کیا عورت کو فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
خواتین کے حقوق کے لیے چلائی جانے والی تحریکوں، آگاہی پروگرام اور ریلیوں کی بدولت کچھ تو خواتین کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی عمل میں آئی اور کافی حد تک صنفی مساوات کے حوالے سے بات بھی ضرور ہونے لگی ہے، لیکن کیا ہمارے سماج میں واقعی ایسا ہی ہے؟
کیا واقعی ہمارے میں معاشرے میں بھی تبدیلی آگئی ہے؟ کیا ہمارے معاشرے نے عورت کی خودمختاری کو تسلیم کرلیا گیا ہے؟ کیا واقعی پاکستان میں خواتین آئین اور قانون کے تحت فراہم کردہ آزادی اور خودمختاری کی حق دار سمجھی جاتی ہیں؟ کیا اپنے فیصلے ان پر مسلط نہیں کیے جاتے؟ اور کیا واقعی خواتین زندگی کے بہت سے فیصلے خاندان والوں کے دباؤ میں آکر نہیں کرتیں؟
یقیناً بہت سی خواندہ اور ماڈرن خاندانوں کا دعویٰ یہ ہی ہوگا کہ ہمارے گھر کی لڑکیوں کو ان کی زندگی کے فیصلوں میں مکمل خودمختاری اور آزادی حاصل ہے، لیکن اس معاملے پر جب انھی خاندانوں کی خواتین سے متعدد معاملات جیسے کہ پڑھائی مکمل نہ کرنا، تعلیم یا ڈگری کے بیچ میں شادی ہوجانا، خانکی معاملات، کیرئیر جاری نہ رکھنا وغیرہ جیسے مسائل پر بات کی گئی، تو ننانوے فی صد خواتین کا کہنا یہی تھا کہ گھر والوں کی رائے یا دباؤ ان کے فیصلے کا سبب بنی۔
خود میرے ذاتی تدریسی کیرئیر میں بہت سی بچیوں کے ایسے معاملات بھی سامنے آئے، جو کہ پروفیشنل تعلیم حاصل کر رہی تھیں یا ان کے سیمسٹر کے امتحانات کے قریب یا درمیان میں گھر والے شادی رکھ لیتے ہیں، جس کے بعد بچوں کی پیدائش کی بنا پر ان کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ پتا چلتا ہے کہ بھئی یہ تمام معاملات اورفیصلے ان کے اپنے نہیں، بلکہ ان کے گھر والوں کے ہوتے ہیں۔
لڑکی تعلیم حاصل کر رہی ہے یا اس کا سیمسٹر درمیان میں ہے یا امتحانات ہونے والے ہیں، گھر والوں کے لیے یہ سب اہم نہیں ہوتا، بلکہ ہمارے معاشرے میں اس سب سے زیادہ ضروری کام شادی کرنا اور بچوں کی پیدائش ہی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچیوں اور لڑکیوں کو ان کی زندگی کے معاملات میں فیصلہ لینے کا اختیار انتہائی محدود ہے یا پھر صرف اس حد تک خودمختار ہے، جب تک گھروالوں کے لیے لڑکی کا فیصلہ ساز گار ہو۔ زندگی کے اہم معاملات میں لڑکیوں اور بچیوں کو فیصلہ سازی کا حق نہ دینے سے ان کی زندگی پر بہت سے گہرے، دور رَس اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن کی جڑیں ہمارے معاشرے کے روایتی، سماجی اور ثقافتی نظام میں پیوست ہیں۔
زندگی کے اہم معاملات میں لڑکیوں اور بچیوں کو فیصلہ سازی کا حق نہ دینے سے سب سے پہلا اور اہم نقصان لڑکیوں کی تعلیم پر ہوتا ہے۔ جب بچیوں کو اپنی تعلیم کے حوالے سے فیصلے کرنے کا حق نہیں دیا جاتا، تو وہ اکثر رسمی تعلیم مکمل نہیں کر پاتیں اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے کم عمری میں شادی یا دیگر گھریلو ذمہ داریوں میں شامل کر دی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اپنی تعلیمی قابلیت کو بڑھانے کے مواقع کھو دیتی ہیں، جس کا اثر ان کی معاشی خود مختاری اور روزگار کے مواقع پر پڑتا ہے۔
دوسری جانب ہمارے معاشرتی نظام میں لڑکیوں کو خود اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کی آزادی نہیں دی جاتی، جس کی ایک بڑی مثال کم عمری کی شادیاں بھی ہیں۔ والدین اور خاندان کے بزرگ اکثر لڑکیوں کے مستقبل کے حوالے سے ان کے حق میں فیصلے کرتے ہیں، جن میں لڑکیوں کی مرضی اور رائے کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی شادیوں کے نتیجے میں لڑکیاں تعلیمی، جسمانی اور ذہنی ترقی سے نہ صرف محروم رہ جاتی ہیں، بلکہ جذباتی، نفسیاتی اور مالی طور پر بھی خاندان والوں پر انحصار کرتی ہیں اور ساتھ ہی زندگی کے دوسرے اہم پہلوؤں میں بھی پیچھے رہ جاتی ہیں۔
جب بچیوں کو ان کے فیصلوں کا حق نہیں دیا جاتا، تو یہ رویہ ان کے ذہنی اور جذباتی صحت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔ وہ احساسِ کمتری اور بے بسی کا شکار ہو جاتی ہیں اور اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع سے محروم رہ جاتی ہیں۔ یہ جذباتی دباؤ ان کی خود اعتمادی کو متاثر کرتا ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں پر یقین کھو دیتی ہیں۔ فیصلہ کرنے کے حق سے محروم لڑکیاں اکثر اپنی معاشی خود مختاری سے بھی محروم رہ جاتی ہیں۔ انھیں معاشرتی اور خاندانی دباؤ کے تحت ایسے راستے اپنانے پر مجبور کیا جاتا ہے، جو ان کے معاشی استحکام کو متاثر کرتے ہیں۔ لڑکیوں کا اپنی مرضی سے تعلیم، پیشہ اور شادی کا انتخاب نہ کرنے کی وجہ سے کر سکتیں، تو یہ ان کے معاشی مستقبل کو بھی محدود کر دیتا ہے۔
خواتین اور لڑکیوں کو اپنی زندگی اور جسم کے بارے میں فیصلوں کا مکمل اختیار ہونا چاہیے، لیکن تعلیم اور پیشہ اختیار کرنے سے لے کر ازدواجی معاملات میں خواتین آج بھی مکمل بااختیار نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ خواندہ ماڈرن خاندانوں اور گھرانوں میں بھی اپنے مستقبل یا اپنا کردار خود منتخب کرنے کے لیے خواتین کی صلاحیت سے نہ صرف انکار کیا جاتا ہے، بلکہ ان کی آواز کو دبایا بھی جاتا ہے۔
اس قسم کے رویوں کا سب سے بڑا اثر یہ ہوتا ہے کہ یہ نظام نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ لڑکیاں جب خود اپنی زندگی کے فیصلوں کا اختیار نہیں رکھتیں تو وہ اپنی اولاد کے لیے بھی ایسی ہی روایتی سوچ اور رویوں کو فروغ دیتی ہیں، جس سے معاشرتی ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ بچیوں اور لڑکیوں کو ان کی زندگی کے فیصلوں کا حق نہ دینا نہ صرف انفرادی سطح پر نقصان دہ ہے، بلکہ یہ معاشرتی ترقی میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ترقی کرے اور خوش حال ہو تو ہمیں بچیوں کو زندگی کے تمام معاملات میں خود مختار بنانے کے لیے انھیں ان کے فیصلے کرنے کا حق دینا ہوگا۔ اس سے نہ صرف ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا، بلکہ وہ معاشرتی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکیں گی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: معاملات میں کے حوالے سے رہ جاتی ہیں ان کی زندگی فیصلے کرنے اپنی زندگی میں لڑکیوں فیصلوں کا لڑکیوں کو کے فیصلوں زندگی کے والوں کے کا حق نہ میں بھی کے لیے
پڑھیں:
Rich Dad -- Poor Dad
وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘ والد ٹھیکیدار تھا‘ جنرل ایوب خان کے دور میں ملک میں ترقیاتی کام شروع ہوئے‘ سڑکیں بنیں‘ ڈیم بننے لگے اور بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں بچھنے لگیں‘ والد نے اس دور کا بھرپور فائدہ اٹھایا‘ اس نے منگلا ڈیم سے مٹی نکالنے کا ٹھیکہ لیا‘ پھر سندھ میں اسکولوں کی عمارتیں بنانے اور آخر میں بلوچستان میں ہیلتھ یونٹس کی تعمیر کا کام سنبھال لیا‘ یہ کام، کام نہیں تھے‘ یہ سونے کی کانیں تھیں‘ والد ان کانوں کا جتنا سونا سمیٹ سکتا تھا اس نے سمیٹ لیا‘ وہ سمجھ دار آدمی تھا۔
اس نے جو کمایا پراپرٹی میں لگا دیا‘ بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی خوب کیا‘ لڑکے ایچی سن میں پڑھے اور لڑکیوں نے کانونٹ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کی‘ والد نے بچوں کو دنیا کی ہر نعمت فراہم کی‘ یہ لوگ اس وقت ذاتی گاڑیوں پر اسکول اور کالج جاتے تھے جب نوے فیصد پاکستانی تانگوں پر سفر کرتے تھے‘ دنیا میں دولت 80 فیصد لوگوں کو خراب کر دیتی ہے‘ یہ لوگ شراب‘ شباب کباب اور جوئے کے عادی ہو جاتے ہیں یا پھر نمود ونمائش کے ذریعے اللہ کے دیے رزق کو آگ لگانے لگتے ہیں لیکن ان کا والد مختلف انسان تھا‘ دولت نے اسے خراب نہیں کیا‘ وہ آخری سانس تک سادہ اور شریف آدمی رہا‘ پانچ وقت کا نمازی‘ زندگی میں تین حج اور دس عمرے اور سگریٹ تک کو منہ سے نہیں لگایا‘ بچے بھی بہت اچھے تھے۔
یہ پانچوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے چنانچہ خاندان کی زندگی میں ہر طرف امن ہی امن‘ سکون ہی سکون اور خوش حالی ہی خوش حالی تھی لیکن پھر اچانک ہر چیز بدل گئی‘ حالات نے پلٹا کھایا‘ خاندان ٹوٹا اور پانچوں بہن بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے‘ ان پانچوں کی باقی زندگی عدالتوں‘ کچہریوں اورو کیلوں کے دفتروں میں دھکے کھاتے گزری‘ کیوں؟ ہم اس کیوں کی طرف آنے سے پہلے اس واقعے کی طرف جائیں گے جو اس خوشحال فیملی کو بکھیرنے کی وجہ بنا‘ ان کا والد 1972ء میں اچانک فوت ہو گیا۔
والد کی تدفین کے بعد جائیداد کے کاغذات اکٹھے کیے گئے‘ پتہ چلا والد نے کراچی‘ لاہور‘ کوئٹہ اور ڈھاکہ میں کروڑوں روپے کی کمرشل پراپرٹی چھوڑی‘ فیصل آباد کے مضافات میں زرعی زمین بھی تھی اور ملتان میں دو فیکٹریاں بھی۔ جائیداد کی تقسیم پہلا تنازع تھا جس نے ان بہن بھائیوں کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا جنھیں ایک دوسرے کو دیکھے بغیر نیند نہیں آتی تھی‘ یہ تنازع بڑھتے بڑھتے دشمنی بن گیا‘ پانچوں بہن بھائی جائیداد میں حصے کے لیے عدالتوں میں گئے اور پھر اس کے بعد واپس نہ آئے‘ جائیداد کی دشمنی اب تیسری نسل میں منتقل ہو چکی ہے‘ اب کزن ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں‘ یہ لوگ بھی نہ جانے کب تک لڑتے رہیں گے۔
آپ یقینا ان پانچ بہن بھائیوں کو لالچی‘ مطلبی‘ کوتاہ فہم اور ظالم کہیں گے لیکن میں ان کو مظلوم اور بے گناہ سمجھتا ہوں‘ کیوں؟ کیونکہ میری نظر میں یہ لوگ لالچی‘ مطلبی‘ کوتاہ فہم اور ظالم نہیں ہیں‘ ان کا والد تھا‘ وہ ایک ایسا ظالم اور لالچی شخص تھا جو دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اپنی اولاد کے لیے فساد کی بے شمار جڑیں چھوڑ گیا‘ یہ والد کی چھوڑی ہوئی وہ زمین‘ جائیداد‘ ملیں اور رقم تھی جس نے 53 برسوں تک بچوں کو اکٹھے نہیں بیٹھنے دیا‘ جس نے انھیں ایک دوسرے کی خوشیوں اور غمیوں میں بھی جمع نہیں ہونے دیا اور جس نے بہن کو بہن اور بھائی کو بھائی نہیں رہنے دیا چنانچہ آپ فیصلہ کیجیے‘ ظالم اور لالچی کون تھا‘ بچے یا والد؟ آپ جتنا غور کریں گے۔
آپ بھی اتنا ہی والد کو اس سارے فساد کا ذمے دار قرار دیں گے‘ اب سوال یہ ہے‘ کیا یہ صرف ایک خاندان یا چند لوگوں کی داستان ہے؟ جی نہیں‘ آپ دائیں بائیں دیکھیں‘ آپ کو اپنے ہر طرف ایسے ہزاروں خاندان نظر آئیں گے جن کے والدین اپنے بچوں کے لیے عمر بھر خوشحالی جمع کرتے رہے‘ جو زندگی بھر اپنی آل اولاد کے لیے دولت کے انبار لگاتے رہے لیکن جوں ہی ان کی آنکھ بند ہوئی‘ ان کی وہ اولاد ان کے جنازے میں ہی لڑ پڑی جس کی خوشحال اور مطمئن زندگی کے لیے وہ تنکا تنکا جمع کرتے رہے تھے‘ ان کی اولاد پھر کبھی اکٹھی نہ بیٹھ سکی۔
بچے عمر بھر وکیلوں کے ذریعے ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے رہے اور جب بچوں کا آخری وقت آیا تو ان کی کوئی بہن‘ بھائی‘ بھتیجا اور بھانجا ان کا منہ دیکھنے کے لیے نہیں آیا چنانچہ پھر ظالم کون ہوا‘ والد یا اولاد؟ آپ ان کے مقابلے میں اب ان لوگوں کو دیکھئے‘ جو اپنی اولاد کے لیے کچھ نہیں چھوڑ کر جاتے‘ یہ لوگ زندگی میں جتنا کماتے رہے‘ اتنا کھاتے رہے‘ کرائے کے چھوٹے مکانوں میں زندگی گزاری‘ گھر بنایا تو وہ بھی تنگ اور چھوٹا تھا‘ ایک آدھ گاڑی خریدی اور کپڑے اور جوتے بھی زیادہ نہیں تھے لیکن بچوں کی تربیت‘ تعلیم اور صحت پر بے انتہا توجہ دی‘ اپنی اولاد کو خود اسکول چھوڑ کر آئے‘ ان کے لیے کتابیں خریدیں‘ ان کے ساتھ میدانوں میں دوڑ لگائی‘ کرکٹ کھیلی‘ ہاکی اور فٹ بال سے لطف لیا‘ قہقہے لگائے‘ لطیفے سنائے اور باربی کیو کیا۔
یہ لوگ جب یہ مشکل اور غریب زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی اولاد کے پاس کوئی ایسی چیز موجود نہیں تھی جسے یہ آپس میں تقسیم کرتے اور اس تقسیم کے دوران کوئی تنازع پیدا ہوتا چنانچہ اولاد نہ صرف والدین کے انتقال کے بعد بھی ایک دوسرے سے ملتی رہی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی محبت میں اضافہ بھی ہوتا گیا‘ آپ کبھی ملک میں ’’کزن میرجز‘‘ پر بھی تحقیق کریں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے ’’کزن میرج‘‘ کرنے والے زیادہ تر لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے دادا اور نانا ترکے میں زمین جائیداد چھوڑ کر نہیں جاتے‘ والدین نے کیونکہ دولت نہیں چھوڑی ہوتی چنانچہ بچے آپس میں ملتے رہتے ہیں اورجب ان کی اولاد جوان ہوتی ہے تو بھائی بھائی سے رشتہ مانگ لیتا ہے اور بہن اپنی بیٹی بھتیجے سے بیاہ دیتی ہے اور یوں محبت اور رشتے آگے بڑھتے جاتے ہیں جبکہ آپ ان کے مقابلے میں امیر خاندان کے بچوں کو اپنے کزنز کے گلے کاٹتے دیکھیں گے‘ یہ غریب اور امیر خاندانوں کی زندگی کا ایک پہلو ہے‘ آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے۔
میں نے زندگی میں غریب والدین کے زیادہ تر بچوں کو ترقی کرتے دیکھا‘ آپ بھی سروے کریں‘ آپ بھی زندگی کے مختلف شعبوں کے کامیاب لوگوں کا بیک گراؤنڈ دیکھیں‘ آپ کو اسی فیصد کامیاب لوگوں کا بچپن غربت اور عسرت میں لتھڑا دکھائی دے گا‘ والد غریب تھا‘ وہ لوہا کوٹتا تھا‘ وہ موچی‘ کسان‘ سیلز مین یا فیکٹری مزدور تھا‘ وہ کلرک یا سیکشن آفیسر تھا‘ وہ مزارع تھا یا پھر وہ معمولی دکاندار تھا لیکن بیٹا سیٹھ بن گیا‘ مل مالک‘ اعلیٰ افسر‘ جرنیل‘ سائنس دان یا اداکار ہو گیا‘ آپ یہ ڈیٹا جمع کریں اور پھر اپنے آپ سے پوچھیں‘ کیوں؟ اور کیسے؟ آپ وجہ جان کر حیران رہ جائیں گے۔
غربت میں دس ہزار خرابیاں اور ایک لاکھ خامیاں ہوتی ہیں لیکن اس میں ایک ایسی حیران کن خوبی ہوتی ہے جو دنیا کی کسی دوسری چیز میں نہیں پائی جاتی‘ غربت دنیا کا سب سے بڑا طعنہ ہے‘ یہ طعنہ انسان کے اندر غربت کے خلاف شدید نفرت پیدا کر دیتا ہے اور انسان سینہ ٹھونک کر اس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے‘ یہ غربت سے لڑ پڑتا ہے اور ہمیشہ کامیاب ہو جاتا ہے‘ میں غریب والدین کے کامیاب بچوں سے ہمیشہ عرض کرتا ہوں‘ آپ اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے غریب والد کا شکریہ ادا کریں‘ کیوں؟ کیونکہ آپ کی یہ ساری کامیابی آپ کے والد کی غربت کا رد عمل ہے‘ آپ کو آپ کے ناکام اورغریب والد نے کامیاب اور امیر بنایا‘ آپ اگر بچپن میں غربت اور ناکامی نہ دیکھتے تو آپ کے دل میں کبھی ناکامی اور غربت کے خلاف اتنی نفرت پیدا نہ ہوتی اور آپ کے دل میں اگر یہ نفرت سر نہ اٹھاتی تو آپ کبھی کامیاب نہ ہوتے‘ میں اسی طرح سخت ماں باپ کے کامیاب بچوں سے بھی عرض کرتا ہوں‘ آپ اپنے والدین کی سختی کا شکریہ ادا کریں۔
وہ اگر آپ پر سختی نہ کرتے تو آپ شاید گھر سے نہ بھاگتے‘ آپ شاید کتابوں‘ اسپورٹس اور کاروبار میں پناہ نہ لیتے اور شاید آپ میں حالات کے خلاف لڑنے کا اتنا حوصلہ پیدا نہ ہوتا‘ یہ حوصلہ‘ سختی کا مقابلہ کرنے کی یہ ہمت آپ کی کامیابی کا اصل گُر ہے اور آپ نے یہ گُر اپنے والدین کی سختی‘ ظلم اور منفی رویوں سے کشید کیا‘ وہ اگر نرم نہ ہوتے تو آپ اس وقت کامیابی کی آخری سیڑھی کی بجائے میاں چنوں میں بوریاں جھاڑ رہے ہوتے یا پھر آپ نے لاڑکانہ میں آلو چھولے کی ریڑھی لگائی ہوتی‘ یہ آپ کے والدین کی سختی تھی جس نے آپ کو زندگی کے نئے میدان تلاش کرنے پر مجبور کیا‘ یہ سختی تتلی کے انڈے کا وہ باریک سوراخ ثابت ہوئی جس سے نکلنے کی کوشش میں قدرت تتلی کے جسم پر خوبصورت پر اگا دیتی ہے‘ انڈے کا سوراخ جتنا چھوٹا ہوتا ہے‘ تتلی کے پر اتنے ہی خوبصورت اور لمبے ہوتے ہیں اور یہ سوراخ جتنا بڑا ہوتا ہے۔
تتلی کے مرنے کے چانس بھی اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں‘ زندگی میں اگر سختی‘ غربت اور مسائل نہ ہوں تو شاید دنیا میں کوئی ایڈیسن‘ آئن سٹائن‘ نیوٹن‘ شیکسپیئر‘ مائیکل اینجلو‘ مارک زکر برگ اور بل گیٹس پیدا نہ ہو‘ دنیا کے زیادہ تر کامیاب لوگ سختی اور غربت کی پیداوار ہوتے ہیں‘ یہ مشکلات کے کوکون سے نکلتے ہیں چنانچہ آپ اگر امیر ہیں تو آپ جان لیں آپ کی جائیداد آپ کے بعد آپ کے بچوں کو اکٹھا نہیں بیٹھنے دے گی اور آپ اگر غریب ہیں تو آپ ہرگز ہرگز شرمندہ نہ ہوں‘ آپ کی یہ غربت آپ کے بچوں کی کامیابی کا ذریعہ بنے گی اور یہ ان کو ایک دوسرے سے جوڑے بھی رکھے گی‘ غریب باپ امیر باپ کے مقابلے میں ہمیشہ فائدے میں رہتا ہے۔