WE News:
2025-04-22@18:59:28 GMT

شاید افغانوں میں ہی کوئی خامی ہے

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

وزارت خارجہ کی غلام گردشوں کا تو نہیں معلوم البتہ کچھ ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں ضرور کھلبلی مچی ہوئی ہے کہ کیا ماضی قریب کے ’اچھے افغان طالبان‘ اب ’برے انڈیا‘ کی گود میں جا رہے ہیں؟

جب گزشتہ نومبر میں بھارتی وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری برائے مغربی ایشیا جے پی سنگھ کی کابل میں وزیر دفاع ملا یعقوب سے ملاقات ہوئی تب پاکستانی ذرائع ابلاغ نے اس کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔ حالانکہ اس ملاقات سے بہت پہلے سے طالبان انتظامیہ اور نئی دلی کے درمیان برف پگھلنی شروع ہو گئی تھی۔ تب تک بھارت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ڈیڑھ ملین کوویڈ ویکسینز، 300 ٹن ادویات، 40 ہزار لیٹر کیڑے مار زرعی کیمیکلز، 50 ہزار میٹرک ٹن گندم اور سردی سے بچاؤ کے کپڑوں کی کئی کھیپیں کابل بھیج چکا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: خوشی خوشی کون زمین چھوڑتا ہے؟

جے پی سنگھ اور ملا یعقوب کی ملاقات سے بہت پہلے نومبر سنہ 2023 میں بھارت نے دلی میں قائم افغان سفارتخانے کے عملے کے سفارتی ویزوں میں توسیع سے انکار کر دیا کیونکہ سفیر سمیت بیشتر عملہ سابق اشرف غنی حکومت کے دور سے تعینات تھا اور بھارت نے طالبان انتظامیہ کو سفارتی درجہ نہیں دیا تھا۔

بھارت اب بھی افغان انتظامیہ کو مکمل سفارتی درجہ نہیں دیتا مگر روس، چین اور پاکستان سمیت متعدد ممالک کی طرح کابل میں بھارتی سفارت خانہ بھی بغیر کسی رسمی سفیر کی تعیناتی کے کھلا ہوا ہے۔ جبکہ ممبئی کے افغان قونصل خانے میں طالبان انتظامیہ کے نامزد کردہ اکرام الدین کامل بطور قائم مقام قونصل جنرل فرائض انجام دے رہے ہیں۔ مگر ہم نے ان خبروں کا شاید ہی نوٹس لیا ہو۔

البتہ گزشتہ بدھ کو دبئی میں بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری اور افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی ملاقات پر ہماری تیوری پر بل پڑنا لازم تھا کیونکہ بی بی سی اور الجزیرہ نے بھی اس ملاقات کو یوں اہم پیش رفت قرار دیا کہ اگست 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد یہ بھارت اور طالبان کا سب سے کھلا اعلیٰ سطحی رابطہ ہے۔

اس ملاقات کی جو تفصیلات کابل اور دلی سے بیک وقت جاری ہوئیں ان کے مطابق بھارت نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعے افغانستان کو تجارت کی پیش کش کی۔ یعنی پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا ایک عملی متبادل پیش کیا۔ اس کے علاوہ صحت اور کھیلوں (کرکٹ)  کے شعبے میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ بھارت میں مقیم لگ بھگ 38 ہزار افغان پناہ گزینوں کی گھر واپسی کے لیے سہولتوں میں اضافے کی یقین دہانی کروائی۔

مزید پڑھیے:  انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کا کیا کریں؟

بدلے میں وزیر خارجہ امیر خان متقی نے وعدہ کیا کہ افغان سرزمین کو بھارت مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

(یہ یقین دہانی اس لیے اہم ہے کیونکہ طالبان کی سنہ 1996 تا سنہ 2000 حکومت پر بھارت الزام لگاتا تھا کہ افغان سرزمین کشمیری علیحدگی پسندوں اور القاعدہ سے جڑے کچھ بھارتی باشندوں کی تربیت کے لیے استعمال ہوتی ہے)۔

سوال یہ ہے کہ وہ بھارت جس نے طالبان کی پہلی حکومت کے مخالف شمالی اتحاد کی حمایت آخری وقت تک ترک نہیں کی۔ اکتوبر 2001 میں کابل پر امریکی بموں کے سائے میں طالبان حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم کرنے والے اولین ممالک میں بھارت بھی شامل تھا۔

بھارت نے دہلی یونیورسٹی کے گریجویٹ حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ حکومت کی بھرپور امداد کا دروازہ کھولا۔ بعد ازاں اشرف غنی حکومت سے بھی تعاون میں کمی نہیں آئی۔ بھارت نے سنہ 2001 سے سنہ 2021 تک افغانستان میں طبی مراکز، ہائی ویز اور ڈیمز کی تعمیر پر تقریباً 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور کابل میں نیا پارلیمنٹ ہاؤس بطور تحفہ تعمیر کر کے دیا۔

بھارت طالبان اور امریکا کے درمیان دوحا مذاکرات سے بھی کبھی خوش نہیں تھا۔ اس کے ذہن میں دسمبر 1999 کی قندہار ہائی جیکنگ اور سال 2008 میں کابل میں اپنے سفارتخانے پر خودکش حملے کے نتیجے میں 58 ہلاکتوں کی یاد بھی تازہ تھی۔ اگست 2021 میں کابل سے بھارتی سفارتی عملے کو جس طرح ایئر لفٹ کر کے نکالا گیا وہ بھی اس کے ذہن میں ہوگا۔

مزید پڑھیں: دراصل معذور کون ہے ؟

دوسری جانب یہی افغان طالبان اور ان سے پہلے بائیں بازو کی سوویت نواز افغان حکومتوں کے خلاف لڑنے والے مجاہدین پاکستان کو مصیبت میں کام آنے والا بڑا بھائی قرار دیتے رہے۔ وہ 40 لاکھ پناہ گزینوں کو برداشت کرنے کا شکریہ ادا کرنا بھی کبھی نہیں بھولے۔ پاکستان نے نجیب اللہ کی جگہ مجاہدین اور برہان الدین ربانی کی جگہ ملا عمر اور اشرف غنی کی جگہ ملا ہبت اللہ کے طالبان کو اقتدار دلوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور اب بھی لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے۔

مگر پھر ایسا کیا ہو جاتا ہے کہ یہ ’احسان مند‘ بھی ظاہر شاہ، سردار داؤد، نور محمد ترہ کئی اور ببرک کارمل کی طرح پاکستان کی نیت پر کبھی 100 فیصد اعتماد نہیں کرتے۔ ملا عمر کی پہلی حکومت کو چھوڑ کے ہر افغان حکومت نے بھارت کو سرحد نہ ملنے کے باوجود جو عزت دی اس سے پاکستان جیسا محسن ہمیشہ محروم کیوں رہا؟

پاکستان کی افغان پالیسی کا اختتام ہمیشہ بطور بلیک کامیڈی ہی کیوں ہوتا رہا اور یہ پالیسی ہمیشہ ’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘ پر ہی کیوں ختم ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس بابت کوئی بھی سوال پوچھنے پر بس اتنا ہی کیوں کہتی ہے کہ ’ڈونٹ وری، ایوری تھنگ ول بی اوکے‘۔

افغانستان کے 5 اور بھی ہمسائے ہیں ( ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، ایران، چین) ۔ ان ہمسائیوں کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے جو افغانوں کو شانت رکھتی ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہمارا ہر ’نیاز مند‘ ہر پچھلی افغان حکومت کی طرح  ہمارے ہی سامنے بھارت سے آنکھ مٹکا کرتا آیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ’ڈونٹ وری ایوری تھنگ ول بھی اوکے‘۔ پھر بھی جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ اپنی ذہنی جامہ تلاشی ( سول سرچنگ ) میں کیا حرج ہے۔

یہ بھی پڑھیے: چین سے کچھ اقوالِ زریں بھی امپورٹ کر لیں

کوٹلیہ (چانکیا) کا نام تو سنا ہو گا۔ اور رموز مملکت پر آپ کے سینکڑوں اقوال میں ایک قول یہ بھی شامل ہے کہ ’ہمسائے سے زیادہ ہمسائے کے ہمسائے سے دوستی رکھو‘۔

کم ازکم چانکیا کو ہی پڑھ لیں۔ شاید کچھ افاقہ ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

افغان طالبان پاکستان پاکستان طالبان تعلق چانکیا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغان طالبان پاکستان پاکستان طالبان تعلق چانکیا میں بھارت کابل میں بھارت نے میں کابل کے لیے

پڑھیں:

وارنر بھائی اور کتنا انتظار کریں

نیشنل اسٹیڈیم جاتے ہوئے آج اطراف کی سڑکوں پر قدرے سکون نظر آیا وجہ اتوار کی چھٹی تھی،عموما جب کوئی میچ ہو تو کئی کلومیٹر دور تک بیحد رش ہوتا تھا مگر اب ماضی والا دور نہیں رہا،پی ایس ایل کے دوران ورکنگ ڈیز میں یہاں دور تک گاڑیوں نظر آتی رہیں،ان میں سے بیشتر لوگ دفاتر سے گھر واپس جانے والے تھے۔

اسٹیڈیم کے مرکزی دروازے سے وی آئی پیز کی کارز اندر جانے کی وجہ سے ٹریفک سلو ہو جاتا ہے، اسی لیے عام لوگوں کے لبوں پر یہی دعائیں ہوتی ہیں کہ جلد کراچی میں کرکٹ میچز ختم ہوں اور انھیں چین سے گھر جانے کا موقع ملے۔

ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا اور لوگ میچز کا انتظار کیا کرتے تھے،اب کراچی والے کرکٹ سے دور ہو چکے ہیں،حالانکہ یہاں کی بانسبت لاہور میں زیادہ پیدل چلنا پڑتا ہے، پھر بھی وہاں لوگ آتے ہیں،یہاں اب سڑکیں میچ کیلیے بند نہیں کی جاتیں،گھر کا کوئی فرد مرکزی دروازے پر فیملی کو چھوڑ کر کار پارک کر کے واپس آ سکتا ہے۔

البتہ پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ موجود ہے،اس کا حل شٹل بسیں چلانا ہے،مختلف شاپنگ مالز یا اور کوئی اور جگہ مختص کی جا سکتی ہے جہاں سے شائقین ٹکٹ دکھا کر بس میں سوار ہوں اور انھیں اسٹیڈیم پہنچا دیا جائے۔

اس میں کون سے کروڑوں روپے خرچ ہونے ہیں،اسی کے ساتھ اگر تعلیمی اداروں میں ٹکٹس دیے جاتے تو شاید چند ہزار لوگ تو آ ہی جاتے، یہ صرف پی سی بی نہیں بلکہ فرنچائزز کا بھی کام ہے،انھیں بھی برانڈ کو آگے بڑھانا چاہیے۔

ڈیوڈ وارنر کو کراچی کنگز نے 9 کروڑ روپے دیے ہیں،اس میں کرکٹ بورڈ کا بھی کنٹری بیوشن ہے،وارنر نے اب تک 46 رنز بنائے ہیں،یعنی ان کا ایک رن کئی لاکھ روپے کا پڑا ہے،خیر ابھی بہت میچز باقی ہیں کراچی والے چاروں میچز میں یہ آس لگائے بیٹھے رہے کہ شاید آج وارنر کا بیٹ چل جائے لیکن ایسا نہ ہوا،اتوار کو بھی جو چند ہزار لوگ وارنر کی بیٹنگ دیکھنے آئے تھے وہ مایوسی میں یہی کہتے پائے گئے کہ بڑی اننگز کیلیے وارنر بھائی اور کتنا انتظار کریں۔

خیر اب بھی ایک موقع باقی ہے،شاید پیر کو نیشنل اسٹیڈیم میں وارنر کے چوکوں،چھکوں کی بارش دیکھنے کو مل جائے،کراچی میں کم کراؤڈ کے باوجود جب پی ایس ایل کا ترانا یا کوئی اور گانا چلایا جاتا تو شائقین کا جوش و جذبہ بڑھ جاتا۔

کراؤڈ میں کمی کی بڑی وجہ پاکستان ٹیم کی ناقص کارکردگی بھی ہے،جب ٹیم دوبارہ جیتنے لگے گی تو لوگوں کی ناراضی ختم اور میدانوں کی رونق پھر سے بڑھ جائے گی،پی ایس ایل میں زیادہ بڑے نام نہ ہونے کے باوجود اس کے دلچسپ مقابلے دنیا بھر کی توقع کا مرکز بنتے ہیں،البتہ اس بار یکطرفہ مقابلوں نے تاحال ایونٹ کا مزا کرکرا کیا ہوا ہے۔

صرف کراچی کنگز اور ملتان سلطانز کا میچ ہی سنسنی خیز قرار دیا جا سکتا ہے،جب تک آخری اوورز تک میچز نہیں گئے ،ٹائی،سپراوورز نہ ہوئے تو شائقین دلچسپی نہیں لیں گے۔

بابر اعظم مسلسل مایوس کر رہے ہیں،محمد رضوان کا بیٹ ایک اچھی اننگز کے بعد خاموش ہو گیا، اب رواں ہفتے میچز ملتان اور لاہور منتقل ہو جائیں گے وہاں اسٹیڈیمز کھچا کھچ بھرے ہونے کی امید ہے۔

ایونٹ میں تاحال اسلام آباد یونائیٹڈ کی کارکردگی زبردست رہی،شاداب خان گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی بہترین پرفارم کر رہے ہیں،کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا سعود شکیل کو کپتان بنانے کا فیصلہ درست نہیں لگ رہا،شاید آپشنز کی کمی اس کی وجہ بنی ہو،شاہین آفریدی کی زیرقیادت لاہور قلندرز بھی تاحال مداحوں کی توقعات پر پورا اترے ہیں۔ 

البتہ ابھی چند ہی میچز ہوئے ہیں کارکردگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہیں گے،تاحال ملتان سلطانز نے بیحد مایوس کیا،ماضی میں ٹائٹل جیتنے اور کئی بار فائنلز کھیلنے والی ٹیم اس بار مکمل آف کلر نظر آ رہی ہے،ٹیم اونر علی ترین نے آغاز سے قبل ہی لیگ کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہوئے مسلسل منفی بیانات دیے،ان کی بعض باتیں شاید درست بھی ہوں لیکن انداز اور ٹائمنگ کو مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔

بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ملتان سلطانز کو اب ایک ارب 8کروڑ سالانہ کی بھاری فیس گراں گذرنے لگی ہے،ویلیویشن کے بعد یہ رقم بڑھ کر ڈیڑھ ارب تک پہنچ سکتی ہے،اس لیے فرنچائز اب جان چھڑانا چاہتی ہے۔

البتہ میری اطلاعات کے مطابق دیگر کی طرح سلطانز نے بھی فرنچائز برقرار رکھنے پر آمادگی ظاہر کر دی تھی،شاید بورڈ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش فیس میں کمی کرانے کیلیے ہے،البتہ معاہدہ اس کی اجازت نہیں دیتا،ری بڈنگ پر دیگر ٹیمیں آمادہ نہ ہوں گی۔

بعض افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی سی بی سے سلطانز میں جانے والے بعض آفیشلز نے بھی کان بھرے ہیں،حالیہ چند دنوں میں بورڈ کے خلاف میڈیا میں چند منفی خبروں کو بھی منظم مہم کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے،پاکستان میں کولنگ آف پیریڈ کا کوئی تصور نہیں ورنہ آفیشلز کو بورڈ کی ملازمت سے فارغ ہوتے ہی فرنچائز میں ملازمت کی اجازت نہ ملتی۔

مجھے لگتا ہے 2 نئی ٹیموں کی شمولیت کی باتیں سن کر بھی موجودہ فرنچائزز خوش نہیں ہیں،اس حوالے سے معاملات جب آگے بڑھیں گے تو محاذ آرائی کی کیفیت ہو سکتی ہے،البتہ ایک ایڈوانٹیج یہ ہے کہ سلمان نصیر اب پی ایس ایل کے سی ای او بن چکے۔

ان کی موجودہ فرنچائزز کے کئی مالکان سے دوستانہ تعلقات ہیں،وہ معاملات کو سنبھال سکتے ہیں، آئی سی سی سے شیئر ملنے کے بعد پاکستان کرکٹ کی آمدنی کا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ پی ایس ایل ہی ہے،اس میں صفر سرمایہ کاری کے باوجود آمدنی ہوتی ہے،تمام تر اخراجات فرنچائز فیس سے پورے کیے جاتے ہیں۔

لہذا ضروری ہے کہ لیگ کو اور بڑا بنایا جائے تاکہ معاملات بہتر ہوں،امید ہے پی سی بی ایسا ہی کرے گا،اونرز کو بھی اپنی شکایات گورننگ کونسل میٹنگ میں کرنی چاہئیں،میٹنگ میں مائیک میوٹ اور میڈیا میں شور مچانے سے فیس کم نہیں ہو سکتی ہاں لیگ بدنام ضرور ہوگی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کے دورہ کابل کے بعد اہم پیشرفت، فیڈرل کنٹرول روم قائم
  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل
  • پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
  • ڈار کا دورہ کابل، سیکیورٹی بنیادوں پر کامیابی کیلیے طویل سفر باقی
  • وارنر بھائی اور کتنا انتظار کریں
  • تحریک طالبان پاکستان کا بیانیہ اسلامی تعلیمات، قانون، اخلاقیات سے متصادم قرار
  • پاکستان اور افغانستان کا کابل ملاقات میں ہونے والے فیصلوں پر جلد عملدرآمد پر اتفاق
  • افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل
  • اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا
  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل، نائب وزیراعظم، وزیر خارجہ سے ملاقاتیں: پاکستان افغانستان کا بہتر روابط، مضبوط ٰتعلقات برقرار رکھنے پر اتفاق