Daily Ausaf:
2025-12-13@23:13:24 GMT

سرفراز احمد پی ایس ایل 10 سے باہر؟بری خبر آ گئی

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

لاہور:پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 10 کی ڈرافٹنگ میں قومی ٹیم اور گلیڈی ایٹرز کے سابق کپتان سرفراز احمد کو کسی بھی فرنچائز نے اپنے ساتھ شامل نہیں کیا۔

پی ایس ایل سیزن 10 کے پلیئرز ڈرافٹ کی تقریب کا انعقاد شاہی قلعہ میں کیا گیا جس میں چھ فرنچائزز نے اپنے اسٹارز پر مشتمل اسکواڈز کا انتخاب کیا۔تمام فرنچائزز نے پلاٹینم، ڈائمنڈ، گولڈ اور سلور کیٹگری میں کھلاڑیوں کو اپنی ٹیم میں شامل کیا اس کے علاوہ ایمرجنگ کیٹگری میں بھی کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیا۔

قومی کرکٹ ٹیم اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے سابق کپتان سرفراز احمد کا اُنکی پرانی فرنچائز سمیت کسی بھی ٹیم نے انتخاب نہیں کیا۔ایک روز قبل سرفراز احمد نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ساتھ اپنا 9 سالہ سفر ختم کرنے کا اعلان کیا اور موقع دینے پر ٹیم کے مالک، مینجمنٹ کا شکریہ ادا کیا تھا۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ گلیڈی ایٹرز کے مالک نے سرفراز احمد کو اہم کردار دینے کا فیصلہ کیا ہے تاہم ڈرافٹنگ مکمل ہونے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ انہیں کسی بھی ٹیم نے منتخب نہیں کیا اور وہ پی ایس ایل سے باہر ہوگئے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پی ایس ایل

پڑھیں:

قلم فروشی کا نوحہ

اسلام ٹائمز: ہم بحیثیت انسان ہمیشہ قلم فروشی کے قبیح اور مضر اثرات سے نبرد آزما رہے ہیں۔ شاہ پرستی، بے جا ستائش، کذب نویسی نے آنے والی نسلوں کو فکری اور نظری اندھیروں میں داخل کیا ہے اور نسلوں کی نسلیں ان تحریوں کے شکنجے میں زندگی برباد کرکے رخصت ہوئی ہیں، انسانی تہذیب کا جتنا نقصان اس قلم فروشی نے کیا ہے، شائد ہی کسی اور چیز نے کیا ہو۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے مابین ہمیشہ فیض جیسے سر پھرے موجود رہتے ہیں، جن کا کہنا ہے: "ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے، جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے" تحریر: سید اسد عباس

خداوند کریم نے سورۃ قلم میں کی آیت نمبر ایک میں عجیب قسم کھائی "ن اور قلم کی قسم۔" قلم سے جو کچھ بھی مراد لیا جائے، تاہم اس کا ظاہری معنی بہرحال خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا۔ قلم کی قسم یہ واضح کرتی ہے کہ قلم اور تحریر کی بڑی عظمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے علم، ہدایت اور انسانی ترقی کی بنیاد قرار دیا ہے۔ قلم وہ آلہ ہے، جس سے علم محفوظ ہوتا ہے، نسل در نسل منتقل ہوتا ہے اور انسانی تہذیب قائم ہوتی ہے۔ تحریر انسانوں کے درمیان حقوق و فرائض کو واضح کرتی ہے، اس لیے قلم انصاف کے قیام کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم سکھایا اور قلم اس علم کا سب سے اہم وسیلہ ہے۔ اسی لیے سورۃ علق میں فرمایا "جس نے قلم کے ذریعے سکھایا۔" شائد یہی وجہ ہے کہ ادب اور بالخصوص صحافت میں قلم کی حرمت پر بہت زور دیا جاتا ہے۔

آج لکھنے والوں پر تحقیق کے باقاعدہ علوم تشکیل پا چکے ہیں۔ علم الرجال ہمیں لکھاریوں کی صداقت، امانت اور دیانت کا علم عطا کرتا ہے۔ زیر نظر تحریر قلمبند کرنے کا سبب پاکستانی اخبارات کے کالم نویسوں کی تحریریں ہیں۔ میں ایک طویل عرصے سے پاکستان میں شائع ہونے والے اردو اور انگریزی اخبارات کے کالم نویسوں کی تحریریں دیکھ رہا ہوں، جنھیں دیکھ کر مجھے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ حرمت تحریر و قلم اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ یقیناً حق لکھنا ایک مشکل کام ہے، تاریخ انسانی میں بہت سے ایسے انسانوں کا تذکرہ موجود ہے، جن کی حق گوئی کے سبب انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سقراط کو نوجوانوں کو سوال سکھانے پر زہر کا پیالہ پینا پڑا، ارسطو کو حق گوئی کے سبب ایتنز سے جلاوطنی برداشت کرنی پڑی، جوردانو برونو کو چرچ نے زندہ جلا دیا، نیلسن مینڈیلا اپنی تحریروں کے سبب 27 برس قید رہے۔

مسلم مولفین میں امام احمد بن حنبل، امام ابو حنیفہ، امام مالک بن انس، امام حاکم کو حکومتی سختیوں کو برداشت کرنی پڑیں۔ انگریز دور  کے لکھاریوں میں سر سید احمد خان، مہاتما گاندھی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ابو الکلام آزاد، عبد اللہ سندھی، مولانا حسین احمد مدنی، سید سلمان ندوی، پریم چند، اکبر الہ آبادی، عبد الماجد دریابادی، ڈپٹی نذیر احمد، مہر چند کھتری، بال گنگا دھر تلک، آنند موہن بوس، سبھاش چندر بوس مختلف صعوبتوں کا نشانہ بنے۔ پاکستان بننے کے بعد سید ابو الاعلی مودودی، فیض احمد فیض، حبیب جالب، جمیل الدین عالی، احمد ندیم قاسمی، جوش ملیح آبادی، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، کرشن چندر، عبد اللہ ملک، مولانا چراغ حسین حسرت، مولانا ظفر علی خان مشکلات سے دوچار رہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

تاہم جو صورتحال اس وقت پاکستانی اخبارات میں دیکھنے کو مل رہی ہے، میرے لیے حیران کن ہے۔ ویسے تو تاریخ انسانی میں قلم فروشوں کی کمی نہیں ہے، تاہم جس تعداد میں آج ہمیں قلم فروشوں کا سامنا ہے، شائد ہی کبھی رہا ہو۔ حق بات نہ کہہ سکنا یا نہ لکھ سکنا الگ بات ہے اور باطل کی خوشامد اور ترجمانی کرنا ایک الگ قصہ۔ میں کسی بھی ایسے لکھاری کا نام نہیں لکھنا چاہتا، جو دوسری صنف سے ہے، مگر ہمارے پرنٹ میڈیا پر ان کی بہتات ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ان قلم فروشوں کی علمی زندگی بہت کم ہوتی ہے اور حرمت قلم و تحریر کا پاس رکھنے والے تادیر یاد رکھے جاتے ہیں، تاہم تحریر کے آئندہ نسلوں پر اثرات سے خوف آتا ہے۔

ہم بحیثیت انسان ہمیشہ قلم فروشی کے قبیح اور مضر اثرات سے نبرد آزما رہے ہیں۔ شاہ پرستی، بے جا ستائش، کذب نویسی نے آنے والی نسلوں کو فکری اور نظری اندھیروں میں داخل کیا ہے اور نسلوں کی نسلیں ان تحریوں کے شکنجے میں زندگی برباد کرکے رخصت ہوئی ہیں، انسانی تہذیب کا جتنا نقصان اس قلم فروشی نے کیا ہے، شائد ہی کسی اور چیز نے کیا ہو۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے مابین ہمیشہ فیض جیسے سر پھرے موجود رہتے ہیں، جن کا کہنا ہے:
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

متعلقہ مضامین

  • صدر اور وزیراعظم کی سلطان محمد گولڈن کو مبارکباد، سرفراز بگٹی 5 کروڑ روپے انعام کا اعلان
  • 25 برس سے گھر سے باہر کھانا نہیں کھایا، سلمان خان کا انکشاف
  • 25 سال ہوگئے باہر ڈنر نہیں کیا: سلمان خان کا انکشاف
  • جنگ 1971: بریگیڈئیر (ر) محمد سرفراز کی آنکھوں دیکھی داستان
  • ڈکی بھائی کو گرفتار کرنے والے این سی سی آئی اے افسر سرفراز چوہدری کے ’ڈمی‘ کا وی ٹو میں انتہائی دلچسپ انٹرویو
  • قلم فروشی کا نوحہ
  • صوبے کا وزیراعلیٰ ہوں، مجھے کون روک سکتا ہے؟ سہیل آفریدی ایک بار پھر اڈیالہ جیل کے باہر پہنچ گئے
  • مریخ مشن: ناسا کے میون خلائی جہاز نے چپ سادھ لی، وجہ سمجھنے سے باہر
  • اڈیالہ کے باہر احتجاج جاری رہا تو عمران خان کو منتقل کیا جاسکتا ہے، رانا ثنا
  • اڈیالہ کے باہر مسلسل احتجاج ہوا تو عمران خان کی جیل منتقلی پر غور ہوگا، رانا ثنااللہ