دنیا بھر میں بچوں کو بحرانوں کے ایک نئے دور کا سامنا، یونیسف
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 جنوری 2025ء) موسمیاتی تبدیلی، نابرابری اور جنگوں کے باعث دنیا بھر میں کروڑوں بچوں کی زندگیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں اور ان کے لیے اچھے مستقبل کے مواقع محدود ہوتے جا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے تازہ ترین جائزے میں بتایا گیا ہے کہ بین الاقوامی قانون کی پامالی سے بچوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں، وہ بھوک اور بیماریوں کا آسان شکار بن رہے ہیں اور انہیں نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔
Tweet URLیونیسف یہ رپورٹ ہر سال کے آغاز پر جاری کرتا ہے جس میں اُس برس بچوں کے لیے ممکنہ خطرات اور انہیں تحفظ دینے کے طریقوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
'2025 میں بچوں کے لیے امکانات: مستقبل کے لیے مستحکم نظام کی تعمیر' کے عنوان سے جاری کردہ یہ رپورٹ قومی سطح پر ایسے نظام مضبوط کرنے کا تقاضا کرتی ہے جن کے ذریعے بچوں پر بحرانوں کے اثرات میں کمی لائی جائے اور انہیں درکار مدد تک ان کی رسائی یقینی ہو سکے۔
مسلح تنازعات اور بچوں کے مسائلرپورٹ کے مطابق، رواں سال مسلح جنگوں کے باعث بچوں کو لاحق سنگین خطرات برقرار رہیں گے جبکہ ان کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
اس وقت دنیا کو دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑی تعداد میں جنگوں کا سامنا ہے۔ 473 ملین بچوں کا تعلق مسلح تنازعات کا شکار علاقوں سے ہے۔ 1990 کی دہائی کے بعد ایسی جگہوں پر رہنے والے بچوں کی تعداد 10 فیصد سے بڑھ کر 19 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔بڑھتی ہوئی ارضی سیاسی مخاصمت اور کثیرفریقی اداروں کے 'مفلوج' ہو جانے کے باعث ریاستیں اور غیرریاستی کردار بین الاقوامی قوانین کو نظرانداز کر رہے ہیں جنہیں شہریوں کے تحفظ کی خاطر بنایا گیا تھا۔
اس طرح جنگوں میں سکولوں اور ہستالوں پر حملے عام ہو گئے ہیں جن سے بچے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔عالمی مالیاتی نظام کی ناکامییونیسف کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں حکومتوں کے لیے بچوں پر ضروری سرمایہ کاری کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ سست رو ترقی، قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ، محصولات سے حاصل ہونے والی ناکافی آمدنی اور ترقیاتی امداد میں کمی اس کی بڑی وجوہات ہیں۔
بھاری حکومتی قرضے بھی اس صورتحال کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس وقت تقریباً 400 ملین بچے ایسے ممالک میں رہتے ہیں جن پر قرضوں کا شدید دباؤ ہے اور ان کی ادائیگی پر اٹھنے والے اخراجات کے باعث بچوں پر خرچ کی جانے والی رقم میں متواتر کمی واقع ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بنیادی نوعیت کی اصلاحات کے بغیر ممالک پر یہ بوجھ بڑھتا چلا جائے گا۔
رواں سال دنیا کو عالمی مالیاتی نظام چلانے والے اداروں، پالیسیوں، قوانین اور طریقہ ہائے کار میں اصلاحات کے حوالے سے اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق، موسمیاتی بحران بچوں کی ترقی، صحت، تعلیم اور بہبود کو غیرمتناسب طور سے متاثر کر رہا ہے اور اس کے اثرات دائمی ہو سکتے ہیں۔
راوں سال عالمگیر موسمیاتی اہداف کی جانب پیش رفت کا اہم موقع ہو گا۔ دنیا کو اس بحران سے نجات دلانے کے لیے جامع اور مستحکم پالیسی سازی، مناسب و مساوی مقدار میں مالیاتی وسائل اور سرمایہ کاری، مضبوط انضباطی و احتسابی طریقہ ہائے کار اور نگرانی کے موثر نظام درکار ہوں گے۔
ڈیجیٹل خدمات تک بہتر رسائییونیسف نے بتایا ہے کہ رواں سال متعدد ڈیجیٹل رجحانات دنیا کے مستقبل کی تشکیل کریں گے۔ نئی ٹیکنالوجی میں ہونے والی تیزتر ترقی تعلیم سےلے کر اطلاعات اور ڈیجیٹل معیشت میں شرکت تک ہر پہلو سے بچوں کی زندگی متشکل کرے گی۔
'ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر' (ڈی پی آئی) ایک اور نیا رجحان ہے۔ یہ کئی طرح کے ڈیجیٹل نظام کا مجموعہ ہے جو سرکاری و نجی خدمات تک مساوی رسائی فراہم کر سکتے ہیں۔
اس کی بدولت بڑے پیمانے پر سرکاری خدمات کی فراہمی ممکن ہو گی جس سے بچے بھی مستفید ہوں گے اور دنیا بھر میں اسے تیزی سے اختیار کیا جا رہا ہے۔'ڈی پی آئی' کے ذریعے حکومتوں کی جانب سے خدمات کی فراہمی اور لوگوں سے رابطے کا طریقہ کار بالکل تبدیل ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں ترقی، شمولیت، اعتماد، اختراع اور انسانی حقوق کے احترام میں معاون قوانین کو فروغ دینے میں بھی اس کا مرکزی کردار ہو سکتا ہے۔
تاہم، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں ڈیجیٹل رسائی کے حوالے سے مسائل ہر بچے کے 'ڈی پی آئی' سے مستفید ہونے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس کے علاوہ، کئی طرح کے ڈیجیٹل نظام میں معلومات کی ہم آہنگی اور ان معلومات کو تحفظ ضمانت کے حوالے سے مسائل پر بھی قابو پانے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ اور نئے بحران عالمگیر انتظام کے مستقبل کو بھی کئی طرح کے مسائل سے دوچار کریں گے۔ رواں سال ممالک اور اداروں کو اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا کہ آیا عالمگیر کثیرفریقی نظریہ کار دنیا کو درپیش مشترکہ مسائل کا حل پیش کر سکے گا یا مزید انتشار کا شکار ہو کر اجتماعی اقدامات میں ناکامی کا سبب بنے گا۔
یونیسف کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے جو سمت اختیار کی جائے گی اس کے دنیا بھر میں بچوں کے حقوق اور بہبود کو تحفظ دینے کی کوششوں پر گہرے اثرات ہوں گے۔
بچوں کو ترجیح دینے کی ضرورترپورٹ کے مصنفین نے کہا ہے کہ ایسے نظام اختیار کرنا اور انہیں ترقی دینا بہت ضروری ہے جن سے بچوں کی زندگیوں اور مستقبل کے امکانات کو بہتر بنایا جا سکے۔
یہ نظام شمولیت، مساوات اور احتساب کے اصولوں پر استوار ہونا چاہئیں اور ان میں بچوں کے حقوق اور ضروریات کو مقدم رکھا جائے۔ علاوہ ازیں، یہ محض دور حاضر کے مسائل کا حل ہی پیش نہ کریں بلکہ ان میں مستقبل کے بارے میں درست اندازے قائم کرنے اور اس کی تیاری کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دنیا بھر میں اور انہیں مستقبل کے حوالے سے میں بچوں رواں سال کے باعث بچوں کی رہے ہیں دنیا کو بچوں کے ہوں گے رہا ہے کے لیے اور ان
پڑھیں:
دنیا زراعت میں ترقی کر کے آگے نکل گئی اور ہم قوم کا قیمتی وقت ضائع کرتے رہے. وزیراعظم
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 اپریل ۔2025 )وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دنیا نے زراعت میں بہت ترقی کی اور آگے نکل گئے، ہم قوم کے قیمتی وقت کا ضیاع کرتے رہے، پاکستان کو اللہ تعالی نے زرخیز زمین، قابل زرعی ماہرین، محنتی کسانوں سے نوازا ہے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں قومی زرعی پالیسی کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور نوجوان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر غور کیا گیا، اس کے علاوہ اجلاس میں تجربہ کار ماہرین کی رہنمائی سے ایک مربوط لائحہ عمل کی تشکیل پر بھی غور کیا گیا.(جاری ہے)
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہاکہ پاکستان کو اللہ تعالی نے زرخیز زمین، قابل زرعی ماہرین اور محنتی کسانوں سے نوازا ہے، وزیراعظم نے کہا ہے کہ زرعی، گھریلو صنعتوں، چھوٹے و درمیانے حجم کے کاروبار اور سٹوریج کی سہولیات کو فروغ دے کر زرعی شعبے کو بھرپور انداز میں ترقی دی جا سکتی ہے، پاکستان ایک زمانے میں کپاس، گندم سمیت دیگر اجناس میں خود کفیل تھا، اب گندم کی ہماری فی ایکڑ پیداوار ترقی یافتہ ممالک کے مقابلہ میں کم ہے، ہم کپاس درآمد کر رہے ہیں. انہوں نے کہاکہ اللہ نے ہمیں مواقع اور صلاحیتوں سے نوازا ہے لیکن زراعت کے شعبے میں جو ترقی کرنی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی، دنیا نے زراعت میں بہت ترقی کی اور آگے نکل گئے، ہم قوم کے قیمتی وقت کا ضیاع کرتے رہے. انہوں نے کہا ہے کہ وزیراعظم ملک کی 65 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں اس آبادی کے بہتر طرز زندگی اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کو دیہی علاقوں میں بروئے کار لانے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے گئے، پاکستان میں نجی سطح پر زرعی مشینری بنانے کیلئے کچھ ادارے کام کر رہے ہیں. شہباز شریف نے کہا ہے کہ ایک زمانے میں کامن ہارویسٹرز باہر سے آتے تھے اور ایک دو اداروں نے ڈیلیشن پروگرام بھی شروع کیا، چھوٹے کاشتکاروں کی سہولت کیلئے سروسز کمپنیاں بنائی گئی تھیں تاہم ان کی منظم انداز میں سرپرستی نہیں کی گئی. وزیراعظم نے کہاکہ زراعت میں آگے بڑھنے کیلئے متعلقہ فریقین کی آرا اور تجاویز کو بغور سنا جائے، پاکستان میں گھریلو صنعت اور ایس ایم ایز میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے، آف سیزن اجناس کی اسٹوریج کا خاطرخواہ انتظام نہیں ہے، آف سیزن اجناس کی ویلیو ایڈیشن کیلئے چھوٹے پلانٹس نہیں لگائے گئے. اجلاس کے شرکا نے زرعی ترقی کے لیے جامع اصلاحات اور سائنسی بنیادوں پر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا اور زرعی ڈیجیٹلائزیشن اور مصنوعی ذہانت کے تحت دیہی علاقوں میں اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی دستیابی بہتر بنانے کی تجاویز پیش کیں،اجلاس میں کسانوں کا مرکزی ڈیٹابیس تشکیل دینے اور زرعی ان پٹس کی ترسیل کے لیے بلاک چین اور کیو آر کوڈ سسٹمز متعارف کرانے کی بھی تجاویز پیش کی گئیں وزیراعظم شہباز شریف نے اس حوالے سے ورکنگ کمیٹیاں فوری تشکیل دینے اور دو ہفتوں میں قابل عمل سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کی.