہ کی جنگ کے بعد خطے میں ان کا اثر ورسوخ جاتا رہا، اوپر سے اس کے عوام بالکل نالاں ہے، فنانشلی بہت بری حالت ہے۔